سقراط بننے کے لیے فیصلہ سننے کی ہمت چاہئے

اتوار 21 جون 2020

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

نامور رائٹر کورامیسن کی مشہور کتاب سقراط کا اردو ترجمہ صبیحہ حسن نے کیا ہے۔ اس کتاب کے عدالتی مقدمے اور فیصلے کے باب میں سے چند اقتباسات جوڑکر پڑھتے ہیں۔ یہ 95ویں اولمپیڈ کا پہلا سال تھا۔ اس سال کو ہم 399 قبل مسیح بھی کہتے ہیں۔ سقراط اب 70برس کا ہوچکا تھا۔ اس نے فارقلیس کا زمانہ دیکھا تھا، سپارٹا سے خوفناک جنگ دیکھی تھی، انقلاب اور آمریت کے دوروں سے گزرا تھا اور اب بحال شدہ جمہوریت کے ابتدائی پرامن سالوں میں زندگی بسر کررہا تھا۔

چند سال ہوئے تیس کے آخری مضبوط قلعہ نے ہتھیار ڈال دےئے تھے اور ایتھنز میں ایک بار پھر جمہوریت کا دور دورہ تھا۔ جیوری کے ارکان مقرر کردےئے گئے تھے۔ ایوان اعلیٰ قائم ہوچکا تھا اور تمام شہریوں نے امن قائم رکھنے اور گزری ہوئی باتوں کو بھول جانے کا حلف اٹھایا تھا۔

(جاری ہے)

افلاطون اب 28سال کا ہوچکا تھا۔ چونکہ اسے اپنی زندگی کسی اچھے کام کے لیے وقف کردینے کی خواہش تھی لہٰذا وہ بہت سنجیدگی سے میدان سیاست میں داخل ہونے کے مسئلہ پر غور کررہا تھا۔

اسے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے شہر میں ہجوم کی حکومت اور تشدد کا دور ختم ہوگیا ہے اور اب یہاں مہذب لوگ زندگی بسر کرسکتے ہیں۔ مختصر یہ کہ لوگوں کی خواہشات تو بہت تھیں لیکن ان کے خوف اور اندیشے بھی زیادہ تھے۔ سب سے زیادہ خائف وہ کسی ایسی چیز سے تھے جس سے امن کے درہم برہم ہونے کا خطرہ ہو۔ ایماندار قدامت پسند جو جمہوریت کی بحالی کے ابتدائی سالوں میں شہر کے رہنما تھے، اس معاملے میں شہریوں کی اکثریت کے ہمنوا تھے۔

وہ امن کے لیے کوشاں رہتے۔ صاحبان طاقت نے شہریوں سے وعدے لیے کہ وہ نئی پالیسیوں پر لب کشائی نہیں کریں گے۔ پہلا شہری جس نے شکایات کے بھول جانے کا حلف توڑا، اسے کونسل نے موت کی سزا دی اور اسے ہلاک کردیا گیا۔ بیشک بہت سے لوگوں نے اس فیصلے کو دل سے قبول نہیں کیا۔ ایتھنز میں ان دنوں نکتہ چینی مقبول نہیں تھی کہ لوگ اسے حب الوطنی کے خلاف سمجھتے تھے۔

سقراط بہرحال اپنا کام کرتا رہا۔ وہ ہمیشہ سے اس بات کا خواہشمند تھا کہ شہر میں قانون کا دور دورہ رہے۔ اس سے معلوم ہوتا تھا کہ ہوا کا رخ کدھر ہے۔ ارسٹوفینیز اور دوسرے مزاحیہ شاعر جو سقراط کے دوست بھی تھے اور نکتہ چیں بھی اور معاصرانہ سیاست اور سیاست دانوں کا مضحکہ اڑایا کرتے تھے، اب انہیں دوسرے موضوع تلاش کرنے پڑے جن کا ذکر خطرے سے خالی ہو۔

تاہم سقراط رائج قانون کی پابندی کرتا تھا لیکن ظاہری امن کے لیے لوگوں کی زبان بند کرنے کا وہ کبھی قائل نہ ہوا تھا۔ برسوں کی محنت کے بعد وہ اس قابل ہوا تھا کہ لوگوں کے ذہن میں جو شعور مخفی تھا اسے دیکھ سکے۔ بالکل ایسے ہی جیسے اس کے سنگ تراش باپ نے غیرترشیدہ پتھر پر شیر کے سر کی شبیہہ محسوس کی تھی۔ گویا شیر کا سر پتھر کے اندر چھپا ہو اور اس پتھر کو تراش کر اس کے والد نے شیر کے پوشیدہ سرکو ظاہر کردیا ہو۔

سقراط بھی اچھے سنگ تراش کی طرح پتھر پر پڑے نقاب کو ہٹا دیتا تھا تاکہ پتھر میں چھپا اندرونی حسن نمایاں ہو جائے۔ لوگ سقراط کی اس روش سے گھبراتے تھے لیکن وہ اس بات کا عادی ہوگیا تھا۔ سقراط کے مطابق سچ سب لوگوں کی مشترک میراث ہوتا ہے۔ لوگ ایک بار اسے دیکھ لیں تو امن و امان خودبخود قائم ہو جائے۔ اسی لیے اس نے سچ کی جستجو جاری رکھی۔ سقراط مخفی سچ کو دیکھ چکا تھا لیکن شاید آنے والے خطرات کو نہ دیکھ سکا۔

اگر وہ دیکھ بھی لیتا تو انہیں کچھ اہمیت نہ دیتا۔ فی الحال اب تو ایتھنز میں سکون تھا اور قانون کی حکمرانی تھی۔ ایک دن لوگوں میں سرگوشیاں شروع ہوئیں جو بعد میں ایک بڑی خبر بن گئی۔ پھریہ خبر سارے شہر میں گشت کرنے لگی۔ سقراط عدالت میں طلب کیا گیا تاکہ اُس پر مقدمہ چلایا جائے اور اسے سزا دی جائے۔ سقراط کے خلاف جیوری کی معاونت کے لیے مقدمے میں الفاظ کو توڑ موڑ کر اپنے حق میں کرنے والے چالاک مقرر لائی کون اور ایک نئے سیاست دان انیطوس جس کا تاثر زیادہ محب وطن ہونے کا تھا کو مقرر کیا گیا۔

لوگوں کے خیال میں ان دونوں کے تقرر کے بعد سقراط کے مقدمے سے بری ہوجانے کے امکانات بہت کم ہو گئے تھے۔ مہینہ کے اندر اندر جیوری کے پانچ سو ایک اراکین کو مقدمے کی سماعت کرنا تھی لیکن یہ بات مقدمے کے دن تک کسی کو معلوم نہیں تھی کہ جیوری میں کون کو ن شامل ہوگا۔ مقدمہ عدالت میں پہنچ جانے کے بعد ایک ہی دن میں فیصلہ صادر کردیا جاتا تھا۔ ایک رکن کی رائے کے اِدھر یا اُدھر ہونے سے سقراط کو جلاوطنی یا موت کی سزا دی جاسکتی تھی۔

سزا کا انحصار عدالت کی صوابدید پر تھا۔ مقدمہ دائر کرنے والوں نے جیوری کو یہی تجویز دی تھی کہ وہ سقراط کو سخت سے سخت سزا دے۔ سقراط کے پاس پانی کی گھڑی کے اوقات کے مطابق صرف ایک دن تھا یا ایک دن سے بھی کم یا صرف چند گھنٹے جس میں اسے کم از کم دوسو اکیاون جیوری ارکان کو یقین دلانا تھا کہ اس کی تمام زندگی پارسائی میں گزری ہے۔ ایتھنزمیں جب کوئی مقدمہ شروع ہوتا تو خوب پراپیگنڈہ ہوتا اور افواہیں اڑتیں۔

سقراط کے دوست مقدمے کے حوالے سے خوفزدہ تھے اور پرامید بھی۔ کچھ لوگ تذبذب میں تھے کہ کیا ہوگا جبکہ سقراط کے دشمن اس کے خلاف منصوبے بنا رہے تھے۔ البتہ بہت کم لوگوں کی سمجھ میں آرہا تھا کہ کیا ہورہا ہے۔ مقدمہ شروع ہوا تو سقراط کے مخالف ڈٹ کر بولے۔ وہ اپنے معیار کے مطابق ایمان داری سے بولے لیکن شاید سچ نہیں بولے۔ سقراط اپنی جگہ پر بیٹھا اپنی باری کا منتظر تھا۔

جو کچھ اس کے خلاف کہا جارہا تھا وہ اس سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوا۔ مخالف لوگ کسی اور آدمی کی باتیں کررہے تھے۔ اگر اس سے پہلے نہیں تو کم از کم اب سقراط کی سمجھ میں یہ بات ضرور آگئی کہ اس مقدمے کا اصل مقصد کیا تھا۔ سقراط نے اپنے دفاع میں کہنا شروع کیا۔ اُسے اپنے لیے موت یا جلاوطنی کی سزا تجویز کرنے کا اختیار تھا۔ سقراط نے کیا سوچا تھا، اس کا اندازہ تو ہم اس سے کرسکتے ہیں جو بعد میں اس نے کہا۔

جو کچھ اس نے کہا وہ تاریخ کے سامنے ہے۔ افلاطون عدالت میں ایک ایک لفظ سننے کو موجود تھا۔ اس دن اس نے جو کچھ سنا اور محسوس کیا اس سے اس کی تمام زندگی بدل گئی اور وہ بجائے سیاست دان کے فلسفی ہوگیا۔ مذکورہ کتاب کے اقتباسات پڑھنے کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ سقراط کے مقدمے میں وہی فیصلہ ہوا جو اس طرح کے ہر مقدمے میں دنیا میں آئندہ ہوتے رہنا تھا۔

فیصلہ حق میں یا مخالفت میں آنا ایک علیحدہ بات تھی لیکن فیصلے کو بہادری سے سننا سقراط کو زندہ کرگیا۔ اگر وہ فیصلہ سننے سے بھاگ جاتا یا خوفزدہ ہو جاتا تو سقراط کب کا مرگیا ہوتا۔ بالکل ایسے ہی جیسے مولوی تمیز الدین یا ذوالفقار علی بھٹو اگر اپنے مقدموں کا فیصلہ سننے سے بھاگ جاتے یا خوفزدہ ہو جاتے تو وہ آج زندہ نہ ہوتے۔ مولوی تمیز الدین، ذوالفقار علی بھٹو یا سقراط بننے کے لیے فیصلہ سننے کی ہمت بھی ہونی چاہئے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کا فیصلہ تاریخ میں کس کو زندہ رکھے گا؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :