وطن سے محبت کا حلف

پیر 27 جنوری 2020

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

چلئے اڑھائی ہزار سال پہلے کے قدیم شہر ایتھنز میں چلتے ہیں۔ یہ زمانہ تقریباً ساڑھے چار سو سال قبل مسیح کا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب ”روم“ کی حیثیت ایک غیرمعروف قصبے کی سی تھی۔ اُن دنوں وہ ایتھنز کا سب سے بدصورت لڑکا تھا۔ حالانکہ یہ بات مکمل طور پر صحیح نہیں تھی کیونکہ اس کے چہرے پر کسی زخم، چیچک یا کسی دوسری بیماری کے داغ نہ تھے۔
 بات صرف اتنی تھی کہ جس گوشت پوست سے وہ بنا تھا وہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں زیادہ سخت معلوم ہوتا تھا۔

یہ بھی معلوم ہوتا تھا کہ وہ ضدی تھا۔ اس کی آنکھیں مینڈک کی طرح باہر نکلی ہوئی تھیں۔ اس کے ہونٹ موٹے تھے۔ اس کی چپٹی ناک یوں نظر آتی تھی کہ جیسے بچپن میں اسے کسی نے مروڑ کر رکھ دیا ہو۔ سکول میں لڑکے اسے مینڈک کہا کرتے تھے۔

(جاری ہے)

یہی بچہ کئی برس بعد فوج میں شامل ہوکر ایتھنز کی حفاظت پر مامور ہوا۔ ایک مرتبہ لڑائی کے دوران وہ اپنے خیمے میں سپاہی ساتھیوں کے ساتھ آگ کے قریب لیٹا ہوا تھا۔

 
تربیت کے زمانے کے بعد یہ اس کی پہلی مہم تھی اور اسے ابھی تک یہی محسوس ہورہا تھا کہ وہ فوجیوں کا کھیل کھیل رہا ہے۔ آج کی رات تو پرانے لطیفے بہت مزہ دے رہے تھے۔ کیا سماں تھا، آگ کے گرد جواں سال چاق و چوبند دوستوں کا حلقہ، پھر دور کالے کالے پہاڑوں کا سلسلہ، پیچ و تاب کھاتا ہوا دھواں، بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو، بہار کا نیا طلوع ہونے والا چاند۔

باہر کا منظر اور اندر کا موسم سب کچھ بہت حسین تھا۔ اس کے ایک دوست نے کہا، چھ سال ہوئے جب ہم ٹریننگ کے لیے بلائے گئے تھے۔ تب ہم 18سال کے تھے۔ وہ بولا ہاں مجھے بھی یاد ہے وہ دور، وہ الفاظ، وہ حلف جو ہم ہرروز دہرایا کرتے تھے کہ ”میں اپنے ہتھیاروں کی بے حرمتی نہیں کروں گا اور میدانِ جنگ میں اپنے قریب پڑے ہوئے ساتھی کو چھوڑ کر نہیں بھاگوں گا۔

میں دیوتاؤں اور انسانوں کی بھلائی کے لیے جنگ کروں گا۔ خواہ میں اکیلا ہوں یا بہت سے آدمیوں کے ساتھ۔ میں اپنے وطن کو اُس سے کم رتبہ نہیں بلکہ اس سے عالی مرتبت چھوڑ کر مروں گا جتنا کہ وہ میری پیدائش کے وقت تھا یعنی پہلے سے بہت بہتر حالت میں“۔ 
وہ حلف کو مزید اونچی آواز میں پڑھنے لگا۔ اب اس کے ساتھی بھی اس کی آواز میں شریک ہوگئے اور بولے ”میں انصاف کرنے والوں کے دانش مندانہ فیصلوں پر عمل کروں گا اور موجودہ قوانین کے ساتھ ساتھ ان قوانین کا پابند بھی رہوں گا جو لوگ مل کر بنائیں گے۔

میں اُس شخص سے ہرگز نہیں ڈروں گا جو اُن قوانین کو توڑے یا ان کی نافرمانی کرے بلکہ میں اسے ایسا کرنے سے روکوں گا، خواہ میں اکیلا ہوں یا دوسروں کے ساتھ۔ میں اپنے آباؤ اجداد کے مندروں کی عزت کروں گا اور دیوتا اس کے گواہ رہیں گے“۔
 حلف کے الفاظ ختم ہوئے تو وہ بولا، اُن دنوں میرا یہ خیال تھا کہ دانش حاصل کرنا بالکل آسان کام ہے۔ چند سال کی جستجو کے بعد اسے حاصل کرلوں گا لیکن آج جب میں 24برس کا ہوں، 6سال سے فوج میں ہوں اور چار مرتبہ ووٹ دے چکا ہوں تو مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب میں نے سپاہی کا حلف اٹھایا تھا اس وقت کے مقابلے میں اب میرا علم کم ہے۔

مثلاً حلف کے ان الفاظ پر غور کرو ”میں اپنے وطن کو اُس سے کم رتبہ نہیں بلکہ اس سے عالی المرتبت چھوڑ کر مروں گا، جتنا کہ میری پیدائش کے وقت تھا، یعنی پہلے سے بہتر حالت میں“۔ میرا خیال تھا کہ میں ان الفاظ کے معنی بخوبی سمجھتا ہوں۔ ”تو اب ان الفاظ میں کیا مشکل ہے؟“ ساتھی سپاہیوں نے تعجب سے پوچھا۔ وہ بولا ”اس میں یہ چھوٹا سا لفظ ”بہتر“ جو ہے، میں جس قدر اس لفظ پر غور کرتا ہوں الجھتا جاتا ہوں۔

اب تم ہی بتاؤ اس کے کیا معنی ہیں؟“ ساتھی پراعتماد لہجے میں بولے ”یہ بات بالکل آسان ہے۔ اس کے معنی ہیں زیادہ وسعت، زیادہ جہاز، زیادہ عمارتیں، زیادہ دولت اور اسی طرح کی دوسری چیزیں“۔ مگر وہ سنجیدگی سے کہنے لگا ”آؤ اس بات پر مزید غور کریں کہ کیا ہم اس چھوٹے سے لفظ ”بہتر“ کا صحیح مطلب جان گئے ہیں؟ تم نے کلیولائیمس کو دیکھا ہوگا، مٹھائی والوں کی دکان پر تقریباً ہرشخص کی اس سے ملاقات ہو جاتی ہے“۔

ساتھی سپاہی ایتھنز کے سب سے موٹے شخص کے تصور سے ہنس پڑے اور بولے کہ ”یہ تو ناممکن ہے کہ کسی نے کلیولائیمس کو نہ دیکھا ہو۔ اتنا موٹا ہے کہ دیکھتے ہی چلے جاؤ مگر وہ ختم نہیں ہوگا“۔ 
وہ ان کی ہنسی کو نظرانداز کرکے پھر بولا ”اوریقینا تم نے اولمپک کھیلوں کے فاتح ایواگن کو بھی دیکھا ہوگا، اب بتاؤ ان دونوں میں زیادہ کون بڑا ہے؟“۔

سب یک زبان ہوکر بولے ”یقینا کلیولائیمس بڑا ہے“۔ اُس نے پوچھا ”اور بہتر کون ہے؟“ سپاہیوں نے بلند آواز میں کہا ”ایواگن“۔ وہ بولا ”کیونکہ وہ ایک بہترین کھلاڑی ہے“۔ چھوٹے سے مجمعے کو اپنی شکست نظر آنے لگی۔ اس نے پوچھنا شروع کیا ”اچھے ساتھیو! بتاؤ کیا شہر اُس وقت بہتر اور مضبوط ہے جب اس میں بڑی بڑی عمارتیں ہوں، کارخانوں سے دھواں نکلتا ہو، شہری دن رات مزدوری کرتے ہوں، سونا چاندی اکٹھی کی جارہی ہو، دشمنوں کی لاشوں کے ڈھیر لگ رہے ہوں، شہر کے رقبے میں اضافہ ہو رہا ہو، مگر اس کے شہری سوچ بچار نہ کرتے ہوں، ان کی کوئی مرضی نہ ہویا ان کی رائے کو نہ مانا جائے؟“
 خیمے میں موجود سب سپاہی اسے غور سے سن رہے تھے۔

وہ کہہ رہا تھا ”لڑکے ہرسال عمر کی ایک حد کو پہنچ کر فوج میں شامل ہوتے ہیں، گرمی میں طویل مسافت طے کرتے وقت ہم لاکھ اپنے پاکیزہ اسلحے کا مذاق اڑاتے رہیں لیکن ہم اپنے حلف کو مقدس رکھتے ہیں۔ ہم میں سے کون ہے جو ایتھنز کو بہتر نہیں بنانا چاہتا لیکن ہم اس کے لیے کیا کرتے ہیں؟ ہم شہر کی چیزوں کی پرواہ تو کرتے ہیں لیکن شہریوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔

جہاز بناکر، بندرگاہ بناکر، اسلحے کے کارخانے بناکر ہم سمجھتے ہیں کہ شہرکو بڑا مضبوط اور ناقابلِ تسخیر بنا رہے ہیں۔ دیوتا کی قسم، ہم ایتھنز کے لوگ آخر کب بیدار ہوں گے اور کام کی باتیں کرنا سیکھیں گے؟“ 
سپاہیوں کو اپنے دلائل سے حیران کرنے والا، ایتھنز کے تحفظ کی قسم کھانے والا اور مینڈک کہلانے والا وہ بچہ اڑھائی ہزار سال سے دنیا میں فلسفے کا بے تاج بادشاہ ”سقراط“ تھا۔ صدیوں سے تقریباً ایک جیسے حلف لکھے جارہے ہیں، اٹھائے جارہے ہیں لیکن اگر شہری سوچ بچار نہ کرتے ہوں، ان کی کوئی مرضی نہ ہویا ان کی رائے کا احترام نہ کیا جائے تو شاید اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک پہلے سے بہتر نہیں ہے۔ سب وعدے، سب قسمیں بیکار ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :