
کموں شہید سے کوٹ سبزل تک
بدھ 9 دسمبر 2020

شفیق اعوان
کوٹ سبزل اور کموں شہید سندھ اور پنجاب کی بارڈر لائن ہے۔ لیکن ایک قدم کے فاصلے سے دنیا ہی تبدیل ہو جاتی ہے۔ دونوں اطراف کے باسیوں کو ریاست نے کبھی بھی ایک آنکھ سے نہ دیکھا۔ لکیر کے ایک طرف ان کے لاڈلے اور ہر آواز پر کورنش بجا لانے والے تھے تو دوسری طرف والے مزاحمت پر یقین رکھنے والے تھے جو ”ریاست“ کو کبھی ایک آنکھ نہ بھاۓ۔ ریاست نے کموں شہید کے اس پار والے باسیوں کی طرف آنکھ پر مستقل "Eye Patch" لگایا ہے کہ اس طرف نظر ہی نہ پڑے ۔ وہ خوش تھے کہ کوٹ سبزل کی طرف والے 65 فیصد پاکستان ان کے ساتھ ہے تو 35 فیصد والوں کی کیا فکر کرنی۔ کوٹ سبزل کا اس 35 فیصد میں حصہ بھی 20 فیصدسے زیادہ نہ تھا سو وہ ہمیشہ کی طرح محروم و معطون ہی ٹھہرے۔
ریاست کوٹ سبزل کو اپنا عکس ہی نہ سمجھتی تھی بلکہ ان کو اپنے سانچے میں ڈھال کر ان پر اندھا اعتماد بھی کیا۔
کوٹ سبزل والوں نے بھی ریاست کو کبھی مایوس نہ کیا اور ہمیشہ سرخم تسلیم کیا۔ چاہے مارشل لا ٕ لگے ہوں حکومتیں ختم ہوئی ہوں ہر صورت میں اس طرف کے باسیوں نے اسی چوکھٹ پر سجدہ کیا اور بدلے میں اس طرف کے سیاستدانوں کو ”ریاست“ سے اتنا کچھ ملا کہ وہ بھی لمبی تان کر سوئے رہے۔ ان کی خدمات بھی اتنی تھیں کہ ان سے بے وفائی تو کجا یہ بھی توقع نہ تھی کہ ’ریاست‘ کے آگے اپنا جھکا ہوا سر بھی اٹھائیں گے۔ کنونشن مسلم لیگ سے لے کر جونیجو لیگ، مسلم لیگ نواز اور مسلم لیگ قائداعظم تک سب ’ریاست‘ کے درباری رہے۔ رہی سہی کثر تبدیلی کے علم برداروں نے پوری کر دی اور آمنا صدقنا کی اصل تصویر بن گۓ۔ مسلم لیگ ق نے تو ”ریاست“ کے نمائندے کو دس بار وردی سمیت منتخب کروانے کا عندیہ بھی دے دیا۔ ”ریاست“ کے لئے یہ افیون کافی تھی۔
دوسری طرف کموں شہید کے باسیوں نے ہمیشہ جدوجہد کا علم اٹھاۓ رکھا۔ ان کی جیت کو ہار میں بدلنے کے لئے آئی جے آئی بنانے سمیت ہر ہتھکنڈہ آزمایا گیا۔ بلکہ اس شخص ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی گھاٹ اتار دیا جس نے بھارت کے تسلط سے 90 ہزار فوجی اور ہزاروں ایکڑ رقبہ واپس لیا۔ ملک کو ایٹمی پروگرام دیا۔ ماں جیسی ”ریاست“ اتنی بے رحم ہو سکتی ہے یہ کبھی سوچا نہ تھا۔ پھر اس مرد مجاہد کا جنازہ بھی سنگین کے سایوں میں ادا کیا گیا۔ اس کی بیٹی اور بیوی کو آخری ملاقات سے بھی محروم رکھا گیا۔ لیکن ان تمام مظالم کے باوجود بھی کموں شہید والے ریاست کے ساتھ وفادار رہے کبھی اف نہ کی۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو شہید کی بیٹی اور مسلم دنیا کی پہلی وزیراعظم کی حکومت کو ’ریاست‘ نے دوبار گھر بھیج دیا۔ یہی نہیں اسی پنڈی کے لیاقت باغ کے اندر جہاں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تھا۔ اسی لیاقت باغ کے باہر بے نظیر بھٹو کو بھی شہید کیا گیا۔ اس کے باوجود بھی کموں شہید والوں نے” پاکستان کھپے “ کا نعرہ لگایا اور ”ریاست“ کے ساتھ وفاداری نبھائی اور کبھی اداروں پر تنقید نہ کی۔ گو کہ ڈھکے چھپے الفاظ میں گلہ ضرور کرتے رہے۔ ”ریاست“ کا ہر ظلم کموں شہید والوں نے برداشت کیا جبکہ کوٹ سبزل والوں کے لئے ستے خیراں تھیں۔
پھر ہوا یوں کہ ”ریاست“ کے لاڈلے کوٹ سبزل والے کو بھی ریاست سے قدرے اختلافات ہو گۓ اسے بھی سبق دکھا سکھا دیا گیا حتیٰ کہ اسے جلاوطن ہونا پڑا ۔ لیکن وقت بدلا اور سابقہ دیرینہ تعلقات کی بنا پر ایک بار پھر وہ ریاست کی آنکھ کا تارا بن گیا اور شان و شوکت سے وطن لوٹا۔ اس کی ایک وجہ کموں شہید والوں سے ”ریاست“ کی نا پسندیدگی بھی تھی۔ کوٹ سبزل والے ہمیشہ ”ریاست“ کے لئے برخوردار ہی رہے اور ہمیشہ اسے گلے لگایا ۔ غلامی یا فرمانبرداری کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ کوٹ سبزل سے کبھی کوئی قائد اور لیڈر پیدا نہ ہو سکا۔ جبکہ کموں شہید سے قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو جیسے لیڈر پیدا ہوتے رہے۔ کوٹ سبزل کے فرمانبردارانہ رویے کی وجہ سے ریاست نے ایک بار پھر کروٹ لی اور اس کی نگاہ الفت پھر نوازشریف پر پڑی اور اسے تیسری بار گلے لگا لیا۔ لیکن یہ تعلق زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا اور کوٹ سبزل کا شہزادہ ایک بار پھر ریاست کا مطعون ٹھہرا۔ اسے عدالتوں میں گھسیٹا گیا وزارت عظمیٰ سے فارغ کرایا گیا اور پھر نشان عبرت بنا دیا گیا۔
شہزادے کے آنکھیں دکھانے پر ریاست نے اقتدار کے پتلی تماشے پر کنٹرول رکھنے کے لیے ایک کھلاڑی کی صورت میں ایک نیا پتلا تیار کیالیکن اسے جلداحساس ہو گیا کہ وہ ”گھگو گھوڑے“ پر داٶ لگا بیٹھے ہیں لیکن مرتے کیا نہ کرتے گلے پڑا ڈھول جیسے تیسے کر کے بجانا ہی پڑا ۔
ریاست نے بھی باغی شہزادے کو نشان عبرت بنانے کے لیے کوٸی کثر نہ چھوڑی ۔ اس بار شہزادہ عدالت کے ذریعے مجرم ٹھہرا تاحیات نا اہل ہوا اور بیٹی سمیت جیل بھیج دیا گیا یہ اس شہزادے پر بہت کڑا وقت تھا۔ وہ ایسے رویوں کا عادی نہ تھا نہ زندگی میں اس طرح کی کوئی جدوجہد کی اور نہ جیل دیکھی اس کے لئے یہ تجربہ نیا تھا۔ ”ریاست“ نے یہی بس نہ کی بلکہ اگلی حکومت ایک ایسے ”کھلاڑی“ کے ہاتھ آ گئی جو سیاست کے میدان میں اناڑی تھا۔ اس نے ”ریاست“ کی مدد سے شہزادے کے خاندان سمیت اس کی عاقبت خراب کر دی۔ لیکن شہزادہ آخر شہزادہ تھا۔ لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو یا بے نظیر بھٹو نہ تھا کہ اسے بھی ان کی طرح مثال بنا دیا جاتا۔ چشم فلک نے دیکھا کہ وہ شہزادہ جس کو کئی برس کی سزا ہو گئی تھی کو جیل سے ضمانت پر رہا کر دیا گیا اور بیرون ملک علاج کے لئے بھیج دیا گیا۔ شہزادے نے بے حد دکھ جھیلے تھے اس کی بیٹی کو وطن عزیز میں ہی گھر میں رکھا گیا اور اس کی زبان بندی کر دی گئی۔ شہزادہ بیرون ملک جا کر کچھ عرصہ تو خاموش رہا۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کے صبر کاپیمانہ لبریز ہوتا گیا اوراس کا نشانہ ”ریاست“ بنی اور دنیا نے دیکھا کہ جس ’ریاست‘ نے شہزادے کو ایک عام تاجر سے وزارت عظمیٰ تک پہنچایا اس نے اپنے اوپر وقت پڑنے پر ریاست کے ”پھٹے“ اکھیڑ دیئے۔ شہزادہ گاہے بگاہے تو ریاست پر اپنا غصہ اتارتا رہا۔ اور گلے کرتا رہا۔ اس نے ”ریاست“ کی طرف اپنے ”ہرکارے“ بھیجے اور ان کو اپنی پرانی خدمات یاد کروا کر کچھ رعایتیں طلب کیں لیکن دوسری طرف سے صاف جواب نے شہزادہ کو مزید اشتعال دلا دیا۔
شہزادے نے ریاست کے مبینہ ”کٹھ پتلی کھلاڑی“ کی حکومت کے خلاف ایک تحریک کا اعلان کر دیا۔ اس میں وہ تمام قوتیں شامل ہو گئیں جن کو ” کھلاڑی“ سے گلے تھے۔ ایک بڑے اجتماع میں شہزادے نے اپنے خطاب کے دوران ’ریاست‘ کے اصلی سربراہ کا نام لے کر تنقید کی اور اس کو اپنے پر کئے گئے تمام مظالم کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ اور یہ سب کچھ لکیر کی اس طرف کوٹ سبزل کی طرف ہوا۔ شہزادے کے اس طرز تخاطب کو دیگراتحادیوں نے بھی حیرانی سے دیکھا لیکن تیر چل چکا تھا۔گو کہ شہزادے کے بعد کسی اور نے اس کے بیانئے کو نہیں اپنایا۔
یقینا آج تک سیاستدانوں کا ”ریاست“ سے جس قدر بھی اختلاف ہوا ہو کسی نے ”ریاست“ کے سربراہ کا نام کھل کر نہ لیا اور نہ ہی اسے تمام مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ان کے اس بیانئے کو ہمسایہ اور دشمن ملک بھارت نے خوب اچھالا اور اسی کی آڑ لے کرکھلاڑی نے اپنے سیاسی مخالف کو وطن دشمن بھی قرار دے دیا ۔ لیکن کموں شہید والوں نے توقع کے برعکس شہزادے کا بیانیہ نہ اپنا کر سب کوحیران کر دیا ۔ اس سے شہزادہ کو دلی صدمہ ہوا لیکن کموں شہید والوں نے ان پر ہونے والے پہلے مظالم کے باوجود ریاست پر کہیں براہ راست تنقید نہ کی۔ یہ ”ریاست“ والوں کے لئے بھی حیران کن تھا کہ جسے انہوں نے پالا پوسا اور کہاں تک پہنچایا وقت پڑنے پر وہی ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور جن کو اس نے ہمیشہ دبایا اس نے ان کے خلاف بیانئے پر چلنے سے انکار کر دیا۔
اب ریاست کی بھی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ سوال کموں شہید اور کوٹ سبزل کے باسیوں کا نہیں ہے بلکہ اس سوچ کا ہے اس لئے ریاست کو کموں شہید والوں نے بھی وہی رویہ رکھنا چاہئے جو کوٹ سبزل والوں سے ہے۔ بہتر ہوتا کہ”ریاست“ کے اصل حکمرانوں کو پورے ملک کو آٸین کے مطابق چلنے دیں اور سب کو مساوات اور برابری کی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ اگر ”ریاست“ کے غیر مساوی سلوک کی وجہ سے کموں شہید کی طرف بھی کوئی ”شہزادہ“ کھڑا ہو گیا تو پھر ریاست کے لئے مشکل پیدا ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے ہمارا ماضی کوئی تابناک نہیں ہے۔ اللہ ہم پر ایسا وقت نہ لائے لیکن ریاست کو بھی اپنی آنکھ سے (Eye Patch) اتارنا ہو گا۔اپنے شہزادے کے بیانئے سے ہی سبق سیکھ کر اپنا اور وطن عزیز کا مستقبل محفوظ بنا لیں ۔
ریاست کوٹ سبزل کو اپنا عکس ہی نہ سمجھتی تھی بلکہ ان کو اپنے سانچے میں ڈھال کر ان پر اندھا اعتماد بھی کیا۔
(جاری ہے)
دوسری طرف کموں شہید کے باسیوں نے ہمیشہ جدوجہد کا علم اٹھاۓ رکھا۔ ان کی جیت کو ہار میں بدلنے کے لئے آئی جے آئی بنانے سمیت ہر ہتھکنڈہ آزمایا گیا۔ بلکہ اس شخص ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی گھاٹ اتار دیا جس نے بھارت کے تسلط سے 90 ہزار فوجی اور ہزاروں ایکڑ رقبہ واپس لیا۔ ملک کو ایٹمی پروگرام دیا۔ ماں جیسی ”ریاست“ اتنی بے رحم ہو سکتی ہے یہ کبھی سوچا نہ تھا۔ پھر اس مرد مجاہد کا جنازہ بھی سنگین کے سایوں میں ادا کیا گیا۔ اس کی بیٹی اور بیوی کو آخری ملاقات سے بھی محروم رکھا گیا۔ لیکن ان تمام مظالم کے باوجود بھی کموں شہید والے ریاست کے ساتھ وفادار رہے کبھی اف نہ کی۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو شہید کی بیٹی اور مسلم دنیا کی پہلی وزیراعظم کی حکومت کو ’ریاست‘ نے دوبار گھر بھیج دیا۔ یہی نہیں اسی پنڈی کے لیاقت باغ کے اندر جہاں پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا تھا۔ اسی لیاقت باغ کے باہر بے نظیر بھٹو کو بھی شہید کیا گیا۔ اس کے باوجود بھی کموں شہید والوں نے” پاکستان کھپے “ کا نعرہ لگایا اور ”ریاست“ کے ساتھ وفاداری نبھائی اور کبھی اداروں پر تنقید نہ کی۔ گو کہ ڈھکے چھپے الفاظ میں گلہ ضرور کرتے رہے۔ ”ریاست“ کا ہر ظلم کموں شہید والوں نے برداشت کیا جبکہ کوٹ سبزل والوں کے لئے ستے خیراں تھیں۔
پھر ہوا یوں کہ ”ریاست“ کے لاڈلے کوٹ سبزل والے کو بھی ریاست سے قدرے اختلافات ہو گۓ اسے بھی سبق دکھا سکھا دیا گیا حتیٰ کہ اسے جلاوطن ہونا پڑا ۔ لیکن وقت بدلا اور سابقہ دیرینہ تعلقات کی بنا پر ایک بار پھر وہ ریاست کی آنکھ کا تارا بن گیا اور شان و شوکت سے وطن لوٹا۔ اس کی ایک وجہ کموں شہید والوں سے ”ریاست“ کی نا پسندیدگی بھی تھی۔ کوٹ سبزل والے ہمیشہ ”ریاست“ کے لئے برخوردار ہی رہے اور ہمیشہ اسے گلے لگایا ۔ غلامی یا فرمانبرداری کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ کوٹ سبزل سے کبھی کوئی قائد اور لیڈر پیدا نہ ہو سکا۔ جبکہ کموں شہید سے قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو جیسے لیڈر پیدا ہوتے رہے۔ کوٹ سبزل کے فرمانبردارانہ رویے کی وجہ سے ریاست نے ایک بار پھر کروٹ لی اور اس کی نگاہ الفت پھر نوازشریف پر پڑی اور اسے تیسری بار گلے لگا لیا۔ لیکن یہ تعلق زیادہ عرصہ قائم نہ رہ سکا اور کوٹ سبزل کا شہزادہ ایک بار پھر ریاست کا مطعون ٹھہرا۔ اسے عدالتوں میں گھسیٹا گیا وزارت عظمیٰ سے فارغ کرایا گیا اور پھر نشان عبرت بنا دیا گیا۔
شہزادے کے آنکھیں دکھانے پر ریاست نے اقتدار کے پتلی تماشے پر کنٹرول رکھنے کے لیے ایک کھلاڑی کی صورت میں ایک نیا پتلا تیار کیالیکن اسے جلداحساس ہو گیا کہ وہ ”گھگو گھوڑے“ پر داٶ لگا بیٹھے ہیں لیکن مرتے کیا نہ کرتے گلے پڑا ڈھول جیسے تیسے کر کے بجانا ہی پڑا ۔
ریاست نے بھی باغی شہزادے کو نشان عبرت بنانے کے لیے کوٸی کثر نہ چھوڑی ۔ اس بار شہزادہ عدالت کے ذریعے مجرم ٹھہرا تاحیات نا اہل ہوا اور بیٹی سمیت جیل بھیج دیا گیا یہ اس شہزادے پر بہت کڑا وقت تھا۔ وہ ایسے رویوں کا عادی نہ تھا نہ زندگی میں اس طرح کی کوئی جدوجہد کی اور نہ جیل دیکھی اس کے لئے یہ تجربہ نیا تھا۔ ”ریاست“ نے یہی بس نہ کی بلکہ اگلی حکومت ایک ایسے ”کھلاڑی“ کے ہاتھ آ گئی جو سیاست کے میدان میں اناڑی تھا۔ اس نے ”ریاست“ کی مدد سے شہزادے کے خاندان سمیت اس کی عاقبت خراب کر دی۔ لیکن شہزادہ آخر شہزادہ تھا۔ لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو یا بے نظیر بھٹو نہ تھا کہ اسے بھی ان کی طرح مثال بنا دیا جاتا۔ چشم فلک نے دیکھا کہ وہ شہزادہ جس کو کئی برس کی سزا ہو گئی تھی کو جیل سے ضمانت پر رہا کر دیا گیا اور بیرون ملک علاج کے لئے بھیج دیا گیا۔ شہزادے نے بے حد دکھ جھیلے تھے اس کی بیٹی کو وطن عزیز میں ہی گھر میں رکھا گیا اور اس کی زبان بندی کر دی گئی۔ شہزادہ بیرون ملک جا کر کچھ عرصہ تو خاموش رہا۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کے صبر کاپیمانہ لبریز ہوتا گیا اوراس کا نشانہ ”ریاست“ بنی اور دنیا نے دیکھا کہ جس ’ریاست‘ نے شہزادے کو ایک عام تاجر سے وزارت عظمیٰ تک پہنچایا اس نے اپنے اوپر وقت پڑنے پر ریاست کے ”پھٹے“ اکھیڑ دیئے۔ شہزادہ گاہے بگاہے تو ریاست پر اپنا غصہ اتارتا رہا۔ اور گلے کرتا رہا۔ اس نے ”ریاست“ کی طرف اپنے ”ہرکارے“ بھیجے اور ان کو اپنی پرانی خدمات یاد کروا کر کچھ رعایتیں طلب کیں لیکن دوسری طرف سے صاف جواب نے شہزادہ کو مزید اشتعال دلا دیا۔
شہزادے نے ریاست کے مبینہ ”کٹھ پتلی کھلاڑی“ کی حکومت کے خلاف ایک تحریک کا اعلان کر دیا۔ اس میں وہ تمام قوتیں شامل ہو گئیں جن کو ” کھلاڑی“ سے گلے تھے۔ ایک بڑے اجتماع میں شہزادے نے اپنے خطاب کے دوران ’ریاست‘ کے اصلی سربراہ کا نام لے کر تنقید کی اور اس کو اپنے پر کئے گئے تمام مظالم کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ اور یہ سب کچھ لکیر کی اس طرف کوٹ سبزل کی طرف ہوا۔ شہزادے کے اس طرز تخاطب کو دیگراتحادیوں نے بھی حیرانی سے دیکھا لیکن تیر چل چکا تھا۔گو کہ شہزادے کے بعد کسی اور نے اس کے بیانئے کو نہیں اپنایا۔
یقینا آج تک سیاستدانوں کا ”ریاست“ سے جس قدر بھی اختلاف ہوا ہو کسی نے ”ریاست“ کے سربراہ کا نام کھل کر نہ لیا اور نہ ہی اسے تمام مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ان کے اس بیانئے کو ہمسایہ اور دشمن ملک بھارت نے خوب اچھالا اور اسی کی آڑ لے کرکھلاڑی نے اپنے سیاسی مخالف کو وطن دشمن بھی قرار دے دیا ۔ لیکن کموں شہید والوں نے توقع کے برعکس شہزادے کا بیانیہ نہ اپنا کر سب کوحیران کر دیا ۔ اس سے شہزادہ کو دلی صدمہ ہوا لیکن کموں شہید والوں نے ان پر ہونے والے پہلے مظالم کے باوجود ریاست پر کہیں براہ راست تنقید نہ کی۔ یہ ”ریاست“ والوں کے لئے بھی حیران کن تھا کہ جسے انہوں نے پالا پوسا اور کہاں تک پہنچایا وقت پڑنے پر وہی ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا اور جن کو اس نے ہمیشہ دبایا اس نے ان کے خلاف بیانئے پر چلنے سے انکار کر دیا۔
اب ریاست کی بھی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ سوال کموں شہید اور کوٹ سبزل کے باسیوں کا نہیں ہے بلکہ اس سوچ کا ہے اس لئے ریاست کو کموں شہید والوں نے بھی وہی رویہ رکھنا چاہئے جو کوٹ سبزل والوں سے ہے۔ بہتر ہوتا کہ”ریاست“ کے اصل حکمرانوں کو پورے ملک کو آٸین کے مطابق چلنے دیں اور سب کو مساوات اور برابری کی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ اگر ”ریاست“ کے غیر مساوی سلوک کی وجہ سے کموں شہید کی طرف بھی کوئی ”شہزادہ“ کھڑا ہو گیا تو پھر ریاست کے لئے مشکل پیدا ہو سکتی ہے۔ اس حوالے سے ہمارا ماضی کوئی تابناک نہیں ہے۔ اللہ ہم پر ایسا وقت نہ لائے لیکن ریاست کو بھی اپنی آنکھ سے (Eye Patch) اتارنا ہو گا۔اپنے شہزادے کے بیانئے سے ہی سبق سیکھ کر اپنا اور وطن عزیز کا مستقبل محفوظ بنا لیں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.