"بہتری کا پہلا قطرہ اخلاق"

جمعہ 19 جون 2020

Shumaila Malik

شمائلہ ملک

اخلاقیات جس پر اسلام نے بھی بہت زور دیا ہے ۔ہمارا رویہ، کسی سے بات کرنے کا انداز ،خواہ وہ چھوٹوں سے ہو یا بڑوں سے،اپنوں یا پرائیوں سے وہ اخلاقیات کے زمرے میں آ تا ہے۔
جس کا اخلاق جتنا اچھا ہو، اس انسان کی معاشرے میں اتنا زیادہ عزت ہوتی ہے۔ لیکن آ ج کل حالات اس طرح چل پڑے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل اخلاقیات سے ہٹ گئی ہے۔

ہمیں چھوٹوں سے پیار کرنا اور بڑوں کی عزت کرنے کا اسلام میں درس دیا گیا ہے۔ لیکن یہ چیز ہمیں معمول میں دیکھنے کو نہیں ملتی ۔ اس کی ایک بڑی وجہ پہلی درسگاہ مطلب کہ ماں کی گود اور گھر کا ماحول ہے۔ جب گھر میں ناچاکی ہو ،میاں بیوی ،ساس بہو لڑائیوں سے نہ نکل سکیں تو بچے کیسے سیکھ سکتے ہیں۔
 یہ بات سائنس سے بھی واضع ہے کہ بچہ اپنے اردگرد کی چیزوں سے سیکھتا ہے لیکن جب اسے اردگرد کا ماحول ہی سازگار نہیں ملتا تو سکول میں چاہے جتنا علم پڑھایا جاۓ ، جب تک وہ کسی بات پر عمل نہ کرے وہ کبھی نہیں سیکھ سکتا ۔

(جاری ہے)


بحیثیت مسلمان ،بحیثیت قوم ہمارا فرض ہے کہ ہم خود بھی اخلاقیات کو اپنائیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تربیت دیں۔
نسل انسانی اعلیٰ اخلاق تو دور کی بات استاد جو کہ قابل احترام پیشہ ہے اس تک کی قدر کرنا بھول گئے ہیں۔ کسی ایک یا دو لوگوں سے تمیز سے بات کر لینا اخلاق نہیں کہلاتا۔ مطلب کہ جہاں ہمارا کوئی مطلب وابسطہ ہو۔ ان لوگوں سے احترام سے بات کرنا اخلاق نہیں بلکہ منافقت کہلاۓ گا کیونکہ اخلاق تو گھر،سکول،کالجز،یونیورسٹی،اسپتال،خوشی اور غم حتی کہ ہر جگہ اشد ضروری ہے۔


ایک بار مجھے بینک کام سے جانا پڑا وہاں ایک بوڑھا بابا اور ایک بوڑھی اماں کھڑے تھے بلکہ وہ مجھ سے پہلے ہی کھڑے تھے انہیں انتظار کا کہا گیا پر ساتھ ہی پڑی خالی کرسیوں پر بیٹھنے کا اشارہ کیا گیا تو وہ انتہائی خستہ حالی میں کھڑے رہے۔ انتظار کے بعد جب انہیں بلایا گیا تو بوڑھی ماں نے بازوؤں میں چھپایا شاپر نکالا۔ اس کے اندر اور شاپر میں لپیٹا ہوا اپنا شناختی کارڈ دیا اور پیسے نکلوائے۔

اتنے میں ایک سوٹڈ بوٹڈ نوجوان آیا۔ بینکر نے اٹھ کر سلام کرکے احترام سے کرسی پر بٹھایا اس کا چیک بھی لے کر خود کیش کروا آیا۔ یہ سارا منظر دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا کہ عزت اور کرسی پر بیٹھا کر کام کروانے کے جو اصل حقدار تھے انہیں لائن میں لگا دیا ۔اور جسے اللہّ نے کام کرنے کی قوت بھی دی تھی اسے کام کروا کر دیا گیا ۔
جو قوم اخلاقیات سے ہٹ گئی۔

رسوائی اس کا مقدر بن گئی۔ آج کیا وجہ ہے کہ ہم پریشان ہیں ،بغیر وجہ ڈپریشن ،ہائی بلڈ پریشر  اور اس طرح کی مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے جا رہے ہیں ۔ اس کی وجہ فضول قسم کی نمائش، پروٹوکول جس کے ہم اہل بھی نہ ہوں پھر بھی لینا چاہتے ہیں ۔اپنی باتوں غلطیوں  اور رویۓ پر توجہ دئیے بغیر  ہم یہ خواہش ضرور رکھتے ہیں کہ معاشرے میں ہمیں عزت کا مقام ملے۔


جب ہم اخلاق کو اپناتے ہی نہیں تو ہماری تربیت اچھی نہیں ہوتی جس سے بغیر سوچے سمجھے کسی پر بھی اچھی بری بات کر دیتے ہیں۔ وہ بات جب آگے پہنچتی ہے تو اگلا انسان بھی ہمیں ویسے ہی جواب دیتا ہے ۔ جس سے غصہ اور نفرت بڑھتی ہے اور اس عمل  سے معاشرہ خراب سے خراب ہو تا جا رہا ہے ۔
ہم برائی کی دلدل میں خود ہی پھنستے جا رہے ہیں ۔
دوسروں کی بیٹیوں پر من گھڑے باتوں سے ان کی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں اور پھر گمان کرتے ہیں کہ ہمارے یا ہمارے بچوں کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔


ہمیں چاہیئے کہ انفرادی طور پر ہم جہاں جہاں ہیں کوشش کریں اچھا خلاق اپنائیں کسی کی دل آزاری نہ کریں، کسی کی تکلیف پر خوش نہ ہوں ،دوسروں کی پریشانی اگر دور نہیں کر سکتے تو کم از کم اس میں اضافے کا باعث بھی نہ بنیں۔
اچھائی کو پھیلائیں،برائی کا جواب اچھائی سے دیں۔وقتی طور پر بے شک برا لگے لیکن یہ نیکی ضائع نہیں جاۓ گی۔
اکثر ہم دیکھتے ہیں گھر کے باہر کوئی آیا ہو تو گھر والے بچے کو کہتےکہ جاؤ اور کہو ابو گھر پر نہیں ہے۔

   یہ کیا ہے اچھی صفت ہے کیا اس سے ہم نے اپنے بچے کو جھوٹ بولنا خود ہی سکھایا، وہی بچے بڑے ہو کر ہم سے بڑے بڑے جھوٹ بولنا سیکھتے ہیں۔
جو ادارے اچھائی کی تلقین کرتے ہیں اور اسے بڑھانے کی تلقین کرتے ہیں وہ بہت جلد کامیاب ہو رہے ہیں۔آج کل ٹرینڈ ہے کہ مختلف ریسٹورنٹ میں گیٹ کیپر ،ویٹرز جب عزت سے سر یا میم کہہ کر بات کرتے ہیں تو ہم خود کو کتنا قابل احترام محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔

حالانکہ وہ صرف اپنی ڈیوٹی پوری کر رہے ہوتے ہیں نہ کہ ہم   اتنا محترم ہوتے ہیں۔
اور اگر یہی احترام اور خوشی ہم دوسروں کو دیں تو کیا ہم ان کے دلوں میں گھر نہیں کر سکتے کیا۔ضرور کر سکتے ہیں ۔
بس فرق ہے تو سوچ کا
فرق ہے تو اس پہلے قدم کا
فرق ہے تو تھوڑا جھکنے کا
انا میں بہت سے رشتے کھو دیتے ہیں۔جھکنے اور عزت کرنے میں ہمارا کجھ نہیں جاتا۔

لیکن ہم نے خود کو کبھی جھکنے کے لیے راضی کیا ہی نہیں ۔
سفیدے کا درخت کتنا لمبا ہوتا ہے لیکن اکڑا ہونے کی وجہ سے نہ تو اس کا پھل لگتا ہے اور نہ ہی کوئی اس کی چھاؤں تلے بیٹھ سکتا ہے۔لیکن اس کے باوجود ہم عام درخت کی بات کریں جیسا کہ آم، بیری،امرود وغیرہ تو اس کی شاخیں پھیلی ہوتی ہیں جس سے اس کی چھاؤں اور پھل دونوں سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔


تو کوشش کریں خود کو تھوڑا جھکائیں لوگوں کو عزت دیں۔ ہم سب عزت کروانے ،پیار اور احترام کے بھوکے ہیں تو ہم سب دوسروں کو عزت و احترام دے کر بدلے میں عزت کروا سکتے ہیں۔ اپنی طرف سے بہتری کریں اپنے لیے نہیں تو اپنی نسلوں کے لیے کیونکہ ہمارے بچوں نے اس معاشرے میں سانس لینا ہے ،جینا اور پروان چڑھنا ہے۔تو بہتری کا پہلا قطرہ بنیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :