
میرے خوابوں کی راجدھانی ۔۔۔میرا گلگت
منگل 29 جون 2021

سفیان علی فاروقی
ہم پہ ہو تیری رحمت جم جم
تیرے ثنا خاں عالم عالم
صلی اللہ علیہ وسلم
اس امت کی نبضیں ڈوب رہی ہیں ڈوب چکی ہیں
دھیرے دھیرے مدھم مدھم
صلی اللہ علیہ وسلم
رب کے حضور سب سے پہلا ننھا منا سا سجدہ بھی گلگت کی سرزمین پر کیا ،پہلی دفعہ توتلی زبان میں لفظ ”اللہ “اور پہلا کلمہ پڑھا تو اس کی گواہی بھی انشاء اللہ گلگت کی فضائیں دینگی،الف ،ب ، ت کے شعوری سفر کی ابتداء بھی گلگت ہی میں ہوئی۔
(جاری ہے)
ہفتہ میں ایک مرتبہ مغرب کی بعددریائے گلگت جاتے اور چور سپاہی کھیلتے ،دریائے گلگت اور ہمارے گھر کے درمیان صرف سڑک تھی دو ،تین منٹ میں پیدل پہنچ جاتے اور ہاں سب سے پہلے دریامیں مچھلی تیرتے دیکھی تو اسے پکڑنے کی کوشش میں کتنی مرتبہ گرا تھا سب کچھ تھوڑ ا تھوڑا یا د ہے ،نجانے کتنی کاغذ کی کشتیاں دریائے گلگت میں بہائیں ایک تو بچپن یعنی زندگی کا سب سے خوبصورت وقت اور دنیا کی سب سے خوبصورت وادی گلگت بچپن تو یاد گار ہونا ہی تھا ۔
زندگی کی پہلی عیدیں گلگت میں کیں اور ظاہر ہے پہلی عیدی بھی وہیں ملی ،اور سب سے پہلی کتابوں(بچوں کی کہانیاں) کی خوشبو بھی گلگت کی ہواؤں کے دوش پر ایسی روح میں اتری کی زندگی اور کتابیں لازم و ملزوم ہوگئیں،اباجان مرحوم مہینے میں ایک دوبار گلگت کے مضافات میں سیر کو لے جاتے تو جیسے ہماری عید ہوجاتی ،گلگت کے پہاڑوں پر بھاگ کر چڑھنا ، ایک پتھر کو ٹارگٹ بنا کر اسے ہاتھ لگانے کی دوڑ میں شریک ہونا اور پھر بڑے بہن بھائیوں نے جان بوجھ کر مجھ سے ہار جانا اور میں نے جیت کی خوشی میں دور سے ہی نعرے لگانے میں جیت گیا میں جیت گیا ،ایک وقت کا کھانا کسی باغ میں بیٹھ کر کھانا وہیں کوکنگ کرنا ،لوگوں نے اپنے باغات میں کچھ حصہ مخصوص کیا ہوتا تھا کہ راہگیر یا سیر پر نکلی فیملیز وہاں آرام سے بیٹھ کر پکنک منا سکیں یہ سب کچھ کتنا محسور کن تھا ۔
ہم تین بھائی دو بہنیں ہیں اور میں سب سے چھوٹا میرے اباجان مرحوم گلگت ہائی سکول نمبر ۱ میں عربی ، اسلامیات کے ٹیچر تھے اور پاک آرمی کی سیپر مسجد جوٹیال میں خطیب بھی تھے ،میری پیاری ماں جی مرحومہ مجاہد کالونی کونوداس میں مڈل سکول فار وومن میں ٹیچر تھیں ، ایک ڈیڑھ کنال میں مشتمل ذاتی گھر تھا جس میں سے آدھے گھر کو باغ بنایا گیا تھا ،گراسی پلاٹ کے اردگرد خوبصورت پھول، انگوروں کی بیل تھی پھر باغ شروع ہوتا تھا جس میں جاپانی پھل ،بادام،انگور،سیب ،خوبانی وغیرہ کے درخت تھے زندگی میں راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا کہ صدر پاکستان جنرل محمد ضیاالحق کو شہید کردیا گیا اس کے بعد گلگت کے حالات خراب ہوئے اور ہمیں اونے پونے سب کچھ بیچ باچ کر پنجاب شفٹ ہونا پڑا ور۔۔۔۔اور۔وہ زندگی بھی گلگت میں ہی کہیں رہ گئی۔
آج کتنے سال گذرگئے لیکن یادوں کے دریچوں سے حسرتوں کے محلات تک سب میں گلگت ہی گلگت ہے ہاں ایک مرتبہ 1995میں چند ہفتوں کے لئے ماں جی کے ساتھ گیا تھا گلگت اپنے گھر کی دیواروں کو ہاتھ لگایا تو یوں لگا جیسے وہ دوبارہ جی اٹھے ہوں ،ایسے لگا زندگی دوبارہ سانس لینے لگی ،محسوس ہوا کہ آنکھوں میں منظر بہتر ہونے لگے ہیں لیکن واپس تو آنا تھا اپنے گھر کے اجڑے ہوئے باغ کو تسلی دی تھی کہ دل کا عالم بھی یہی ہے،سیمنٹ کے بلاکوں کا بنا وہ گھر یادوں کا ریشمی محل ہے ،اس کے آنگن میں بلی کے بچوں کے پیچھے پیچھے بھاگتے ہوئے شور مچانا ،کیسے بھول سکتا ہے،دریائے گلگت کی محسور کن آواز،شینا زبان کے چند الفاظ،چنار باغ میں کی جانی والی شرارتیں ،وہ لکڑی کا پل جس سے گذر کر بازار جایا کرتے تھے ،دریائے گلگت اور دریائے ہنزہ کا سنگم ،اس کے قریب ایک سرنگ بھی تھی جس سے گذر کر نجانے کہاں جایا کرتے تھے شاید کچھ یاد گاریں تھیں وہاں ،اور کونوداس کے بالکل سامنے دریا کے پار ،امپھری محلہ جس کے ایک مکان میں میری پیدا ئش ہوئی تھی ۔سردیوں کی چھٹیوں میں پنجاب آیا کرتے تھے لاہور یا اسلام آباد وہیں سے واپسی ہوجاتی کبھی تو فلائٹ دو تین لیٹ ہوجایا کرتی تھی کہ مطلع ابر آلود ہوتا۔
ننھے سے ذہن کے کینوس پر بکھری یادیں ذہنی پختگی کے ساتھ ساتھ اوجھل ہونے کی بجائے پختہ ہوتی گئیں،گلگت کے نام پر دل آج بھی ویسے ہی مچلتا ہے جیسے بچپن میں مچلتا تھا ،گلگت سے تقریباً تیس سالہ دوری بھی اس سے محبت یااس کی بانہوں میں سمانے کی تڑپ کو کم نہ کرسکی ،گلگت واقعی گلگت ہے دنیا کی جنت اور میرے خوابوں کی راجدھانی ۔
اور آخر میں گزارش ہے کہ آج کل وہاں کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم پورے پاکستان سے ان ایریاز میں سیرو تفریح کے لئے جاتے ہیں تو اس بات کا بالکل خیال نہیں کرتے ہمارا لائف سٹائل وہاں کے سادہ لوح ،ملنسار،محبتو ں میں گندھے ہوئے لوگوں کے طرزِ زندگی کو شدید متاثر کررہا ہے ۔تصنع اور ریا کاری سے پاک ان معاشروں کو اسی حالت میں رہنے دیں ،وہاں جاکر ان کے تمدن کو متاثر مت کریں کہ وہ تمدن اور لائف سٹائل ان پہاڑوں کی خوبصورتی سے مل کر ہی اس خطے کو جنت نظیر بناتا ہے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سفیان علی فاروقی کے کالمز
-
میرے خوابوں کی راجدھانی ۔۔۔میرا گلگت
منگل 29 جون 2021
-
ریاست مدینہ اورحکومتی رٹ
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
اُردو ادب کی ترویج و اشاعت میں علما اورمدارس کا کردار
منگل 2 فروری 2021
-
ماں! مجھے آپ سے بات کرنی ہے
جمعہ 4 دسمبر 2020
-
معیار انسانیت
جمعرات 1 اکتوبر 2020
-
آیا صوفیہ۔۔تاریخ ، شبہات کا ازالہ ،حقائق سے عقدہ کشائی
ہفتہ 8 اگست 2020
-
دینی وعصری اورسرکاری و غیر سرکاری ۔کیا ہمارا نظام تعلیم معیاری ہے ؟
پیر 6 جولائی 2020
سفیان علی فاروقی کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.