ہم اور زندگی

بدھ 16 ستمبر 2020

Samina Mohiuddin

ثمینہ محی الدین

آج کچھ بات کرتے ہیں موٹروے پر ہونے والے افسوس ناک واقعے پر۔ اب تو ہماری عادت سی ہو گئی ہے۔ ہر حادثے پر چند روز کا شور اور پھر کان پھاڑدینے اور دلوں کو خاک کردینے والی خاموشی!
ہر طرف بے ہنگم شور برپا ہے۔ ہر کوئی چیخ رہا ہے۔ کوئی ملزموں کو پھانسی چڑھانے، جلانے یا اعضا کاٹنے کا مشورہ دے رہا ہے تو کوئی مظلوم عورت پر سوال اٹھا رہا ہے۔

کوئی امریکی ریپ کے اعداد و شمار پیش کر رہا ہے تو کوئی جیلوں موت کی کوٹھڑیوں میں بند لوگوں کی تعداد اور جرائم پر روشنی ڈال رہا ہے۔
کیا ممکن ہے ہم کچھ دیر کو رک جائیں۔ سوچیں۔ کیا ہو رہا ہے۔؟
میں چند حقائق آپ کے سامنے رکھتی ہوں ۔ پھر اس پر بات کرتے ہیں۔
1۔ انسان کی ہزاروں کی سال کی تاریخ اب ہمارے سامنے ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ موجود ہے جس کو جھٹلانا ممکن نہیں۔

(جاری ہے)

اس تاریخ کا سبق جو تمام دور کی کتابوں، مجسموں، روایات اور نمونوں سے ہم تک پہنچا ہے، گواہ ہے کہ انسان اذل سے جنسی روابط کا دلدادہ ہے۔
2۔انسانی معاشروں میں جتنے بھی قوانین جنسی عمل کے متعلق بنے ہیں، وہ کسی بھی نظام حکومت میں ہوں ان کا مقصد ایک خاص قسم کے معاشرے کی تشکیل رہا ہے۔ یعنی پابندیوں کا مقصد یہ تھا معاشرے میں کچھ نا پسندیدہ نتائج جو بے مہار جنسی آزادیوں سے پیدا ہونگے ان سے بچا کا سکے۔


3۔ کسی بھی معاشرے میں عوام کا رہن سہن، روایات اور عادات یعنی کلچر صدیوں میں تشکیل پاتا ہے۔ کلچر کو تبدیل کردینے کی خواہش رکھنے والے ہمیشہ تاریخ کے ہاتھوں رزیل ہوئے ہیں۔اس کی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں
4۔ کسی بھی معاشرے میں جنسی خواہش کو بجائے خود قابل نفرت نہیں کہا جا سکتا۔ ایسا ہو تو معاشرے کو بحیثیت مجموعی جنسی ناکارہ بن جانے پر اصرار کرنا چاہیے جو کہ ممکن نہیں

چنانچہ ہم کہ سکتے ہیں کہ جنسی عمل تو ہمیں عزیز ہے، لیکن ہم چاہتے ہیں یہ کچھ اصولوں کے تحت ہو تاکہ معاشرے میں خاندان کا نظام بخوبی چلتا رہے۔
6۔یہاں ضروری ہے کہ میں ایک آفاقی سچائی آپ کے سامنے رکھوں۔ دنیا میں کسی بھی دور میں۔ کسی بھی معاشرے میں کوئی بھی ایسا phonemonen آج تک پیدا نہیں ہوا جو انسانوں میں موجود ہو اور اسکے اصولوں سے بغاوت کرنے والے موجود نہ ہوں۔

یعنی شراب جن تک کسی معاشرے میں موجود ہے، دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو تمام کے تمام لوگوں کو قائل کر لے کہ سب تائب رہیں۔ اسی طرح کو ئی بھی نیک سے نیک معاشرے کے تمام لوگ اپنے مذہب کے ضروری ترین احکامات پر بھی کبھی عمل نہیں کر سکتے۔ ہر وقت معاشرے میں ایسے لوگ موجود رہیں گے جو آپ کے معاشرتی اصولوں کو نہیں مانتے۔
7۔چنانچہ ضروری ہے کہ سیکس کے معاملے میں (اور دوسرے معاملات میں بھی) ہم ایسا ماحول وضع کریں جس میں ہم سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں کہ ایسے لوگ جو ہمارے اصولوں کو نہیں مانیں گے ان کی اس بغاوت کو کچلنے کے لئے ہم کتنے وسائل مہیا کر سکتے ہیں اور اگر نہیں کر سکتے تو اس کی کتنی قیمت دینے کے لئے ہم تیار ہیں۔


8۔ یا تو آپ اپنے معاشر ے کے ہر فرد کو ہر وقت مانیٹر کرنے کا انتظام کریں۔ اگر یہ ممکن نہیں تو ایسے باغیوں کے لیئے متبادل کا انتظام کریں۔
9۔معاشرے کے تمام لوگوں کو ڈیبیٹ کرنی چاہیے کہ یا تو دنیا کے دوسرے معاشروں کی طرح اپنے شہروں میں ایسے علاقے بننے دیں، جہاں جنسی وحشیVent Out کر سکیں۔ نہیں تو اپنے بچوں کو مولویوں کے ہاتھوں، راہگیر لڑکیوں کو رہگیروں کے ہاتھوں، کمسن لڑکوں کو ان کے ارد گرد کے لوگوں کے ہاتھوں ریپ ہوتا دیکھتے رہیں۔


10۔واضح رہے کہ Vent Out Opportunity کے بعد بھی یہ جرم مکمل ختم نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہی آفاقی اصول ہے کہ ہر وقت قانون توڑنے والے موجود ہونگے، لیکن اس سے، جیسا کہ ہم سمجھ سکتے ہیں بہت سے کیس کم ہو جائیں گے۔
11۔ آخر میں میری گزارش ہوگی کہ میری باتوں کے جواب میں مغربی ممالک کے ریپ کے نمبر میرے منہ پر مارنے سے پہلے جان لیں، کہ ان ممالک کے کلچر کو دیکھتے ہوئے یہ شرح ممکنہ کم ترین ہے۔ میری گزارشات پر مدلل جواب دینے کے لئے آپ کو دنیا کی روز اول کی تاریخ سے آج تک ، کسی بھی معاشرے کے، کسی بھی قانون کے بارے میں بس یہ ثابت کرنا ہے کہ تمام کے تمام معاشرے نے اس پے عمل کر لیا تھا۔ پھر ہم بھی آپ کے ساتھ مل کر مار دو جلا دو تحریک میں شامل ہو جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :