پی ڈی ایم کی کمرشل بریک ۔۔۔۔۔

ہفتہ 12 دسمبر 2020

Shafiq Awan

شفیق اعوان

گیارہ جماعتی اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی تحریک کا آغاز تو بڑے ولولے اور جوش سے ہوا لیکن اس جوش کا تسلسل قاٸم نہ رہ سکا اور اس میں لمبے لمبے وقفوں کی وجہ سے یہ تحریک  عوام پر بھی اب تک کوٸی نقوش نہ چھوڑ سکی۔ استعفوں پر بھی اتفاق  راۓکی بجاۓ اختلافات راۓ سامنے آ رہے ہیں۔ تحریک اور اسلام آباد مارچ اور  دھرنے یا قیام کے حوالے سے مدت پر بھی اتفاق نہیں ہو سکا بلکہ ابھی تو دھرنے کے مقام کے حوالے سے بھی  اسلام آباد  یا پنڈی    کی بولیاں بولی جا رہی ہیں ۔


پی ڈی ایم میں شامل سیاسی جماعتوں نے اس تحریک میں اب تک کے جلسوں میں اپنے اپنے پاور سنٹرز میں طاقت کے مظاہرہ کیا لیکن دوسری جماعتیں اپنے پاور سنٹرز کے علاوہ کسی دوسری جگہ پر براے نام ہی شرکت ی۔

(جاری ہے)

یقیناً تحریک چلانے والوں کا اپنا ایجنڈا اور اغراض و مقاصد ہوتے ہیں اور ہونے بھی چاہیں لیکن اپوزیشن اتحاد کی تحریک میں ہر پارٹی کا رنگ اور وجود نظر آنا ضروری ہے جو کہ بڑی حد تک عنقا تھا۔


پہلے جنوری کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد مارچ اور پڑاٶ کی بات کی گٸی اب یہ جنوری کے آخری ہفتے تک چلی گٸ پھر استعفوں کا شور اٹھا لیکن اس پر بھی ابھی تک اتفاق ہوتا نظر نہیں آریا۔ جب کسی معاملے پر اتفاق نہ تھا تو ڈھنڈرا پیٹنے کی ضرورت کیا تھی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ کمرشل بریک کسی ممکنہ ڈیل کے لیے ہیں؟
کوٸی بھی تحریک  تسلسل کا نام ہوتی ہے اور اس میں لمبے لمبے کمرشل بریک نہیں آتے لیکن حالیہ تحریک میں ایک جلسے سے دوسرے تک لمبے لمبے وقفے تحریک کے لیے نیک شگون نہیں۔


دوسری طرف حکومت بھی پی ڈی ایم کی تحریک کے حوالے سے حماقتوں پر حماقتیں کر رہی ہے۔  ‏گزشتہ روز PDM کا لاہور جلسہ  رکوانے کے لیے پنجاب حکومت کے   ایک اجلاس میں وفاق کا حکم آیا کہ امن و امان اور کرونا کی صورتحال کے پیش نظر ہفتے تک پی ڈی ایم کی تمام قیادت بشمول مریم نواز کو ان کے گھروں میں نظر بند کر دیں۔ مولانا فضل الرحمان اور بلاول بھٹو کا لاہور داخلہ بند کر دیں۔


 ‏اور اگر لاہور میں  ہیں تو لاہور بدری کے احکامات جاری کر دیں۔ لیکن اجلاس میں موجود تمام وزرإ اور بیوروکریسی نے ایسے اقدامات کی حمایت نہ کہ بلکہ ایک بیوروکریٹ نے یہاں تک کہہ دیا کہ ماڈل ٹاون کا واقعہ یاد رکھیں متعدد وزیر نے بھی ببانگ دہل اس کی تاہید کر دی۔ میٹنگ میں موجود ایک وفاقی نماٸندے
‏نے زور دے کر کہا کہ یہ وزیر اعظم کا حکم ہے اور یہ سب کرنا ہو گا۔

لیکن وزیر اعلی سمیت سب کا جواب تھا نظر بندی اور لاہور بدری سے سخت عوامی رد عمل  سامنے آے گا اور ہم لاہور کو میدان جنگ بنانے کو ہرگز تیار نہیں۔ اب بلاول بھٹو بھی لاہور میں ہیں دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
‏یوں تو اپوزیشن اتحاد میں گیارہ جماعتیں ہیں لیکن لگتا ہے لاہور کا جلسہ صرف مسلم  لیگ ن کا درد سر ہے اور پی ڈی ایم کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی اس حوالے سے  مکمل خواب خرگوش کے مزے لےرہی ہے۔

جلسہ کے حوالے سے ورکروں کو متحرک کرنے کے لیے کوٸی حکمت عملی نہیں ۔ حتیٰ کے اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے پارٹی کے جھنڈے بھی ندارد۔ پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ لاہور یا وسطی پنجاب میں انکی کوٸی جگہ نہیں۔ایسی سوچ عوامی سیاست کرنے والی پارٹیوں کے لیے زھر قاتل ہوتی ہیں۔
جناب وزیر اعظم کہتے ہیں اپوزیشن اسمبلیوں سے استعفیٰ دے میں الیکشن کرا دو ں  گا۔

  کیا اپویشن استعفے منظور ہونے کے بعد پورے ملک میں الیکشن ہونٕے دے گی؟ گلی محلوں میں وہ طوفان اٹھے گا کہ ‏پی ڈی ایم اے کی تحریک اس کے سامنے کچھ نہ ہو گی۔ کیوں ملک کو سول وار کی طرف دھکیل رہے ہو۔ ایک وزیر کہتے ہیں کہ وزیراعظم کے اس بیان کو جواب الجواب کے طور پر لیا جاۓ۔ یعنی وزیر اعظم کے اس بیان کو سنجیدہ نہ لیا جاے ارے بھٸی بیان دینے سے پہلے  کسی ”جہاندیدہ“ وزیر سے ہی مشورہ کر لیا کریں۔

۔  
‎‏وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ایک ٹویٹ کے زریعے اپوزیشن سے عوام کے مفاد میں احتجاجی سیاست کو ملتوی کرنے  کو کہا ہے اور مزاکرات کی دعوت دیتے ہوۓ ان شخصیات جن کا دونوں اطراف میں عموعی احترام ہے اور جو حکومت اوراپوزیشن دونوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں وہ آگے آئیں اور مذاکرات کا ماحول بہتر بنانے میں کردار ادا کریں اور تلخیاں کم کریں جو ملک کیلئے ضروری ہے۔

‏اے میرے ”جہاندیدہ“ وزیر جب عمران خان کی زبان پر چور ڈاکو  لٹیرے،  ملک دشمن غداری کے الزامات، اپوزیشن سے کوٸی مزاکرات نہ ہوں گے اور سب کو اندر کر دوں گا کے نعروں کے بعد اپوزیشن سے مزاکرات کی توقعات رکھنا دیوانے کا خواب ہی لگتا ہے۔ پھر شہباز گل ، مراد سعید، فیاض چوہان اور فردوس ‏کے گالم گلوچ بریگیڈ کے ہوتے ہوۓ مزاکرات کی توقع فضول ہے ۔


پھر جب وزیر اعظم یہ پیغام دیں کہ ان کا‏ مقابلہ PDM کی کرپٹ قیادت سے نہیں بلکہ سٹیج بنانے والے مزدوروں ،  کارپینٹروں، ٹینٹ اور کرسیاں رینٹ پہ دینے والوں، ساٶنڈ سسٹم ، الیکٹریشنز، ٹرانسپورٹروں اور فوڈ سپلاٸی والوں سے ہے   میں اُن کو مزدوری نہیں کرنے دونگا.گرفتار کر لوں گا اور وہ گرفتار ہو بھی ۔ فواد چوہدری کے خدشات بجا ہیں وہ سیاسی بات کر رہے ہیں اور قوم آپ کی تشویش سمجھتی ہے لیکن پہلے اپنی صفیں درست کریں۔


ذرا فواد صاحب اپنی حکومت کی اداٶں پر غور کریں وزیر اعظم کے حکم پر  ڈی جے بٹ گرفتار ہوا ، مریم نواز نے لاہور کی ریلی میں جس ہوٹل سے کھانا کھاے اس کے مالک کے خلاف بھی مقدمہ۔ پھر فردوس عاشق اعوان کی مریم نواز کے لاہور دورے کے حوالے سے اخلاق  سے گری ہوٸی گفتگو۔ فواد صاحب پہلے اپنی حکومت کی اداٶں پر غور کریں۔
وزیر اعظم کے ترجمان ندیم افضل چن سوشل میڈیا پر  میڈیاپرگالیوں/رنڈی جیسے ٹرینڈز پر کہتے ہیں یہ پاکستان کا اصل چہرہ نہیں بلکہ سیاست سےاخلاقیات کا جنازہ ہے ۔

تو محترم اس جنازے کو مردے فراہم کرنے میں آپ کی موجودہ جماعت پاکستان تحریک انصاف کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ آپ کی تشویش بجا لیکن پہلے آپ سمیت تمام جماعتیں اپنی اداٶں پر غور کر لیں۔
جب سوشل میڈیا پر مغلطات بکنے کے لیے  سیاسی جماعتوں نے جذباتی نوجوانوں کی کو بھرتی کیا گیا۔ اس مہم میں ملک کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ نواز بھی پیش پٕش رہی ۔

دونوں طرف کی خواتین پر جو بے ہودہ ٹرینڈز بناے گۓ ہیں ان کو تو ہو بہو نقل کرنے کی بھی ہمت نہیں۔  سونے پر سہاگہ یہ کہ موجودہ حکومت نے حال ہی میں سپیشل گریڈ میں اپنی جماعت کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کو بھاری معاشرے پر بھرتی کیا۔
یہی نہیں اعلی ترین حکومتی اور دیگر سیاسی  شخصیات کے ساتھ ان کو اپنی شناخت دینے کے لیے ان کے ساتھ  تصویریں بنواٸی گٸیں۔ تب شاید  اندازہ نہیں تھا کہ  ایک دن یہ گالیاں انہی گھروں کی چاردیواری پھلانگیں گی،جہاں سےیہ جاری کی جارہی ہیں ۔ ۔
گنہگاروہی ہوتاہےجو گناہ کی رسم ڈالتاہے..
 سیاستدانوں سے التجاہ ہے پہلے اپنی صفیں درست کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :