
تبدیلی کیوں ناگزیر ہے ؟
ہفتہ 20 ستمبر 2014

شاہد اقبال
(جاری ہے)
پیر ِ صاحب کی کرامت کے اس ناکام مظاہرے پر اگرچہ اسے گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن یہ واقعہ ہمارے نام نہاد مہذب معاشرے کے مونہہ پر ،جسے اسلامی معاشرہ ہونے کا بھی دعویٰ ہے ، ایک نہایت ہی زوردار طمانچہ ہے۔
ہم چونکہ ازل سے طمانچے کھانے کے عادی ہیں اس لیے اس واقعے کا بھی ہماری صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور ہم حسب ِ معمول باقی دنیا کو جاہل ، جنگلی اور بد تہذیب جبکہ خود کو درخشاں اسلامی روایا ت کا واحد وارث، امین اور ٹھیکیدار سمجھتے رہیں گے۔یہ اور اسی قبیل کے دوسرے واقعات آئے روز ہمارے دیس کی گلیوں گاؤں اور گوٹھوں میں اپنا بھیانک روپ دکھا کر ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ تبدیلی اس ملک کے لیے ناگزیر ہو چکی ہے لیکن ہم بے عملی کی چادر اوڑھے کسی کرامت کے منتظر ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ ایک دن آسمان سے ہمارے لیے تبدیلی اترے گی اور ہم اسے گلے لگا کر جھومنے لگیں گے۔ ایک دن بیٹھے بٹھائے ہماری کایا پلٹ جائے گی اور ہم ککھ پتی سے لکھ پتی بن جائیں گے، ایک دن ہماری آنکھ کھلے گی تو دنیا بدل چکی ہو گی اور ہم ترقی کے جھولے جھول رہے ہوں گے۔ ہم انہونیوں پر اپنی ذات سے زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے گاؤں دیہات کے صابر علی جیسے پیروں سے لے کر قومی سطح کے سیاسی و مذہبی لیڈروں تک میں سے ہر ایک کے ہاتھوں الو بننے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ۔ہم ہر موڑ پر بے وقوف بننے کے لیے دل و جان سے راضی ہوتے ہیں بسہمیں کسی ایسے سیانے کی تلاش رہتی ہے جو کسی نئی تیکنیک سے کسی نئے ڈھنگ یا ڈھونگ سیہمیں بے وقوف بنا سکے ۔
مبینہ طور پر نیاز علی کی بیٹی پر آسیب کا سایہ تھا۔ پیر صاحب نے اس کا یہ مسئلہ حل کر کے نیاز علی کو اتنا گرویدہ کر لیا تھا کہ جب فائنل کرامت کے موقع پر اسے ذبح ہونے کے لیے زمین پر لیٹنے کے لیے کہا گیا تو وہ بخوشی سر زمین پر رکھ اپنے پیر کی کرامت کا ایک کردار بن گیا۔ ہمارے سیاسی راہنما بھی صابر علی کے طریقہ واردات کے پیر و ہیں۔ یہ پہلے کسی چھوٹی موٹی ’کرامت‘ سے ہمیں اپنا گرویدہ بناتے ہیں پھر ہماری کھال تک اتار کر لے جاتے ہیں اور ہم بخوشی نئی کھال ملنے کی آس میں ان کی اس کرامت کے ہونق کردار بن کر رہ جاتے ہیں۔ یہ ہمیں محلوں کے سبز باغ دکھا کر ہم سے ہمارے جھونپڑے تک چھین کر لے جاتے ہیں اور ہم بخوشی احمقوں کی جنت میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہ جاتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ پلک جھپکنے میں ہمارے سارے مسائل حل کر دیں گے، ہماری ساری پریشانیاں دور کر دیں، ساری مصیبتیں بھگا دیں گے اور ازل سے چمٹے ہوئے ہمارے سارے دکھوں کو سکھوں میں بدل دیں گے ۔یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ان کے پاس الہٰ دین کا ایسا چراغ ہے کہ بس ان کے اقتدار میں آتے ہی سب کچھ بدل جائے گا اور ہم آنکھیں بند کر کے ان کے ان تمام دعووں پر ایمان لاتے ہیں اور نتیجے کے طور پر ان جعلی مسیحاؤں کے ہاتھوں روز ذبح ہوکر دنیا کے لیے نشانِ عبرت بنتے ہیں ۔
تجربے نے ثابت کیا ہے کہ قومیں اسلحوں کے انبار لگانے سے مہذب اور ترقی یافتہ نہیں ہو جایا کرتیں ۔ایٹم بم کسی قوم کے ترقی یافتہ ہونے کی گارنٹی ہوتا تو آج ہمارے دیس میں صابر علی جیسوں کے آستانے آباد نہ ہوتے ۔ ایٹم بم سے قومیں سلیقہ شعار اور تہذیب یافتہ ہونے لگتیں تو انڈیا میں سات سو دیہاتی ایک بندر کے مرنے پر گنجے ہو کر نہ بیٹھے ہوتے۔ سماج کی سوچ میں ترقی ہی اصل ترقی ہے۔ افرادِ معاشرہ کی شعوری سطح جب تک پیروں کی کرامتوں کے چکر سے بلندنہیں ہوتی ترقی کے زینے پر قدم نہیں رکھا جا سکتا۔ فضول رسومات اور لایعنی توہمات کی زنجیریں توڑے بغیر مہذب ہونے کا خواب تو دیکھا جاسکتا ہے لیکن اسے عملی تعبیر نہیں دی جا سکتی۔ ہم مغرب کو گالیاں دیتے اور اس سے مقابلہ کرنے کی بھڑکیں مارتے ہیں جبکہ حالت ہماری یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی ہم بیماریوں سے شفا پانے کے لیے مزاروں کی مٹی اور چوکھٹوں کے محتاج ہیں، بچے پیدا کرنے کے لیے ہماری عورتیں ابھی تک تعویذوں گنڈوں اور پیروں کے آسرے پر بیٹھی ہیں اور دشمنوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے کے ہم ابھی تک جادو ٹونے کے چکر میں خوار رہے ہیں۔
ہمیں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے ایک ایسی تبدیلی کی جو ہمیں زمانہ جاہلیت میں بھٹکنے والی روحوں کی بجائے قرنِ نو کے جیتے جاگتے مہذب انسان بنا دے ۔ لیکن یہ تبدیلی صرف اقتدار کے ایوانوں میں نہیں بلکہ ہر فرد کے دل کے نہاں خانوں میں بپا ہونے سے آئے گی ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ساری قوم جاہل رہے لیکن ہمارے حکمراں عالم فاضل ہو ں ، ہم چاہتے ہیں کہ ساری قوم فراڈاور دغابازی سے کام لیتی رہے لیکن ہمارے حکمراں ایماندار ہو ں ، ہمارا خیال ہے کہ ہم سب جھوٹ بولتے رہیں اور ہمارے حکمراں صادق اور امیں سے کمتر نہ ہوں ، ہم سب کرپشن کو اپنے لیے حلال سمجھتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ ہمارے لیڈر اس عارضے میں بالکل مبتلا نہ ہوں، ہم میں سے ہر فرد محلوں میں رہنے کے خواب دیکھتا ہے لیکن لیڈر ایسے چاہتا ہے جو عمر کی طرح پیوند لگے کپڑے پہنے اور سڑکوں پر سوئے۔ تبدیلی کا عمل ہر فرد کو خود سے شروع کرنا ہو گا۔ کنٹینروں سے حکومتیں بدلی جا سکتی ہیں دل کی دنیا بدلنے کے لیے ہمیں خود کو بدلنا ہو گا ۔اگر ہم نے خود کو نہ بدلا تو نیاز علی کی طرف جھوٹی تبدیلیوں اور لایعنی کرامات کے لالچ میںآ ئندہ بھی اسی طرح ذبح ہوتے رہیں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
شاہد اقبال کے کالمز
-
نئے صوبے: وقت کی ضرورت یا بے وقت کی راگنی؟
بدھ 24 ستمبر 2014
-
تبدیلی کیوں ناگزیر ہے ؟
ہفتہ 20 ستمبر 2014
-
کیا ہم انقلاب کے دہانے پر بیٹھے ہیں ؟
جمعرات 18 ستمبر 2014
-
رینٹ اے انقلابی
اتوار 14 ستمبر 2014
-
عطائیے
جمعرات 4 ستمبر 2014
-
مارچوں کا موسم اور مشرف کا بھوت
جمعرات 14 اگست 2014
-
ایک ناقابلِ فخر ورثہ
اتوار 10 اگست 2014
-
پاکستانی آئین کی ایک لاوارث شِق
اتوار 20 جولائی 2014
شاہد اقبال کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.