خواب یا سراب۔۔۔۔

جمعہ 15 جنوری 2021

Shafiq Awan

شفیق اعوان

وطن عزیز میں پی ڈی ایم عوام کو کوٸی  امید دلانے کی بجاۓ اپنے گنجل سلجھانے میں لگی ہوٸی ہے دوسری طرف وزیر اعظم بھی اپنی کابینہ کی کارکردگی سے نالاں ہیں اور ڈھاٸی سال بعد بھی مساٸل کا حل تو ایک طرف اصلاحات نہ ہونے پر برہم ہیں۔ عوام کے دکھاۓ گۓ خواب سراب بنتے جا رہے ہیں۔ ہر طرف مایوسی کی دھند چھاٸی ہوٸی ہے جو کسی طور بھی چھٹنے کانام نہیں لے رہی۔

 
پی ڈی ایم  اور حکومت اپنی اپنی انا کے محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔ ایک طرف پی ڈی ایم کی توپوں کا رخ بدستور اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے اور اپوزیشن قیادت براہ راست فوج کو نشانہ بنا رہی ہے جو کہ قطعاً مناسب رویہ نہیں۔ گو کہ ڈی جی آٸی ایس پی آر میج جنرل بابر افتخار نے اپنی پریس کانفرنس میں وضاحت بھی کر دی کہ فوج کا سیاست سے کوٸی لینا دینا نہیں۔

(جاری ہے)

لیکن اپوزیشن نے 2018 کے انتخابات کے حوالے سے فوج کے بارے میں جو گرہ باندھ لی ہے اسے کھولنے کو تیار نہیں۔لیکن دیکھا گیا ہے کہ اس طرح کی ہاتھ سے لگاٸی گرہیں بعض اوقات سیاستدانوں کو دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں اور وہ پھر بھی کھل نہیں پاتیں اور ہمارا ماضی اس حوالے سے مستند گواہ ہے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر اگر یہ کہا جاۓ کہ اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن آمنے سامنے آگٸی ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔


فوجی ترجمان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پی ڈی ایم کی روالپنڈی (جی ایچ کیو)  آنے کی کوٸی وجہ سامنے نہیں آتی۔ لیکن اگر وہ آ بھی گۓ تو انہیں چاہے پانی پلایں گے ۔ اس پریس کانفرنس کی ٹاٸمنگ بھی پی ڈی ایم کے جلسے سے قبل کی تھی اور اس میں جو اہم  پیغام دیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ کسی سے بیک ڈور رابطہ نہیں ہے۔ اس پیغام کی زرایع یہ توضیع پیش کرتے ہیں کہ اپوزیشن اس جلسے میں بیک ڈور رابطوں کے حوالے سے کچھ انکشافات کرنے جا رہی تھی جسے ڈیفیوز کرنے کے لیے بیک ڈور رابطوں والی بات کی گٸی۔


لیکن  مولانا فضل الرحمان کا فوجی ترجمان کے چاۓ پانی کے بیان کا جواب طنز سے سے زیادہ معنی خیز تھا ان کا کہنا تھا کہ ہمیں چاہے پانی پر ٹرخا رہے ہیں اور خود پاپا جونز کے پیزے کھا رہے پیں۔ اس ایک فقرے سے لگتا ہے کہ اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ میں مثبت روابط کی جو خبریں آ رہی تھیں وہ دم توڑ رہی ہیں۔ مولانا نے اسی پر بس نہ کیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لا ٕ ہے قوم اب اسلام آباد کی بجاۓ راولپنڈی کا رخ کرے اور یہ کہ جی ایچ کیو کے سامنے احتجاج ان کا حق ہے۔

یہ صورتحال تشویش ناک ہے اپوزیشن کا حکومت وقت کے خلاف احتجاج تو سمجھ آتا ہے لیکن براہ راست فوج سے ٹکراٶ کی روش ریاست کے لے مناسب نہیں اورنہ ماضی میں اس کی کوٸی مثال ملتی ہے۔
حکومتی پارٹی کے کچھ کرتا دھرتا اس پر جشن منا رہے تھے کہ اپوزیشن اور اسٹیبلشمنٹ کے آمنے سامنے آنے سے
عمران خان کی حکومت کو کافی ریلیف ملے گا لیکن انہیں حالات کی سنگینی کا ادارک نہیں کہ یہ ٹکراٶ ملک کو کس طرف لے جاۓ گا۔

   
کسی بھی سیاستدان نے فوجی ترجمان کے اس بیان پر یقین کرنے سے زیادہ اسے سنجیدہ نہیں لیا کہ فوج کا سیاست سے کوٸی تعلق نہیں ہے۔ پھر ایوب خان سے ضیا الحق اور مشرف تک جو کچھ ہوتا رہا کیا سب خواب تھا سراب تھا؟   
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تو  سوال داغ دیا کہ اگر فوجی ترجمان کا بیان ٹھیک ہے تو جو اب تک ہوتا رہا ہے وہ کیا تھا؟ الیکشن 2018کس نے چرایا اور ریزلٹ ٹراسمیشن سسٹم ( آر ٹی  ایس) کیسے بیٹھا؟ ان سوالات کا جواب تو الیکشن کمیشن نے بھی نہ دیا جس کی وجہ سے غلط فہمیوں کی خلیج گہری ہوتی چلی گٸی۔

عباسی صاحب  کی لندن یاترا کا بہت چرچا ہے لیکن انہوں نے نواز شریف سے کرونا کی وجہ سے ملاقاتوں کی تردید کر دی ہے۔ پھر نواز شریف صاحب کی انہی دنوں پبلک میں میڈیا ٹاک کیا تھیں۔ کیا وہاں کرونا کا خطرہ نہ تھا؟ البتہ مسلم لیگی حلقے ان ملاقاتوں کو ”ورچوٸل ملاقاتوں“ کا چولہ پہنا رہے ہیں۔ شنید یہی ہے کہ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کی شراٸط پر بات چیت کو رد کر دیا ہے جن میں کچھ نٸی آٸینی ترامیم اور کچھ میں ردوبدل شامل تھا اور کچھ رعایتیں بھی اس پیکیج کا حصہ تھیں۔

لگتا  یہی ہے کہ عباسی صاحب کی لندن یاترا خشک ثابت ہوٸی ہے۔ یہ سطریں چھپنے تک شاہد خاقان عباسی وطن پہنچ چکے ہوں گے ۔مریم نواز سے ان کی ایک طویل نشتت بھی متوقع ہے اور شہباز  شریف سے بھی ان کی ملاقات ممکن ہے۔ ان ملاقاتوں کے بعد مسلم لیگ نواز کی حتمی پالیسی سامنے آۓ گی۔  
 دوسری طرف پی ڈی ایم جو ایک  ایک پیج پر ہونے کی بجاۓ نوٹ بک بن چکی ہے جس کے  صفحے دن بدن کھلتے چلے جا رہے ہیں اور ہر صفحے پر ہر پارٹی کا اپنا بیانیہ ہے۔

مولانا فضل الرحمان صاحب جو ڈفلی بجا رہے پپپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اس سے ہٹ کر راگ الاپ رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ ن نے بھی دھرنے کا رخ راولپنڈی  (جی ایچ کیو) سے  اسلام آباد کی طرف موڑ دیا ہے جبکہ مولانا فضل الرحمان اب تک راولپنڈی کو منزل بناۓ ہوے ہیں۔ استعفے تو خواب ہی بن گۓ ہیں اسلام آباد دھرنا بھی سراب لگتا ہے۔  
حکومتی ایونوں میں بھی راوی چین نہیں لکھ رہا ۔

وزیراعظم اپنی کابینہ کی مایوس  کن کارکردگی پر برہم ہیں اور  وزرإ  کو وارننگ دی ہے کہ ڈھاٸی سال گزرنے کے باوجود اداروں اور گورننس میں اصلاحات نہ لانے ہر گز قابل قبول نہیں۔ کاش یہ خیال  وزیر اعظم کو پہلی سہہ ماہی یا ششماہی میں آجاتا تو اتنی بربادی نہ ہوتی۔  ساتھ  ہی وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ڈھائی سال گزرچکے وزیروں کوعوامی مسائل حل کرنے کےلیے محنت کی ضرورت ہے
 جس کا مطلب یہ ہے کہ میڈیا ان مساٸل کی صحیح نشاندہی کر رہا تھا۔

وزیر اعظم کی برہمی  کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والے وزرا کوگھر بھیجنے کا کہہ دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان  نے کارکردگی اور  پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والے وزراء کو مستعفی ہوجانے کا کھلا پیغام دے دیا ہے وزرا کی کارکردگی کی نشاندہی تو میڈیا بارہا کرتا چلا آرہا ہے لیکن اسےمثبت تنقید کی بجاۓ حکومت مخالف رویہ گردانا گیا
انہوں نے واضع کیا کہ ان کے فیصلوں کی مخالفت کرنی ہے تو بے شک مستعفی ہو جائیں، اگر روش برقرار رکھی تو خود فیصلہ کروں گا کہ کابینہ میں رکھنا ہے یا نہیں۔

یہ بات وہ عمران خان کر رہا ہے جس کا ماضی میں یہ بیانیہ تھا کہ وزرا حکومتی پالیسیوں پر دماغ، آنکھ و کان بند کر عمل کرتے ہیں اور اپنی سوچ اپنا نکتہ نظر بیان نہیں کرتے ۔ جب ان کے وزرا اپنےضمیر کے مطابق بات کرتے ہیں تو انہیں گھر بھیجنے کی بات کرتے ہیں۔جب میڈیا اور اپوزیشن اداوں میں اصلاحات کی بات کرتے تو اسے اپنی حکومت کے خلاف گٹھ جوڑ قرار دیتے۔

آج اداروں میں اصلاحات نہ لانے پر خود برہم ہیں۔ اصلاحات سے متعلق مشیر عشرت حسین کی کابینہ کو بریفنگ کے دوران وزیراعظم  اداروں میں اصلاحات لانے میں تاخیر پرنالاں تھے۔
 سوشل میڈیا پر  وزیراعظم عمران خان کا ایک اور متنازعہ بیان آیا ہے جس میں انہوں نے پاناما پیپرز کے بعد براڈ شیٹ کو بھی  اشرافیہ کی بڑے پیمانے پر کرپشن اور منی لانڈرنگ کو بے نقاب کرنے کا کریڈٹ دے دیا ہے۔

جی ہاں وہی براڈ شیٹ جس کو حکومت پاکستان اربوں روپے ہرجانہ دے چکی ہے۔ زرایع کہتے ہیں براڈ شیٹ کو اس حوالے سے کوٸی ٹاسک سونپا جا سکتا ہے۔
جواب آں غزل کے طور پر اپوزیشن نے ‏حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ براڈشیٹ کمپنی سے معاہدہ کر کے جنرل عاصم باجوہ کے اثاثوں کو ڈھونڈ کر لائیں۔ خدا را عقل کو ہاتھ ماریں أور ملک کو براڈ شیٹ کے کسی نۓ امتحان کی طرف نہ دھکیل دیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :