تعلیم ایک کاروبار

جمعرات 31 دسمبر 2020

Syed Hamza Hussain

سید حمزہ حسین

تعلیم ہر انسان کا ایک بنیادی حق ہے اور موجودہ دور میں تعلیم کے بغیر گزارہ بھی نہیں۔ پاکستانی آئین کے آرٹیکل (25-A) کے مطابق پاکستانی گورنمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر ۵ ۔۱۶ سال کے بچے کو فری اور بنیادی تعلیم دے۔ لیکن گورنمنٹ بچوں کو معیاری تعلیم دینے میں ناکام ہے۔ جس کی وجہ سے والدین نجی تعلیمی اداروں کی طرف رخ کرتے ہیں اور مجبوراً اپنے بچوں کو پیسے سے تعلیم دلوا رہے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ پچھلے کچھ عرصے نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم دی نہیں جارہی بلکہ بیچی جارہی ہے یعنی تعلیم اب ایک کاروبار کی شکل اختیار کرگیا ہے۔


پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کی رپورٹ کے مطابق سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدر آباد میں پچھلے پندرہ برسوں میں نجی تعلیمی اداروں میں 70%  اضافہ ہوا ہے۔

(جاری ہے)


نجی تعلیمی اداروں میں تعلیم کے نام پر کاروبار کیا جا رہا ہے وہ اس لیے کہ اگر ہم آج سے دس سال پہلے کی بات کریں تو بچے کو پانچ(۵) سال کی عمر میں   ”کے جی“ کلاس میں داخلہ کروایا جاتا تھا اور وہ بچہ اس دور میں بھی ڈاکٹر، انجنیئر بنتا تھا لیکن آج کے دور میں بچے کو دو (۲) سال کی عمر سے اسکول بھیجنا ضروری ہو گیا ہے کیونکہ اب پہلے  پریپ، پی۔

جی، نرسری اور پھر کے جی کلاس پڑھائی جاتی ہیں جو کہ سراسر پیسے بٹورنے کا ایک منفرد راستہ ہے اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ اس کے علاوہ کچھ نجی تعلیمی ادارے ایسے ہیں جن میں بچے کے پیدا ہونے کے فوراً بعد داخلہ کروانا ضروری ہوتا ہے ورنہ بعد میں وہ نجی تعلیمی ادارے بچے کو داخلہ نہیں دیتے۔ اس حوالے سے بچوں کے اسپیشلسٹ ڈاکٹر سہیل حسین کا یہ کہنا تھا کہ آج کل بچوں کے کمزور ہونے کی اصلی  وجہ یہی ہے کہ جو عمر بچوں کی سونے اور نشوونما کے لیے ہوتی ہے اس عمر میں بچوں کو صبح سویرے ہی اسکول بھیج دیا جاتا ہے لیکن کیا کریں!  والدین بھی نجی اسکول مافیا کے آگے بے بس ہیں۔


اسکولوں میں تعلیم دی نہیں بلکہ بیچی جاتی ہے یہ کہنا غلط نہیں کیونکہ جن بچوں کے والدین کے پاس فیس ادائیگی کے پیسے نہیں ہوتے ان بچوں کو اسکول سے نکال دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ نجی تعلیمی ادارے ماہانہ ہزاروں روپے فیس کے علاوہ طرح طرح کی سرگرمیوں کے نام پر بھی فیس بٹورتے ہیں مثلاً اسپورٹس ڈے، اینول ڈے وغیرہ جوکہ غریب والدین کی اِستطاعت سے باہر ہے۔

اس کے علاوہ اب تو اسکول والے والدین سے پیسے لے کر کتابیں، کاپیاں اور اسٹیشنری وغیرہ دگنے پیسوں میں بچوں کو خود فراہم کرتے ہیں اور حتی کہ ڈریس بھی صرف وہیں سے ملتا جہاں ان کا کمیشن بندھا ہو اور یہی وجہ ہے کہ آج کے اس مہنگائی کے دور میں غریب کا بچہ پڑھ نہیں سکتا اور تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے غریب اور غریب ہوتا جا رہا ہے۔
یہ ساری باتیں ایک طرف اب اس بات پر نظر ثانی کرتے ہیں کہ والدین ہزاروں روپے فیس اسکولوں میں بھرتے ہیں لیکن اس کے باوجود شام میں بچوں کو ضرور ٹیوشن سینٹر بھیجنا پڑھتا ہے چاہے وہ پہلی کلاس کا شاگرد ہویا دسویں جماعت کا شاگرد ٹیوشن بھیجنا ضروری ہو گیا ہے اور اب ٹیوشن بھی والدین سے فیس بٹورنے کا ایک بہترین ذریعہ بن چکا ہے۔

جو اساتذہ طالب علموں کو صبح اسکول یا کالجوں میں صحیح سے نہیں پڑھاتے وہ ہی اساتذہ شام میں اتنی دلچسپی سے پڑھاتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ طالب علم ٹیوشن کی طرف رخ کریں اور ان کو فیس بٹورنے کا موقعہ مل سکے اس کے علاوہ پچھلے دس سال سے ٹیوشن سینٹر میں یونیورسٹی کے داخلہ سے پہلے اس کی تیاری کا رجحان بڑھ گیا ہے اور اس تیاری کی فیس بھی 30-50 ہزار ہے اور اس تیاری کا مقصد سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ اس تیاری میں اساتذہ دو سال کا کورس دو مہینے میں ختم کروا دیتے ہیں صرف فیس کی خاطر اور یہ والدین کی کم عقلی ہے اور کچھ بھی نہیں۔


لہذا حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیمی نظام درست کرے تاکہ والدین نجی تعلیمی اداروں کے بجائے سرکاری تعلیمی اداروں کا رخ کریں اور نجی فیس مافیا کو شکست دے سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :