حکومت اوراپوزیشن سپراوورمیں۔۔۔

بدھ 20 جنوری 2021

Shafiq Awan

شفیق اعوان

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری میچ طے شدہ وقت میں نہ ہو سکنے کی وجہ سے اسکا فیصلہ سپر اوور میں داخل  ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس کی ایک وجہ  پی ڈی ایم بھی ایک پیج پر نہیں آرہی اور ہر جماعت اپنے پنےّ کے حساب سے آگے بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف حکومت کی بھی کوٸی سمجھ نہیں  آ رہی کہ کیا کرنا چاہ رہی ہے ۔ عمران خان بھی شدید جنجھلاہٹ کا شکار ہیں۔

جس کا مظاہرہ حال ہی میں انہوں نے اپنے ہی وزرإ پر برس کر کیا اور حکومتی پالیسی کے خلاف جانے کے  عمل نہ کرنے پر حکومت سے نکالنے کی دھمکی بھی دے دی۔
پی ڈی ایم کا ووٹ کو عزت دینے کا بیانیہ تو ایک ہے لیکن اس میں بھی اپنا اپنا موقف ہے۔ الیکشن کمیشن کے سامنے پی ڈی ایم نے اہم دھرنے کا اعلان کیا  لیکن  اب تک کی خبروں کے مطابق
بلاول بھٹو اس دھرنے میں بوجوہ شریک نہ ہوں گے . جو وجوہات بتاٸی جا رہی ہیں اس میں بلاول کی سندھ میں کچھ مصروفیات ہیں۔

(جاری ہے)

  لیکن پیپلز پارٹی والے ایک اور وجہ   بھی بیان کرتے ہیں جو کہ عزر گناہ بد تر  از گناہ ہے وہ کہتے ہیں کہ چونکہ مولانا فضل الرحمان بے نظیر شہید کی برسی پر پی ڈی ایم کے جلسے پر نہیں آۓ تھے اس لیے ہمارا بھی پی ڈی ایم کے کسی پروگرام میں شرکت نہ کرنے کا حق ہے۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے لوگ دبے لفظوں میں اسے پیپلز پارٹی کی اسٹیبلشمنٹ سے کچھ انڈر سٹینڈنگ کی بات کر رہے ہیں۔

گو کہ یہ بات وہ ببانگ دہل یا میڈیا پر کرنے سے گریز کرتے ہیں اور کہتے ہیں ابھی اس کا وقت نہیں آیا۔ اس کا مطلب ہے مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی سے بھی کچھ تحفظات ہیں۔ جبکہ جے یو آٸی والے  پیپلز پارٹی کا نام لیے بغیر  کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کے طے  شدہ پروگراموں سے انحراف کرنے والی جماعت کو بہت نقصان ہو گا۔
گو کہ پی ڈی ایم قیادت ایک پیج پر ہونے کا دعوی کرتی رہی ہےلیکن یہ حقیقت ہے کہ اہم نقات پر ان کے اختلافات کھل کر سامنے آرہے ہیں۔

چاہے دھرنا ہو، استعفے ہوں یا لانگ مارچ ہو تینوں  بڑی جماعتوں میں اتفاق نہیں ہے۔ ہر کوٸی اپنے لیے رستے تلاش کر رہی ہے۔ جے یو آٸی کی حد تک کہا جا سکتا ہے لیکن وہ اس  تمام فسانے کی آرٹیکیٹ ہے۔اب تو مسلم لیگ اور نواز لیگ سے بھی آوازیں آ رہی ہیں کہ مولانا کےپاس کھونےکو کچھ نہیں اس لٸیے ان کےبتاۓہوۓرستےپر چلنے سے کھاٸی میں گرنے کا خطرہ زیادہ ہے ۔

پیپلز پارٹی پہلے ہے کچھ زیادہ ہی انتہاٸی محتاط کھیل رہی ہے  ۔اب دیکھیں انجام گلستان کیا ہوتا ہے۔
یہ پی ڈی ایم کا الیکشن کیمشن کے سامنے دھرنے  کا ہی پریشر تھا کہ 6 سال سے زیر  التوا  فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے دو کیسز میں پی ٹی آٸی نے اپنا جواب داخل کر دیا۔ لیکن فیصلہ ابھی بھی باقی ہے۔گو کہ بظاہر پی ٹی آٸی کے اس جواب نے  بھی مزید پینڈورا بکس کھول دیے ہی جس کا فیصلہ بہر حال الیکشن کمیشن نے کرنا ہے لیکن اس سے پی ٹی آٸی کو سیاسی نقصان یقیناً پہنچ سکتا ہے۔

  الیکشن کمیشن نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو بھی فارن فنڈگ کے حوالے سے طلب کر لیا ہے۔ اگر پی ٹی آٸی کا کیس 6 سال تک زیر التوا رہ سکتا ہے تو قارٸین ان دونوں جماعتوں کے حوالے سے کیسز کے فیصلے کے وقت کاتعین کر سکتے ہیں۔ جبکہ حکوت کے ایک ماہر آٸین و قانون کہتے ہیں کی فارن فنڈنگ کے حوالے سے کسی جماعت نے باٸی لاز نہیں بناے بلکہ ہمارے آٸین و قانون یا الیکشن کمیشن کے ضوابط کار میں بھی فارن فنڈنگ کے حوالے سے کوٸی واضع قانون نہیں ہے اور اس کے لیے بھی نٸی قانون سازی کی ضرورت ہے۔

ان کا دعوی تھا کہ فارن فنڈنگ کیس کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کو کچھ نہ ہو گا اور اگر ایسا ہوا تو پھر کٸی جماعت نہ بچ سکے گی۔ 
پی ٹی آئی اے کے دور  میں ایک سے ایک مضحکہ خیز سیکنڈل سامے آرہے ہیں جس میں نیا اضافہ پی آٸی کی طیارے کی ملاٸیشیا میں ضبطگی ہے ۔ یہ طیارہ لیز کی رقم کے تنازعے کی وجہ ضبط ہوا لیکن کیا یہ پی آٸی کے نۓ سربراہ کا فرض نہ تھا کہ وہ اس قسم کے معاملات پر ترجیعی بنیادوں پر توجہ دیتے لیکن ان کی تمام تر دلچسپی اپنے رشتے داروں اور ریٹاٸرڈ دوستوں کی پی آٸی میں کھپت پر مرکوز ہو تو قومی اہمیت کے معاملات نظر انداز ہو کر اسی طرح کی جگ ہنساٸی کا سبب بنتے ہیں۔

اس پر پی ٹی آٸی کی ڈھٹاٸی یہ کہ اس کا ملبہ بھی وہ پچھلی حکومتوں پر ڈال رہے ہیں۔ آپ ہر خرابی کا الزام دوسروں پر ڈال سکتے ہیں لیکن آپ کی حکومت میں ہونے والی ہر خرابی اور کوتاہی کے آپ خود ذمہ دار ہیں۔جس دن پی ٹی آٸی کو یہ سمجھ آ گٸی کہ پاکستان سے جڑے ہر معاملے کی ذمہ دار حکومت وقت ذمہ دار ہوتی تو شاید ہم جگ ہنساٸی سے بچ جائیں۔
عمران خان صاحب گیارہ رکنی ٹیم اور 22 کروڑ کی ٹیم کا بھی موازنہ کیا پھر براڈشیٹ کے حوالے سے بغیر تحقیق کے ہواٸی بیان دے دیا کہ سعودی عرب سے ایک پاکستانی سیاستدان نے ایک ارب ڈالر لندن منتقل کراے۔

جس کی برسٹر شہزاد اکبر نے تردید نما وضاحت کر دی۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ وہ بولنے سے پہلے تول لیا کریں۔   
سندھ حکومت نے صوبے میں 6 لاکھ سے زاٸد مزدوروں کو کارڈ جاری کر کے ایک احسن اقدام کیا ہے لیکن اس کی تقسیم میں شفافیت کو مندنظر رکھنا ہو گا۔  

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :