
سِول یا فوجی،ہر حکمران کی خواہش آزاد خارجہ پالیسی
اتوار 10 فروری 2019

سید سردار احمد پیرزادہ
(جاری ہے)
اس کا ایک ثبوت پاکستان کے پہلے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کی کتاب ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز“ بھی ہے جس میں وہ پاکستان کے لئے آزاد خارجہ پالیسی والی اپنی خواہش اور اُس کا تجزیہ کرتے ہوئے واضح طور پر لکھتے ہیں کہ ”آج کل ”آزاد“ خارجہ پالیسی کی بڑی رٹ لگائی جارہی ہے۔
”آزاد“ سے مراد ہے اپنے سوا باقی ہر ایک پر نکتہ چینی کرنے اور اسے برا بھلا کہنے کی آزادی لیکن ہم محض اس دکھاوے کے لئے کہ ہماری خارجہ پالیسی ”آزاد“ ہے، دوسروں پر ناحق نکتہ چینیاں کرنا نہیں چاہتے۔ ہماری خارجہ پالیسی کو قومی پالیسی ہونا چاہئے جس میں ہمارے اپنے فائدوں پر نظر رکھی جائے اور ان کے مطابق قدم اٹھایا جائے۔ ہمیں ظاہرداری اور اداکاری کی ضرورت نہیں، سکون اور سنجیدگی سے کام لینا ہے۔ دنیا آج کل مساوات کے لئے لڑرہی ہے، افراد کے درمیان مساوات، اقوام کے درمیان مساوات، خواہ وہ بڑی ہوں یا چھوٹی، اس کے لئے ضرورت ہے کہ تمام دنیا صاف صاف اس بات کو تسلیم کرلے کہ ہرقوم مساویانہ حقوق اور مواقع کی مستحق ہے۔ دنیا کے ملکوں کی آزادی اور خودمختاری کی ان کے رقبے یا وسائل کی بنیاد پر درجہ بندی نہیں کی جاسکتی۔ یہ بڑی صاف سی بات ہے اور کوئی بھی اس سے انکار کی جرات نہ کرے گا لیکن اس اصول کو دنیا میں نافذ کرانے کے کوئی ذرائع نہیں ہیں۔ یہ دنیا بڑوں ہی کی دنیا ہے، خواہ وہ دو بڑے ہوں یا تین بڑے یا چار یا اور بھی زیادہ۔ یہی دنیا کی تقدیر کا فیصلہ کرتے اور اس کی راہیں متعین کرتے ہیں۔ ہمیں امریکہ پر یہ بات واضح کردینی ہوگی کہ ہم اپنے مفادات کو نقصان پہنچائے بغیر کس حد تک اس کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ چین کی عوامی جمہوریہ سے بیگانگی برتنا ہمارے مفاد کے خلاف ہے۔ اسی طرح سوویت یونین سے خوشگوار دوستانہ تعلقات قائم کرنا ہمارے مفاد کے حق میں ہے۔ چنانچہ امریکہ کو اس امر کا یقین دلایا جاسکتا ہے کہ چین کی عوامی جمہوریہ یا سوویت یونین سے ہمارے تعلقات ایشیاء میں امریکی مفادات کے خلاف نہیں ہیں۔ امریکہ ہمیں جو اقتصادی امداد دے اس کے بدلے میں ہم اسے اپنی خیرسگالی اور تجارت و صنعت کے میدان میں اشتراک عمل کے بڑھتے ہوئے مواقع پیش کرسکتے ہیں لیکن اس کے بدلے میں وہ ہم سے کسی ایسی بات کی توقع نہ رکھے جس سے کسی تیسرے فریق کو نقصان پہنچتا ہو۔ اگر امریکی مسائل سے ہمارا ہمدردی رکھنا اور ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرنا امریکہ کی عالمی پالیسی کے لئے سازگار ہے تو چشم ماروشن دل ماشاد لیکن اگر وہ اس سے زیادہ کا طلبگار ہو اور چاہے کہ ہم کوئی ایسا کام کریں جس سے کسی دوسری طاقت کے مفادات پر زد پڑتی ہوتو ہمیں اس مطالبے کو نامنظور کردینا ہوگا کیونکہ یہ خود پاکستان کے مفادات کے خلاف ہے۔ میں یہ جانتا تھا کہ ہمارے اس نئے طرزعمل کی بناء پر بعض اوقات ہمیں اس طرح کی صورت ضرور درپیش ہوگی۔ اس صورت میں ہمارے ملک کے ذمہ دار افراد کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کون سی بات قبول کریں۔ کسی بڑی طاقت کے دباؤ میں آکر اس کی بات مان لیں یا سیاسی، فوجی یا اقتصادی جو امداد بھی ملنے والی ہو اُس سے دستبردار ہو جائیں۔ اس کا آخری فیصلہ بہرحال پاکستان کے عوام کو کرنا ہوگا۔ اس کا بھی امکان ہے کہ اگر ہم اعتدال اور تدبر سے کام لیں تو اس قسم کا دوٹوک فیصلہ کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیش نظر اب سوویت یونین اور امریکہ کی وہ اگلی سی عداوت رفتہ رفتہ ختم ہوتی جارہی ہے اور آئندہ کئی برس تک یہ تینوں طاقتیں مختلف ملکوں میں اپنا اپنا حلقہ اثر قائم کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہیں گی۔ ان میں سے کوئی طاقت بھی کسی ابھرتے ہوئے ملک سے پورے طور پر علیحدگی اختیار کرلینا یا اس کی دشمنی مول لینا پسند نہیں کرسکتی۔ بہرکیف ہمیں کسی دوٹوک فیصلے پر مجبور کیا جائے یا نہ کیا جائے، ہماری سلامتی کے لئے ضروری ہے کہ ہم ان بڑی بڑی طاقتوں سے صاف صاف کہہ دیں کہ ہم تمہارے جھگڑوں میں پڑنا نہیں چاہتے۔ ہم تو بس اتنا ہی چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنے ملک کی سلامتی اور عوام کے باہمی اتفاق اور ترقی کے لئے کام کرنے دیا جائے۔ ہم ان کے ساتھ اقتدار کی کشمکش میں شریک ہونے کے لئے کوئی سودا نہیں کرسکتے۔ عالمی طاقتوں اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ ہمارا طرزعمل اس احساس پر مبنی ہے کہ ہماری بساط محدود ہے۔ ہمیں نہ تو اس کی خواہش ہے نہ مقدور کہ ہم ان کے جھگڑوں میں خود کو پھنسا لیں۔ ہم اس حیثیت میں نہیں ہیں کہ ان کے فیصلوں پر اثر ڈال سکیں یا اُن کے مسائل کو سلجھا سکیں۔ چنانچہ ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد یہ ہے کہ ہم سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاتے ہیں۔ بس ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ ہم اپنے اندرونی معاملوں کو سلجھائیں، اپنی قوم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا کریں، اُن کی بھلائی کے لئے کوشاں ہوں اور اپنی سیاسی اور نظریاتی انفرادیت کو برقرار رکھ سکیں۔ اسی مفاہمت کے دائرے کے اندر رہ کر ہم دوسرے ملکوں کی امداد کے جویا ہیں۔ ہم ان سے ایسے مطالبات نہیں کرنا چاہتے جن کا ماننا اُن کے لئے مشکل ہویا اُن کے مقدور ہی میں نہ ہو۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ جلد اُس حیثیت میں آجائیں جہاں ہمیں زیادہ امداد کی ضرورت نہ رہے اور ہمارے مطالبات کم سے کم ہوتے چلے جائیں“۔ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
سید سردار احمد پیرزادہ کے کالمز
-
آزاد خارجہ پالیسی کی خواہش
ہفتہ 19 فروری 2022
-
نیشنل سکلز یونیورسٹی میں یوم تعلیم پر سیمینار
منگل 8 فروری 2022
-
اُن کے گریبان اور عوام کے ہاتھ
بدھ 2 فروری 2022
-
وفاقی محتسب کے ادارے کو 39ویں سالگرہ مبارک
جمعہ 28 جنوری 2022
-
جماعت اسلامی کا کراچی میں دھرنا۔ کیوں؟
پیر 24 جنوری 2022
-
شارک مچھلی کے حملے اور سانحہ مری کے بعد فرق
ہفتہ 15 جنوری 2022
-
نئے سال کے لیے یہ دعا کیسی ہے؟
بدھ 12 جنوری 2022
-
قاضی حسین احمد آئے، دیکھا اور لوگوں کے دل فتح کیے
ہفتہ 8 جنوری 2022
سید سردار احمد پیرزادہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.