
توہم پرستی اور عمران خان۔۔۔
بدھ 13 جنوری 2021

شفیق اعوان
بالا آخر وزیر اعظم عمران خان نے دس شہدا کی میتوں سے اپنی ضد منوا ہی لی اور کوٸٹہ میں ہزارہ برادری کے شہدا کی تدفین کے بعد ہی کوٸٹہ میں قدم رکھا۔ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے اور حاکم باپ جیسا لیکن کوٸٹہ میں ہزاراہ شہدا کے لیے یہ ریاست ماں بن سکی نہ حاکم باپ۔ ان مظلوموں نے صرف یہ کہا تھا کہ گھر سے جنازے اٹھاتے وقت گھر کا سربراہ سر پر ہو لیکن سربراہ نے مظلومین کے اس حق کو بلیک میلنگ گردانا۔ ہمیشہ پرسا دینے میت والے گھر جاتے ہیں لیکن ہمارے وزیر اعظم نے اس کے لیے بھی مظلومین کو طلب کیا۔ حاکموں کا یہی شیوہ ہوتا ہے ۔
حاکم وقت کے کوٸٹہ آنے سے پہلے ہی درباریوں نے سٹیج تیار کر رکھا تھا۔ ایران کے تعاون اور حکومتی دباٶ سے ریاست ہزارہ کمیونٹی کا اپنے پیاروں کی میتوں کے ساتھ جاری 6 روزہ دھرناختم کروانے میں کامیاب ہو ہی گٸ لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی توہم پرستی انا اور ضد جیت گٸی اور انسانیت ہار گٸی۔
انہوں نے ان مظلومین کے سر پر ہاتھ رکھنے کو اپنی سبکی سمجھا اور کہا گیا کہ یہ وزیر اعظم کا شیوہ نہیں۔ سلام ہے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈرا آرڈن کو جس نے اپنے وطن میں ایک مسجد پر حملے میں شہید ہونے والے مسلمانوں کے ورثإ کے پاس گٸیں اور ان کے سروں پر ہاتھ رکھا۔کم از کم اس نے انہیں بلیک میلر نہیں کہا اور شہدإ کے ایک ایک وارث سے تعزیت کی۔ اور ایک ہمارا وزیر اعظم ہے جو نام تو لیتا ہے ریاست مدینہ کا لیکن گیارہ شہدإ کی تعزیت کے لیے نہ جا سکا اور اپنی انا کا غلام بنا رہا۔
وزیر اعظم کی ہٹ دھرمی یہاں تک پہنچ گٸی کہ انہوں ہزاراہ شہدا ٕ کے مظلومین کو بلیک میلر تک کہہ دیا اور اس پر کمال یہ کہ HMV کی طرز پر ان کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج ان کے اس بیان کا بھی دفاع کرتی رہی۔ جہازی کابینہ کے کسی ایک ممبر اور کسی اتحادی نے بھی وزیراعظم کو اپنا رویہ تبدیل کرنے کو نہیں جس پر وہ اور شیر ہو گۓ۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم کو تاریخ سے بھی نابلد رکھا گیا کہ دھرنے میں جانا اور مظلومین کی دادرسی کرنا وزیر اعظم کا کام نہیں اور کوٸی وزیر اعظم آج تک اس طرح کے سانحہ میں نہیں گیا ۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ عمران خان نے خود بھی تحقیق کرنا گوارہ نہ کی کہ 10جنوری 2013 کو کوٸٹہ میں ہونے والے دو بم دھماکے جس میں سو سے زاٸد ہزارہ کمیونٹی اور دیگر لوگ شہید ہوۓ تھے میں اس وقت کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے نہ صرف ہزارہ برادری کے اسی طرح کے دھرنے میں گۓ تھے بلکہ ان کے مطالبے پر پیپلز پارٹی کی بلوچستان حکومت ختم کر کے گورنر راج بھی لگا دیا تھا۔ لیکن وزیراعظم عمران خان نے وہاں جانے کی بجاۓ ان مظلومین کو بلیک میلر تک کہہ دیا ۔ حیف صد حیف۔ ان کواندازہ ہی نہیں کہ اس بیان سے شہدإ کے لواحقین پر کیا گزری ہو گی ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اس قسم کے اوٹ پٹانگ بیانات دینے کے عادی ہیں لیکن اپنی اس صنف کو اگر شہدا ٕ کے لواحقین پر نا آزماتے تو بہتر ہوتا۔ وزیر اعظم کے دست راست زلفی بخاری بھی مظلومین کی دارسی کے لیے گۓ تو ان کے زخموں پر مزید نمک چھڑک آۓ۔ وزیر داخلہ شیخ رشید کا کابینہ میں اس حوالے سے رویہ بھی معاندانہ تھا۔ حتیٰ کہ بعض لوگوں نے اسے سیاست اورووٹ بنک کو متاثر ہونے سے جوڑا۔
فہمارے مقتدر ادارے ہمیشہ کسی بھی قومی المیے کے حل کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہے مٸی 2018 میں بھی ایسے ہی ایک واقع کے بعد آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے خود کوٸٹہ جا کر ہزارہ برادری کے اسی طرح کے دھرنے پر جا کر داد رسی کی۔ لیک عمران خان کی انا اتنی بڑی تھی کہ وہ بھی اسے قاٸل نہ کر سکے۔
اب تو مسٸلہ حل ہو گیا ہے اور میتوں کی تدفین بھی ہو چکی لیکن وزیر اعظم کے کوٸٹہ میں ہزارہ برادری کے دھرنے میں نہ جانے کی اب تک کوٸی وجہ سرکاری یا نجی طور پر بیان نہیں کی گٸی ۔ جو وجہ مین سٹریم میڈیا کے مختلف ٹاک شوز اور سوشل میڈیا میں بیان کی جاتی رہی ہے سے سمجھ آتی ہے کہ ایک وجہ وزیر اعظم کی توہم پرستی ہی ہے کہ غالباً میت والے گھر جانا ان کی حکومت کے لیے نحس ثابت ہو سکتا ہے۔ابھی تک اس موقف یا الزام کی بھی وضاحت نہیں آسکی ۔ اب اس قسم کی پٹیاں انہیں کون پڑھا رہا ہے اور اس پر وہ ان پر عمل پیرا بھی ہیں ۔اگر ہمارا وزیر اعظم حقیقت کی بجاۓ توہم پرستی کو ترجیع دے گا تو اس کے اثرات ہمارے معاشرے ہر کیا پڑ سکتے ہی أندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اس حوالے سے ان کے کافی قصے مشہور ہیں ۔گو کہ یار لوگ اس توہم پرستی کا ازراہ تفنن ذکر کرتے ہیں لیکن یہ ایک سنجیدہ مسٸلہ ہے۔
پیپلز پارٹی کے چٸیرمین بلاول بھٹو اور مسلم لیگ نواز کی ناٸب صدر مریم نواز نے دھرنے میں شریک ہو کر شہدا کے ورثا کا غم بانٹ کر جس بالغ نظری کا ثبوت دیا وہ بھی قابل ستاٸش ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے دورے کے بعد وزیر اعظم کی کچن کیبنٹ نے انہیں باور کروایا کہ بلاول اور مریم کے دورے کے بعد ان کے وہاں جانے سے ان کی سبکی ہو گی جس کو وزیر اعظم نے گرہ سے باندھ لیا۔ گو کہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم نے بلاول بھٹو اور مریم نواز کے اس عمل کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا لیکن چاند پر تھوکا گیا کبھی اس تک نہیں پہنچا اور ہمیشہ اپنے منبع پر واپس ہی آیا۔
اس سارے قضیے می بلوچستان حکومت کا کردار قدرے منفی رہا۔ جس کا ذکر وزیر اعلی سندھ نے دھرنے سے خطاب کرتے ہوۓ بتایا کہ وہ پہلے آنا چاہتے تھے لیکن انہیں بلوچستان حکومت کی طرف اجازت ہی نہیں دی گٸی۔ ہماری اطلاعات کے مطابق اجازت بھی اس شرط پر دی گٸی کہ کوٸی سیاسی بیان بازی نہیں ہو گی۔ بلوچستان اور مرکزی حکومت کے کچھ رفقا ٕ اس دھرنے کو بھی ان کی حکومت کے خلاف سمجھتے ہوۓ سینیٹ انتخابات رکوانے کی سازش قرار دیتے رہے۔ گو کہ شروع میں مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ بلوچستان حکومت کو بھی فارغ کیا جاۓ لیکن حکومت ان سے یہ مطالبہ دستبردار کرانے میں کامیاب ہو گٸی۔ جس سے جام کمال کی حکومت نے سکھ کا سانس لیا۔ کہتے ہیں دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے اور موجودہ حکومت کو اندازہ تھا کہ ماضی میں ایسے ہی مسٸلے پر بلوچستان حکومت فارغ ہو چکی ہے۔ جام کمال صاحب خاطر جمع رکھیے گا وہ پیپلز پارٹی کی حکومت تھی جو کہ درد دل رکھتی تھی نہ کہ انا میں لتھڑی پی ٹی آٸی کی حکومت۔
وزیراعظم عمران خان کا تعلق میانوالی سے ہے ان کو اس روایت کا بھی علم نہیں کہ جس گھرجنازہ پڑا ہوتا ہے تو گھر کے بڑے کا انتظار کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ہی جنازہ اٹھایا جاتا ہے۔ لیکن یہاں توہمات میں گھرے اس بڑے کویہ عزت بھی راس نہیں آٸی۔ جہاں اپنے وطن کے ہزارہ شہیدوں کے ورثإ کی داد رسی کے لیے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈرا آرڈن کی مثال دی جاے تو وہاں بقول خواجہ آصف کوٸی شرم ہوتی ہے کوٸی حیا ہوتی ہے ۔۔۔لیکن لگتا ہے وہ بھی نہیں رہی۔
حاکم وقت کے کوٸٹہ آنے سے پہلے ہی درباریوں نے سٹیج تیار کر رکھا تھا۔ ایران کے تعاون اور حکومتی دباٶ سے ریاست ہزارہ کمیونٹی کا اپنے پیاروں کی میتوں کے ساتھ جاری 6 روزہ دھرناختم کروانے میں کامیاب ہو ہی گٸ لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی توہم پرستی انا اور ضد جیت گٸی اور انسانیت ہار گٸی۔
(جاری ہے)
وزیر اعظم کی ہٹ دھرمی یہاں تک پہنچ گٸی کہ انہوں ہزاراہ شہدا ٕ کے مظلومین کو بلیک میلر تک کہہ دیا اور اس پر کمال یہ کہ HMV کی طرز پر ان کے ترجمانوں کی فوج ظفر موج ان کے اس بیان کا بھی دفاع کرتی رہی۔ جہازی کابینہ کے کسی ایک ممبر اور کسی اتحادی نے بھی وزیراعظم کو اپنا رویہ تبدیل کرنے کو نہیں جس پر وہ اور شیر ہو گۓ۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم کو تاریخ سے بھی نابلد رکھا گیا کہ دھرنے میں جانا اور مظلومین کی دادرسی کرنا وزیر اعظم کا کام نہیں اور کوٸی وزیر اعظم آج تک اس طرح کے سانحہ میں نہیں گیا ۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ عمران خان نے خود بھی تحقیق کرنا گوارہ نہ کی کہ 10جنوری 2013 کو کوٸٹہ میں ہونے والے دو بم دھماکے جس میں سو سے زاٸد ہزارہ کمیونٹی اور دیگر لوگ شہید ہوۓ تھے میں اس وقت کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے نہ صرف ہزارہ برادری کے اسی طرح کے دھرنے میں گۓ تھے بلکہ ان کے مطالبے پر پیپلز پارٹی کی بلوچستان حکومت ختم کر کے گورنر راج بھی لگا دیا تھا۔ لیکن وزیراعظم عمران خان نے وہاں جانے کی بجاۓ ان مظلومین کو بلیک میلر تک کہہ دیا ۔ حیف صد حیف۔ ان کواندازہ ہی نہیں کہ اس بیان سے شہدإ کے لواحقین پر کیا گزری ہو گی ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اس قسم کے اوٹ پٹانگ بیانات دینے کے عادی ہیں لیکن اپنی اس صنف کو اگر شہدا ٕ کے لواحقین پر نا آزماتے تو بہتر ہوتا۔ وزیر اعظم کے دست راست زلفی بخاری بھی مظلومین کی دارسی کے لیے گۓ تو ان کے زخموں پر مزید نمک چھڑک آۓ۔ وزیر داخلہ شیخ رشید کا کابینہ میں اس حوالے سے رویہ بھی معاندانہ تھا۔ حتیٰ کہ بعض لوگوں نے اسے سیاست اورووٹ بنک کو متاثر ہونے سے جوڑا۔
فہمارے مقتدر ادارے ہمیشہ کسی بھی قومی المیے کے حل کے لیے ہمیشہ پیش پیش رہے مٸی 2018 میں بھی ایسے ہی ایک واقع کے بعد آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے خود کوٸٹہ جا کر ہزارہ برادری کے اسی طرح کے دھرنے پر جا کر داد رسی کی۔ لیک عمران خان کی انا اتنی بڑی تھی کہ وہ بھی اسے قاٸل نہ کر سکے۔
اب تو مسٸلہ حل ہو گیا ہے اور میتوں کی تدفین بھی ہو چکی لیکن وزیر اعظم کے کوٸٹہ میں ہزارہ برادری کے دھرنے میں نہ جانے کی اب تک کوٸی وجہ سرکاری یا نجی طور پر بیان نہیں کی گٸی ۔ جو وجہ مین سٹریم میڈیا کے مختلف ٹاک شوز اور سوشل میڈیا میں بیان کی جاتی رہی ہے سے سمجھ آتی ہے کہ ایک وجہ وزیر اعظم کی توہم پرستی ہی ہے کہ غالباً میت والے گھر جانا ان کی حکومت کے لیے نحس ثابت ہو سکتا ہے۔ابھی تک اس موقف یا الزام کی بھی وضاحت نہیں آسکی ۔ اب اس قسم کی پٹیاں انہیں کون پڑھا رہا ہے اور اس پر وہ ان پر عمل پیرا بھی ہیں ۔اگر ہمارا وزیر اعظم حقیقت کی بجاۓ توہم پرستی کو ترجیع دے گا تو اس کے اثرات ہمارے معاشرے ہر کیا پڑ سکتے ہی أندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ اس حوالے سے ان کے کافی قصے مشہور ہیں ۔گو کہ یار لوگ اس توہم پرستی کا ازراہ تفنن ذکر کرتے ہیں لیکن یہ ایک سنجیدہ مسٸلہ ہے۔
پیپلز پارٹی کے چٸیرمین بلاول بھٹو اور مسلم لیگ نواز کی ناٸب صدر مریم نواز نے دھرنے میں شریک ہو کر شہدا کے ورثا کا غم بانٹ کر جس بالغ نظری کا ثبوت دیا وہ بھی قابل ستاٸش ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کے دورے کے بعد وزیر اعظم کی کچن کیبنٹ نے انہیں باور کروایا کہ بلاول اور مریم کے دورے کے بعد ان کے وہاں جانے سے ان کی سبکی ہو گی جس کو وزیر اعظم نے گرہ سے باندھ لیا۔ گو کہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم نے بلاول بھٹو اور مریم نواز کے اس عمل کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا لیکن چاند پر تھوکا گیا کبھی اس تک نہیں پہنچا اور ہمیشہ اپنے منبع پر واپس ہی آیا۔
اس سارے قضیے می بلوچستان حکومت کا کردار قدرے منفی رہا۔ جس کا ذکر وزیر اعلی سندھ نے دھرنے سے خطاب کرتے ہوۓ بتایا کہ وہ پہلے آنا چاہتے تھے لیکن انہیں بلوچستان حکومت کی طرف اجازت ہی نہیں دی گٸی۔ ہماری اطلاعات کے مطابق اجازت بھی اس شرط پر دی گٸی کہ کوٸی سیاسی بیان بازی نہیں ہو گی۔ بلوچستان اور مرکزی حکومت کے کچھ رفقا ٕ اس دھرنے کو بھی ان کی حکومت کے خلاف سمجھتے ہوۓ سینیٹ انتخابات رکوانے کی سازش قرار دیتے رہے۔ گو کہ شروع میں مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ بلوچستان حکومت کو بھی فارغ کیا جاۓ لیکن حکومت ان سے یہ مطالبہ دستبردار کرانے میں کامیاب ہو گٸی۔ جس سے جام کمال کی حکومت نے سکھ کا سانس لیا۔ کہتے ہیں دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے اور موجودہ حکومت کو اندازہ تھا کہ ماضی میں ایسے ہی مسٸلے پر بلوچستان حکومت فارغ ہو چکی ہے۔ جام کمال صاحب خاطر جمع رکھیے گا وہ پیپلز پارٹی کی حکومت تھی جو کہ درد دل رکھتی تھی نہ کہ انا میں لتھڑی پی ٹی آٸی کی حکومت۔
وزیراعظم عمران خان کا تعلق میانوالی سے ہے ان کو اس روایت کا بھی علم نہیں کہ جس گھرجنازہ پڑا ہوتا ہے تو گھر کے بڑے کا انتظار کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ہی جنازہ اٹھایا جاتا ہے۔ لیکن یہاں توہمات میں گھرے اس بڑے کویہ عزت بھی راس نہیں آٸی۔ جہاں اپنے وطن کے ہزارہ شہیدوں کے ورثإ کی داد رسی کے لیے نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈرا آرڈن کی مثال دی جاے تو وہاں بقول خواجہ آصف کوٸی شرم ہوتی ہے کوٸی حیا ہوتی ہے ۔۔۔لیکن لگتا ہے وہ بھی نہیں رہی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.