دینی وعصری اورسرکاری و غیر سرکاری ۔کیا ہمارا نظام تعلیم معیاری ہے ؟

پیر 6 جولائی 2020

Sufian Ali Farooqi

سفیان علی فاروقی

بحیثیت ایک مسلمان ہماری ہر چیز کی ابتداء محسن انسانیت ،فخر کون و مکاں ،سرور انبیاء حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک اسوہ حسنہ سے ہوتی ہے اور ہماری تعلیمی تاریخ کی ابتداء بھی غار حرا میں لفظ ”اقراء “ سے ہوئی جس کا مطلب ہے پڑھ ،جو ایک مقدس ترین ذات کی طرف سے ایک برگزیدہ فرشتہ ایک برگزیدہ انسان کو پڑھانے آیا اوراسلام کی سب سے پہلی درسگاہ ،مدرسہ،سکول ،کالج یا یونیورسٹی مسجد نبوی تھی اوراس میں پیدا ہونے والے اسلام کے سب سے پہلے کامیاب اور کامران لیڈر،تاجر،معلم،سیاستدان، مجاہداور معاشرہ کے سب سے صالح افراد صحابہ کرام تھے اور یہ ان کی کامیاب تعلیم ہی کا نتیجہ تھا کہ ان کے دور میں ان سے زیادہ متمدن ،تہذیب یافتہ ،متحد ،باکرداراور عقلمندپوری دنیا میں کوئی نہیں تھا یہ بھی یاد رکھیں کہ کائنات کے سب سے پہلے انسان حضرت آدم  کا قرآن پاک میں ایک جگہ یوں تعارف کروایا گیا ۔

(جاری ہے)


”وعلم آدما الآسماء کلھا“
یہ لکھنا پڑھنا،سیکھنا سیکھاناجسے ہم تعلیم و تعلم اور ایجوکیشن کہتے ہیں کسی بھی قوم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اور کسی بھی قوم کے عروج و زوال ،ترقی و تنزلی کے تما م راستے اسی نظام تعلیم سے ہی ہوکر گزرتے ہیں ۔
ہمارا ملک عزیز پاکستان چونکہ اپنی پیدائش کے پہلے دن سے ہی اندرونی یورشوں ،ریشہ دوانیوں ،اہمیت تعلیم سے نابلد سیاسی پنڈتوں ، اپنوں کی ناتجربہ کاری اور اغیار سے یاری کی نظر ہوتا آرہاہے اسی لئے یہاں کا نظام تعلیم دنیا کے پہلے 150نظام تعلیم میں کہیں نظر نہیں آتا اور سات دھائیوں سے کسی بھی گورنمنٹ نے اس میں کوئی خاطر خواہ ترامیم نہی کیں جس سے ہمارا نظام تعلیم دنیا کی رہنمائی کرسکتابلکہ ہمارا نظام تعلیم ایسا ہے کہ ہم دنیا کی رہنمائی کی بجائے ان کی نقالی بھی ٹھیک سے نہیں کرپارہے حالانکہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح  پاکستان میں ایک ایسا نظام تعلیم چاہتے تھے جو پوری امت مسلمہ کی قیادت تیار کرسکے اور پورے ورلڈ میں اپنا ثانی نہ رکھتی ہو اس کی اہمیت ان کے اس مقولہ سے صاف واضح ہوتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا ”ہماری قوم کیلئے تعلیم زندگی اور موت کا مسئلہ ہے “
ملک عزیز پاکستان میں نظام تعلیم کئی ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے جو کسی طور بھی باہم نہیں ہوپارہا یا کچھ نادیدہ قوتوں کا شاید مفاد ہی اس بٹوارے میں پنہاں ہے اسی لئے کو ئی بھی کوشش توانا اور تناور نہیں ہوپاتی ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ نظام تعلیم کی ابتداء کب ہوئی کہا جاتا ہے کہ میٹرک کلاس کا پہلا امتحان برصغیر میں 1858ء میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ برصغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں سو ہمارے پاسنگ مارکس 65%ہیں تو برصغیر میں 32% ہونے چاہئیں جنہیں چند سالوں بعد 33% کردیا گیا اور ہم 2020میں بھی 33%نمبر میں ہی پاس کررہے ہیں البتہ وفاق المدارس نے 40%کئے ہوئے ہیں اور لادڑ میکالے کا وہ مشہور مقولہ آج بھی برصغیر کی تعلیمی تاریخ کا حصہ ہے کہ
”ہم یہاں نظام تعلیم کے ذریعے ایک ایسی کھیپ تیار کررہے ہیں جو وضع قطع کے لحاظ سے ہندوستانی ہولیکن ذہنی و فکری لحاظ سے انگریز وں کی غلام “۔


 اسی طرح موجودہ دینی نظام تعلیم لگ بھگ اسی دور میں انگریز کے نظام تعلیم کے مقابلہ میں یا رد عمل میں پہلے دینی نظام تعلیم میں تبدیلیاں کرکے بنایا گیا جس میں سب سے زیادہ مشہور و معروف ”ندوة العلماء“اور ”دارالعلوم دیوبند “ہے اور عصری تعلیم میں ”علی گڑھ “ہے جن کے فضلاء نے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے برصغیر کوعلمی سرگرمیاں مہیا کیں۔


پاکستان کے موجودہ نظام تعلیم پر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب علیہ الرحمہ نے بہت جاندار تبصرہ کیاجس کی اہمیت آج تک ختم نہیں ہوسکی انہوں نے 1950ء میں ایک جلسہ کے موقع پر فرمایا جسے ان کے صاحبزادے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ نے کئی جگہ کوٹ بھی کیا کہ
”پاکستان بننے کے بعد درحقیقت نہ ہمیں علی گڑھ کے نظام کی ضرورت ہے نہ ندوة العلماء کی ضرورت ہے اور ناہی دارالعلوم دیوبند کے نظام کی ضرورت ہے بلکہ ہمیں ایک تیسرے نظام کی ضرورت ہے جو ہمارے اسلاف کی تاریخ سے مربوط ہو(یعنی وہ نظام تعلیم جو انگریز کے برصغیر آنے سے پہلے رائج تھا جس میں ایک کامیاب سائنس دان اور شیخ الحدیث ایک ہی مدرسہ کی چھت کے نیچے تشنگان علوم دینی و عصریہ کی پیاس بجھا رہے تھے )۔


آگے چلنے سے پہلے پاکستان کے نظام تعلیم پر ایک مزیدار اور سنجیدہ تبصرہ پڑھ لیں جو کسی کالم میں کوٹ کیا گیا تھا کہ
”آپ ہمارا نظام تعلیم ملاحظہ کریں جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل ہے ،ہمارے بچے ”پبلشر“بن چکے ہیں آپ تماشہ دیکھیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں ،بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں ،اساتذہ ا سی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں ،خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیں اور خود ہی پیپر بناتے ہیں اس کو چیک کرکے خود ہی نمبر دیتے ہیں ،بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کرتے ہیں ،اس نتیجے پر تالیاں بجا بجاکر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے ہیں جن کے بچے فیل ہوجاتے ہیں وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو کوڑھ مغز اور کند ذہن کا طعنہ دیتے ہیں ،آپ ایمانداری سے بتائیں اس سب میں بچے نے کیا سیکھا“۔

یہ تجزیہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے ۔
ہمارے ہاں ایک بہت بڑا مسئلہ تدریسی زبان کا رہا ہے ملک عزیز پاکستان کی عوام انگریزی زبان سے نالاں ہے اور ان کا کہنا ہے کہ کیا ہماری قومی زبان ”اردو “یا ہماری مذہبی زبان ”عربی“ بانجھ ہوچکی ہیں کہ اس میں تعلیم نہیں دی جارہی مگر ہمارا مقتدر حلقہ تعلیمی زبان انگریزی ہی رکھنے پر مصر ہے اور اس کشمکش میں قومی تشخص اور وحدت کی علامت اردو زبان مشق ستم بن کر رہ گئی ہے جس کا لامحالہ نقصان 90%پاکستانی عوام بھگت رہی ہے بلکہ شنید یہ بھی ہے کہ انگریز نے اسے دفتروں میں اسی لئے رائج کیا تھا کہ برصغیر کی سادہ لوح عوام یا افسروں کا نچلہ طبقہ سمجھ ہی نا سکے کہ ہائی کمان کیا کررہی ہے کیا کرنے جارہی ہے ۔


ہمارے ہاں تعلیم اپنی روح یعنی تربیت سے خالی ہوچکی ہے اور جو نظام تعلیم بڑوں کا ادب ،اپنی ثقافت سے وابستگی ،اپنی تہذیب و تمدن سے لگاؤ ،اپنے ملک او رمذہب سے وفاداری ،چھوٹوں پر شفقت اور ایک انسان کو معاشرے کا صالح جز نہ بناسکے اسے کامیاب نظام تعلیم کہنایا صرف نظام تعلیم کہنا دنیا کا سب سے بڑا دھوکا ہوگا دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو دینی مدارس بہرحال اس ضرورت کو کسی حد تک پورا کررہے ہیں اور انہیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ پاکستان کے دینی مدارس کا شمار دنیا کے ٹاپ ٹین میں ہوتا ہے مگر اس کے باوجود دینی مدارس میں بہت سی اصلاحات کی ضرورت ہے جس میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ جیسے صحابہ کرام  نے دین کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف شعبوں کو سیکھا اور ان میں کام کیا بلکہ چودہ سوسال سے علماء دین نے جس طرح دنیاوی علوم میں دسترس حاصل کی اور بہت سے فنون کو سیکھ کر ذریعہ معاش بنایا(یہ موضوع بہت تفصیل طلب ہے اس پر الگ سے کالم کی تیاری کررہاہوں )اسی طرح ایک عالم دین کو اپنے اسلاف کی روش پر عمل کرتے ہوئے دنیاوی علوم میں دسترس حاصل کرنی چاہئے بلکہ اسے ذریعہ معاش بناتے ہوئے دین کا کام فی سبیل اللہ کرناچاہئے ۔


دینی مدارس کے حوالے سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ غیر سرکاری عصری اداروں کی طرح اگر کوئی استاذ دس ،بیس یا چالیس سال تک ایک ادارے میں اپنی زندگی کا سنہری وقت دیتا ہے اور اسے بوجوہ مدرسہ چھوڑنا پڑتا ہے یا نکال دیا جاتا ہے تو انہیں زندگی نئے سرے سے صفر سے شروع کرنی پڑتی ہے جو کہ سراسر ظلم ہے کہ عمر کے جس حصے میں انہیں کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے انہیں تنہا چھوڑدیا جاتا ہے اور اگر ان کی اولاد یا ذاتی کوئی رہائش کا بندو بست نا ہو تو جس تکلیف یا اذیت سے انہیں گزرنا پڑتا ہے وہ ناقابل بیان ہے سو وفاق المدارس کو چاہئے کہ ایک مخصوص مدت کے بعد اس طرح کے اساتذہ کا ماہانہ مشاہرہ مقرر کردیا جائے اور ان کی زندگی سہل کرنے کیلئے عملی اقدامات کئے جائیں۔


ہمارے ارباب حل و عقد کو اس پر بھی سنجیدگی سے سوچنا پڑے گا اور اگر یہ آج نہیں سوچیں گے تو کل کلاں حالات انہیں مجبور کر ہی دینگے کہ دینی مدارس اور عصری اداروں کے طلباء میں ذہنی ٹکراؤ کی کیفیت یا فضاء کسی بھی صورت اس ملک کے مفاد میں نہیں ہے ایک دوسرے پر نتقید برائے اصلاح کی جائے کوئی حرج نہیں لیکن اختلاف کو انتشار بننے سے بچانے کیلئے بھی عملی اقدامات کی ضرورت ہے ۔


اگر ہم متمدن دنیا کے بہترین نظام تعلیم اور اپنے نظام تعلیم کو دیکھیں تو بہر حال ہمیں اپنے نظام تعلیم کے اندر اصلاحات کرتے ہوئے تعلیم کے سارے ڈھانچے کو از سر نو دیکھنا اور ہر ممکنہ حد تک تبدیل کرنا پڑے گا وہ معاملہ طلباء کی غیر نصابی سرگرمیوں کا ہو ،عمر کے حساب سے کتابوں کے بوجھ کا ہو،8گھنٹے سکول میں پڑھائی کرنے کے بعد ٹیوشن یا اکیڈمی الگ سے جانے اور الگ سے خرچہ کرنے کا ہو ،ابتدائی تعلیم یعنی نرسری اور پریپ سے لیکر پانچویں جماعت تک نصاب تعلیم اور طریقہ کار کا ہو ، گنجلک امتحانی عمل کا ہو ،دینی و عصری طلباء کی معاشی و معاشرتی تربیت کا ہو وغیرہ وغیرہ ۔


 تقریباً تمام مہذب معاشروں میں چھوٹے بچوں کو ابتدائی تعلیم عملی دی جاتی ہے اور انہیں اٹھنے بیٹھنے ،بڑوں سے بات کرنے یعنی اخلاقیات سکھلائی جاتیں ہیں آداب سکھائے جاتے ہیں بچوں کے رویوں کو درست کیا جاتا ہے پھر کہیں اگلے درجوں میں جاکر کتابی سلسلہ شروع ہوتا ہے اور ہمارے ہاں پہلے دن سے ہی بچوں کو کتابیں رٹانی شروع کردی جاتی ہیں جو کہ سراسر غلط ہے بہر حال اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظام تعلیم و تربیت کو اپنایا جائے اور اس کی حقیقی روح کو عمل میں لاکر دینی و عصری اداروں کی تجدید نو کی جائے تاکہ ہمارا نظام تعلیم ملک عزیز پاکستان کی معاشرتی ،علمی و عملی ،ثقافتی و سائنسی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے پوری دنیا کو ایک مضبوط،سمجھدار اور جامع قیادت فراہم کرسکے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :