اُردو ادب کی ترویج و اشاعت میں علما اورمدارس کا کردار

منگل 2 فروری 2021

Sufian Ali Farooqi

سفیان علی فاروقی

زبان کسی بھی قوم کے لئے اس کی پہچان سے کم نہیں ہوتی بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ زبان کسی بھی قوم کی معاشرت کی عکاس ہوتی ہے، الحمدللہ ہماری قومی زبان اُردو ہے اور اس میں وہ تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں جو ایک متمدن قوم کی زبان میں ہونی چاہئیں اوراب تو اُردو زبان کی اہمیت،افادیت اور ضرورت سے انکار کرناکسی طور بھی ممکن نہیں رہا، جس کی ایک دلیل حالیہ دنوں اقوام متحدہ میں اُردو زبان کو عالمی زبان قرار دیا جانا بھی ہے۔


بدقسمتی سے اُردو زبان کے عملی نفاذ میں کچھ نادیدہ قوتوں کی طرف سے ہمیشہ رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہی ہیں اور موجودہ دور میں بھی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ کے احکامات کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں (انہی کا فرمان ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے)لیکن پاکستانی قوم میں اُردو زبان کے حوالے سے بیدار ہوتے شعور کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انشا ء اللہ عنقریب قومی زبان اُردو کو اس کا جائز اور حقیقی مقام مل جائے گا ۔

(جاری ہے)


اس میں کوئی شک نہیں کہ باجود ہزار رکاوٹوں کے اُردو زبان کوبلاتفریق رنگ و نسل اور مذہب کے ایسے لوگ میسر رہے جنہوں نے ہر دور میں اس کا عَلم اٹھائے رکھا اور اس ٹمٹماتے چراغ کو اپنے جذبوں اور عقیدتوں کا تیل فراہم کرتے رہے ،لیکن اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ جس طرح اسے مسلمانوں نے اپنایا اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی بلکہ اس سے بڑھ کر اگر مسلمانوں کو اُردو زبان کاموجد کہا جائے تو مضائقہ نہیں بلاشبہ مسلمانوں نے اُردو زبان کی بقا ء کی جدو جہد کو ہر سطح پر پھیلایا جس کا اندازہ شیخ الاسلام مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کے اس فتویٰ سے بھی لگایاجاسکتا ہے جس کو انہوں نے اس وقت کے معروضی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دیا تھا شیخ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”اُردو زبان کی حفاظت چونکہ دین کی حفاظت ہے اس زبان کی حفاظت حسب ِ استطاعت واجب ہوگئی ہے اور باوجود قدرت کے اس میں غفلت اور سستی کرنا مصیبت بھی ہوگی اور موجبِ مواخذہِ آخرت بھی ہوگا“۔

(امدادالفتویٰ جلد ۴ص ۶۵۲)
پھر مسلمانوں میں یہ سہرابھی اکثر علماء اور اہل مدارس کے سر رہا جنہوں نے اسلامی علوم کی ترویج و اشاعت کے لئے اُردو زبان کا انتخاب کیااپنے نظام تعلیم کو اُردو میں رائج کیا، مدارس میں تدریسی زبان اُردو کو قرار دیا ،اپنے مواعظ ،تقریر و تحریر کے لئے اُردو زبان کا انتخاب کیا ،جب ہمارے عصری ادارے اپنی قومی زبان سے مایوس اور انگلش زبان سے مرغوب ہوکر اپنے سور ج سے لمعہ افروز ہونے کی بجائے دوسروں کے بجھے چراغوں سے روشنی لینے کی کوششوں میں بڑے شد و مد سے مصروف تھے تو ایسے وقت میں علماء اور مدارس نے اُردو کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا کر اس کی حفاظت کی بلکہ اس میں وہ اتنے مستقیم ہوئے کہ نام نہاد دانشوروں کے طعنے بھی سنے ،جدید زبانوں سے نابلد بھی کہا گیا لیکن وہ اپنی لگن اور دھن میں مگن عوام الناس میں اُردو زبان کے فروغ کی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔


اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجا سکتا ہے کہ 1835ء میں انگریزسرکار نے متحدہ ہندوستان میں فارسی زبان کی سرکاری حیثیت ختم کرکے انگریزی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیدیا اسلامی تاریخ و ادب اور اسلامی علوم و فنون کاایک بہت بڑا ذخیرہ علماء نے عربی سے فارسی زبان میں منتقل کیا تھا جو کئی عشروں سے برصغیر کی دینی و علمی پیاس بجھا رہا تھا ایسے کڑے وقت میں اکابر علماء نے برصغیر میں اسلام کی بقاء کی جدوجہد شروع کی تو انہوں نے اُردو زبان میں تمام علوم منتقل کرنے کا فیصلہ کیااور علماء اور مدارس نے اُردو دان طبقہ اور اسلام کے آفاقی نظام میں ایک پُل کا کام سرانجام دیا ، عربی و فارسی میں موجود تمام اسلامی علوم کا اُردو زبان میں ترجمہ کرنا شروع کیا ،عربی میں کی گئی جدید اسلامی تحقیقات کو بھی اُردو دان طبقہ تک پہنچایا اور مزید تحقیقی ،علمی اورمعلوماتی کتابوں سے لائبریریوں کی لائبریریاں بھر دیں اورآج اُردو زبان میں جتنے بھی اسلامی علوم و فنون موجوداور محفوظ ہیں ان سب کو ہم تک پہنچانے میں علماو مدارس کی انتھک کاوشوں ،بے لوث محنتوں ،بے غرض و بے ریا محبتوں کا بہت بڑا حصہ ہے، علماء اور مدارس نے اُردو کا دامن قرآن ِ پاک کی تفسیروں ،حدیث کے تراجم و تشریحات ، ادب ،تصوف ،فلسفہ اورتاریخ وغیرہ سے مزین کردیا ،موجودہ دور میں بھی تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ مدارس ہی نے اُردو زبان کو تدریسی زبان کے طور پر رائج کیا ہوا ہے اور ہزاروں مدارس میں موجود لاکھوں پاکستانی قوم کے فرزند اپنی قومی زبان میں ہی تعلیم حاصل کررہے ہیں۔


اُردوزبان و ادب کے فروغ اور پوری دنیا میں اُردو کی ترویج و اشاعت میں جن علماء نے بے پایاں خدمات سر انجام دیں ان کا شمار تو شاید ممکن نہیں لیکن ان میں سے چند ایک کے نام اور ان کی خدمات کو برکت کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے ۔
دیگر زبانوں کو سمجھنے کے لئے اُردو میں لغات کی بہت ضرورت تھی خاص کرکے عربی زبان کو سمجھے بغیر اسلامی علوم و فنون تک پہنچنا ناممکن تھا سو علماء نے اس سلسلہ میں کڑی محنت کی اور بے شمار علمی ذخیرہ سے بھر پور لغات مدون کیں مثلاً
#…:مصباح اللغات،مولانا ابوالفضل عبدالحفیظ بلیاوی رحمہ اللہ
#…:قاموس القرآن اوربیان اللسان ،مولاناقاضی زین العابدین سجاد میرٹھی۔


#…:القاموس الوحید۔القاموس الجدید۔القاموس الاصلاحی ، مولانا وحید الزمان کیرانوی رحمہ اللہ
#…:لغات جدیدہ،مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ
#…:القاموس الفقہ (۵ جلدیں)،مولانا خالد سیف اللہ رحمانی۔
#…:القاموس الموضوعی ،مولانا ندیم الواجدی۔وغیرہ وغیرہ
وہ علماء جنھوں نے دینی خدمات تو سر انجام دی ہیں لیکن ساتھ ساتھ ان کی ادبی تحاریر و تقاریر،شعرو سخن میں دسترس کو بھی مقبولیت عامہ حاصل ہوئی اور ایک دنیا نے ان کے علوم سے اکتسابِ فیض کیا مثلاًقاسم العلوم والخیرات مولاناقاسم نانوتوی رحمہ اللہ،(یہ فی البدیہہ شاعر بھی تھے)،مولانا یعقوب نانوتوی رحمہ اللہ(بیاضِ نانوتوی ،شعری مجموعہ)، مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ(ہمہ جہت شخصیت تھے ،کمال کا ذوق پایہ تھا ،نہایت عمدہ شاعر بھی تھے )، علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ ان کی دینی خدمات سے کون واقف نہیں ان کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ چلتی پھرتی لائبریری ہیں (انہوں نے ۱۵۰۰۰ اشعار کہے)، علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ (آپ نثر کی ایک خاص طرز کے موجد بھی ہیں)، شیخ الادب مولانا اعزاز علی رحمہ اللہ،مولانا قاری طیب قاسمی رحمہ اللہ،مفتی عتیق الرحمن ، مولانا مناظر احسن گیلانی رحمہ اللہ،مولانا احسان اللہ تاجور رحمہ اللہ ،مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ،مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ ،مولوی عبدالحق رحمہ اللہ،مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ،مولانا حفظ الرحمن سیوھاروی رحمہ اللہ،مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ، علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ،مولانا محمد حسین آزاد،مولانا حالی رحمہ اللہ،مولانا حسر ت موہانی رحمہ اللہ،مولانا مملوک علی رحمہ اللہ،مولانا سید رابع حسنی رحمہ اللہ،مولانا عبدالماجد دریا آبادی رحمہ اللہ،مولانا محمد علی جوہر رحمہ اللہ،مولانا زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ (فضائل اعمال والے )، مولانا محمد الیاس دھلوی (تبلیغی جماعت والے )، مولانا عبید اللہ سندھی رحمہ اللہ،مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ،مولانا منظور احمد نعمانی رحمہ اللہ،مولانا سید بد ر عالم میرٹھی رحمہ اللہ،مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ،مولانا شمس الحق افغانی رحمہ اللہ،مولانا قاضی اطہر مبارکپوری مولانا زکی کیفی (شعری مجموعہ کیفیات) ، مفتی والی رازی (اُردو میں سیرت کی پہلی غیر منقوط کتاب ”ھادی عالم“ کے مصنف ) وغیرہ وغیرہ شامل ہیں ۔


علماء اور مدارس اُردو رسم الخط کی حفاظت میں بھی پیچھے نہیں رہے بلکہ فنِ خطاطی میں بھی اپنی خدمات سر انجام دیں چنانچہ موجودہ دور میں اُردو رسم الخط(خطِ نستعلیق) کے مجدد استاذالعلماء سید نفیس الحسینی شاہ صاحب رحمہ اللہ(نفیس رقم)کا نام نامی بہت نمایاں ہے زمانہ ماضی میں خطِ نستعلیق کے استادحافظ ابراہیم ،خطِ نسخ و نستعلیق کے استاد مولانا ابراہیم استر آبادی رحمہ اللہ،مولوی الہی بخش خوشنویس رحمہ اللہ، مولانا حسن بنائی رحمہ اللہ،مولانا خواجہ محمود رحمہ اللہ،مولوی سید سراج الدین احمد رحمہ اللہ، مولانا سلطان الدین احمد رحمہ اللہ،ملا عبدالقادر اخوند رحمہ اللہ،مولوی نذیرالدین قریشی رحمہ اللہوغیرہ وغیرہ گذرے ہیں۔


یہ چند ایک نام اور دو تین شعبہ جات صرف اس لئے ذکر کئے ہیں تاکہ ہمیں اندازہ ہوسکے کہ علما ء اور مدارس نے اُردو ادب کی ترویج و اشاعت میں اپنا بھر پور حصہ ڈالا ہے اور ان سب چیزوں کو ان کی جزئیات سمیت ذکر کرنا اس مختصر کالم میں ممکن نہیں ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :