بھیڑ چال اور بھیڑیے

جمعرات 1 اکتوبر 2020

Samina Mohiuddin

ثمینہ محی الدین

بھیڑ چال تو شاید ہمیشہ سے ہی ہماراوطیرہ رہی ہے لیکن بھیڑ چال چلتے چلتے ہم بھیڑیوں میں کب شامل ہو گئے یہ پتا نہیں چلا۔ کام کرنے سے لے کر کسی کے قدموں میں بیٹھنے تک ہم ایک دوسرے کی پیروی کرتے ہیں۔ کوئی گند میں ہاتھ مارتا ہے تو ہم لیمو نچوڑ کی طرح اسکو بولے بھی جاتے ہیں اور خود بھی ہاتھ گندے کر رہے ہوتے ہیں صرف یہ دیکھنے کے لئے کے اسے کیا مل رہا ہے؟ گند میں ہاتھ مارنے سے!
اسی دیکھا دیکھی میں ہم بہت دور نکل آئے ہیں۔

ہم نے بھیڑ چال تو چل لی لیکن جانے انجانے میں بھیڑیوں کی قطاروں میں شامل ہو گئے ہیں۔ اب ہمیں نہ بھیڑوں کی خبر ہے نہ بھیڑیوں کی پہچان۔
ایک وقت تھا جب ہر کوئی اپنی عزت بچانے کی خاطر دوسروں کی عزت بھی اپنے سر پے اٹھائے پھرتا تھا۔

(جاری ہے)

لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگ بدلتے گئے۔ لوگوں کا رہن سہن، انداز گفتگو، رنگ ڈھنگ، ترجیحات اور سب سے بڑھ کر لہجے اور سوچ۔


باقی سب تووقت کے ساتھ ساتھ قابل قبول ہو جاتا ہے ، لیکن سوچ میں تبدیلی اگر منفی ہو تو بہت بری طرح تباہی کرتی ہے۔ بلکل اسی طرح جس طرح آج کل دوسروں کی دیکھا دیکھی ہم وہ حس کھو بیٹھے ہیں جو سمجھ دیتی ہے سوچ کو۔ سوشل میڈیا سے لے کر اپنے کمرے میں رکھے جرابوں کے جوڑے تک کے لئے ہم دوسروں کے دماغوں میں گھس جاتے ہیں۔ اور المیہ یہ ، کہ یہ بھیڑ چال ہمارے گھروں کی جڑوں میں روایات اور اقدار کا خون بہا رہی ہے۔


زینب بچی کے قتل سے لے کر ملتان کے 11 سالہ بچے تک ہمارے ساتھ، ہماری قطاروں میں گھس بیٹھے بھیڑیے۔۔۔۔ ہمیں خود پہچان کرنے ہوں گے۔ اس کے لئے سب سے پہلے اپنے گھر کی دہلیز کے اِس پار آنکھوں کو چوکنا رکھیں۔ کبھی کبھی مردار کھانے والا آپکا اپنا اور محافظ بھی ہو سکتا ہے۔
(معذرت کے ساتھ) میں ان ماؤں کو سب سے پہلے زمہ دار ٹھہراؤں گی جو بچوں کو راجہ رانی کی کہانیاں سنانے سے زیادہ، انکے ہر قدم کو آنکھوں اور قدموں کی چاپ کو کانوں میں رکھنے سے زیادہ ،سسرال یا سہیلی کی برائیوں کو اہمیت دیتی ہیں۔

اور شوہر کی آمدورفت، اور چال ڈھال پہ نظر رکھتی ہیں۔ کوئی بچہ 60 سیکنڈ سے زیادہ ماں کی آنکھوں سے دور ہو اور ماں کو پتا نہ چلے تو پھر وہ ماں کہلانے کے لائق ہی نہیں۔
لیکن اس سے آگے ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کے اگر ماں ہی بھیڑیے کا شکار بن جائے تو قانون بنانے والوں سے لے کر اسکو نافذ کرنے والوں تک، سب کٹہرے میں ہوں۔
لیکن اس میں بھی ایک اور سوال بنتا ہے۔ پاکستان میں ایسا کب ہو گا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :