"کسان غربت کا شکار"

منگل 10 نومبر 2020

Shumaila Malik

شمائلہ ملک

"غربت" آج کا نہیں بلکہ بہت پرانا "عالمی مسئلہ" ہے. جس پر کافی ممالک نے تو قابو پا لیا ہے. پر پاکستان اور اس جیسے کچھ "ترقی پزیر ملک" آ ج بھی اس سے دو چار ہیں۔ گھر کے اخراجات ،خوشی و غمی،بچوں کی پیدائش سے لے کر ان کی تعلیم و تربیت اور مختلف اخراجات والدین کو ہی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ صرف مرد حضرات ہی اپنے خاندان کا سہارا نہیں بن رہے بلکہ خواتین بھی ان کے ساتھ ہاتھ بٹا رہی ہیں۔


اگر غریب طبقے کی بات کروں تو خواتین گھروں میں سلائی، کڑاہی کرتیں ہیں۔ مختلف فیکٹریوں میں کام کرتی ہیں۔ ادھر دیہاتوں میں سردی اور گرمی کی پرواہ کیے بغیر عورتیں مردوں کے ساتھ فصلوں میں کام کرتی ہیں۔ آ مدن اتنا کم کہ دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہے۔ تو ایسے ماحول میں بچوں کی اچھی "تعلیم و تربیت" کہاں ممکن ہے۔

(جاری ہے)

پھر "غریب مرد" حضرات سارا دن کام کر کے اپنے گھر کا چولہا با مشکل چلا سکتے ہیں۔

کیونکہ کھانے پینے کی اشیاء مہنگی،ادویات،بجلی،گیس،پانی کے بل وغیرہ۔ کیونکہ کوئ پھل اور دہی بھلے اور فروٹ چارٹس کی ریڑھی لگا کر تو کوئی کسی دوکان پر ملازمت کر کے اور کوئی کسی فیکٹری اور کارخانوں میں کام کر کے اور کوئی چھوٹے سے ہوٹل میں ویٹر کی ڈیوٹی سر انجام دے کر اپنا گھر چلا رہا ہے۔ کیا ہمارے پاس ایسے ذرائع اور وسائل نہیں ہیں کہ ہم ان کے لیے روزگار کے بہتر سے بہترین مواقع فراہم کر سکیں۔

کیونکہ آ ج یہ سکھی ہونگے تو کل کو ان کے بچے تعلیم حاصل کرکے اپنے خاندان اور ہمارے ملک "پاکستان" کا نام روشن کریں گے۔اس میں اہم کردار وہ لوگ ادا کر سکتے ہیں۔ جن کے پاس سرمایہ کاری ہے۔
اس پر موجودہ "وزیر اعظم عمران خان" کئی بار اوورسیز پاکستانیوں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت دے چکے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ کسی اور ملک کی بجاۓ جب اپنے ملک میں اپنے سرمایۓ سے فیکٹریاں،کارخانے،مختلف ادارے،اور ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر کھولیں گے تو بے شمار لوگوں کو اپنے ہی ملک میں ملازمت کے مواقع ملیں گے اور ملک کا سرمایہ اپنے ہی ملک خرچ ہوگا تو اس سے معشیت مضبوط ہوگی اور بے روزگاری پر بھی کنٹرول ہوگا۔


ملک کی معشیت کی بات ہو اور اس میں "شعبہ زراعت" کا ذکر نہ ہو تو یہ مناسب نہ ہوگا۔ کیونکہ "زراعت" معشیت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اگر "صنعتوں" کے ساتھ ساتھ "کسان" کے اخراجات کو کم کرنے کا بھی سوچا جاۓ تو زیادہ بہتر ہے۔ کیونکہ کنسٹرکشن اور چھوٹی صنعتوں سے فائدہ ضرور ہے ان سے بھی لوگوں کو روزگار ملے گا پر غزائی اجناس تو کسان نے اُگانی ہیں اور غریب کے لیے وہی کھانے پینے کی چیزیں خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔


ابھی کسان پر احتجاج ہوا جس میں کسانوں پر شیلنگ اور ڈنڈوں کی برسات ہوئی۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ کیا کسان احتجاج کا زیادہ جرم تھا جو ان پر ظلم ہوا۔
کیا احتجاج کا حق صرف سرکاری اداروں کے لوگوں اور سیاسی لوگوں کو ہوتا ہے۔
پھر جب مختلف "دور حکومت" میں مختلف جماعتیں جلسے ،جلوس اور ریلیاں نکالتے ہیں۔ وہ بھی تو احتجاج کی ایک صورت ہوتی ہے اس میں کیوں لوگوں پر ایسے نہیں تشدد کیا جاتا ہے۔


کہیں اس کا جواب یہ تو نہیں کہ وہ سیاسی پارٹیوں کا احتجاج ہوتا ہے اور پتہ ہوتا ہے کہ اینٹ کا جواب پھتر سے دیا جاۓ گا۔ اس لیے ان کے ساتھ ایسا برتاؤ نہیں کیا جاتا۔ جو موسم کے طوفانوں سے لڑ کر فصلوں پرخون پسینہ بہا کر کام کرنے والے غریبوں سے کیا گیا۔ سیاسی احتجاج کے پیچھے تو سیاسی لیڈران ہوتے ہیں۔ ادھر تو کسان کے لیڈر ہی وفات پا گئے جن کی وفات کی وجہ عارضہ دل بتایا جا رہا ہے۔


کسان پر رحم کھانے کی ضرورت بھی ہے اور اس صورتحال میں ان پر رحم کرنا بنتا بھی ہے کیونکہ ایک طرف ٹڈی دل سے فصلوں کو کافی نقصان ہوا دوسری طرف ٹیوب ویل بل،مہنگے پیسٹائڈز نے کسان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ تو ایسے حالات میں کیا کسان کا حق نہیں بنتا کہ وہ اپنے اس دکھ سے "حکومت وقت" کو آ گاہ کرے ان سے مدد کی اپیل کرے ،خدارہ کسان کے دکھ کو سمجھیں اور ان کو تحفظات دے کر بہتر اقدامات کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :