زہرا بتول رضی اللہ عنہ کی گود کا پالا، رسول کا نواسہ، تین دن کا پیاسا حسین رضی اللہ عنہ

منگل 1 ستمبر 2020

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

عاشورہ دس محرم کو زہرا بتول رضی اللہ عنہ کی گود کا پالا، رسول کا نواسہ، تین دن کا پیاسا حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوکر فتح مند ہوتے ہیں۔ عزیز ملک کی ”خونِ حسین رضی اللہ عنہ“ میں ہے کہ ”انصار اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہ میں سے کوئی بھی حضرت امام رضی اللہ عنہ کی طرف سے لڑنے والا باقی نہ رہا۔ صبح عاشورہ سے دوپہر تک اُن کی محفل میں مئے وحدت کی گردش رہی۔

پھر میخانہ عشق کے یہ متوالے نشہ سرمدی میں سرشار ہوکر ستاروں کی سمت پرواز کرگئے اور حسین رضی اللہ عنہ ابن علی رضی اللہ عنہ جس کے دم سے یہ بزم اب تک قائم تھی تنہا رہا گیا۔ حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے خیمے پر ایک نظر ڈالی جہاں بقیہ خاندان ہاشمی بیٹھے تھے لیکن اب معصوم بچوں کے لبوں پر پیاس کی شکایت نہ تھی۔

(جاری ہے)

پاک بیبیاں اپنے لاڈلوں کا خون دے کر صابرو شاکر تھیں۔

آفتاب رسالت کی کئی کرنیں بھری دوپہر میں ایک ایک کرکے اَمر ہوچکی تھیں۔ کوئی قیامت سی قیامت تھی لیکن اب تک بھی قیامت نے دم نہ لیا تھا۔ حسین رضی اللہ عنہ خیمے کے اندر تشریف لے گئے جہاں حریم نبوت کی معصوم شمع عابد بیمار حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ بستر پر لیٹے تھے۔ انہوں نے باوجود علالت عرض کیا ”بابا جان مجھے بھی اجازت عطا ہو کہ میں آپ کے سامنے لڑکر شہید ہو جاؤں“۔

حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا ”جانِ پدر اب لے دے کر تم ہی تو آل عبا کے وارث اور رسول کی یادگار رہ گئے ہو۔ تم سے ابھی بہت سے کام وابستہ ہیں اور تم کو بہت صبر کرنا ہے“۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن زینب رضی اللہ عنہ سے تسلی آمیز کلمات کہے۔ بچوں کے سرپر دست شفقت پھیرا۔ پھر ایک چادر منگوائی، اُسے پھاڑا اور گلے میں کفنی کی طرح پہن لیا۔ تلوار نیام سے نکالی۔

گھوڑے پر سوار ہوئے اور میدان کی طرف بڑھنے لگے۔ اِدھر اُدھر دیکھا تو خیموں کے پاس اہل بیت رضی اللہ عنہ کے شہیدوں کی لاشیں نظر آئیں۔ چچا زاد بھائی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لخت جگر پیاری بہن کے پھول سے بیٹے دیدہ ودل کا نور علی اکبر رضی اللہ عنہ و علی اصغر رضی اللہ عنہ۔ یہ عظیم جانیں میٹھی نیند سو رہی تھیں۔ ایک بھرپور کنبہ فرش خاک پر آسودہ تھا۔

گویا تھکے ماندے مسافر منزل پر پہنچ کر سستا رہے تھے۔ حسین رضی اللہ عنہ کی خاموش نگاہیں ان سے کہہ رہی تھیں ”اے آل ابی طالب! تم پر سلام ہوکہ تم نے اپنا خون دے کر گلشن اسلام کو سینچا ہے۔ تم نے راہِ طلب سے منہ نہیں موڑا۔ تم معرکے میں کام آئے اور تم نے خود اجڑ کر دنیا کو آباد کیا ہے۔ ٹھہرو کہ میں بھی تمہارے پاس آرہا ہوں“۔ خیموں سے ہٹ کر میدان میں ہرطرف انصار کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔

حسین رضی اللہ عنہ نے ان وفاشعاروں کو دیکھا۔ ملت کے جانباز سرفروش جنہوں نے حق و باطل میں امتیاز کیا اور دنیا کے بدلے میں عقبیٰ کا سودا کرلیا۔ اے حُر بن ریاحی آخری وقت میں سعادت مندی نے تیرا ساتھ دیا۔ اے مسلم بن عوسجہ، اے عبداللہ بن عمیر کلبی آج فرشتوں کو تمہاری قسمت پررشک ہے۔ اے حبیب بن مظاہر تم مہرووفا کے مظہر ہو۔ حنظلہ بن سعد اور زُہیر بن القین تم بالیقین زندہ جاوید ہو۔

حسین رضی اللہ عنہ نے دیکھا تاحد نظر دشمن کے ان گنت سپاہی اُن کے منتظر ہیں۔ نعروں کا زور، باجوں کا شور، دف اورتالیوں کی بے ہنگم صداؤں سے زمین کا سینہ دہل رہا تھا۔ تیر اندازوں کے دستے چاق و چوبند ہیں۔ گھڑ سواروں کی قطاریں الگ ہیں اور پیدل دستے الگ۔ شمشیر گیروں کے تیغے کھلی دھوپ میں چمک رہے ہیں۔ نیزوں کے منہ سیدھے ہیں۔ افسرانِ سپاہ کی گردنیں اکڑی ہوئی ہیں۔

شمرمردود دندناتا پھرتا ہے۔ ہوا ساکت، فضا غبار آلود اور سورج سوا نیزے پر آیا ہوا ہے۔ زمین و آسمان تپ رہے ہیں۔ یہ ماحول ہے اور ابن علی رضی اللہ عنہ، زہرابتول رضی اللہ عنہ کی گود کا پالا، رسول کا نواسہ اور تین دن کا پیاسا حسین رضی اللہ عنہ دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہے۔ اگرچہ بے یارو مددگار ہے، اگرچہ اس کے انصار اور عزیزو اقربا دنیا سے رخصت ہو چکے اور ان کا خون اس کے سامنے بہایا گیا اور ان پیاروں کی یاد میں اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں سارے آنسو پی لئے لیکن صدمات کی یورش کے باوجود اسے جنگ کرنے کا حوصلہ ہے۔

اس کے چہرے پر اطمینان کامل اور ثابت قدمی و جرات اس کے جلو میں ہے۔ وہ اپنے انجام سے بے خبر نہیں۔ اسے اس مصیبت کا بھی احساس ہے جس سے اس کے اہل بیت رضی اللہ عنہ اور بچے آج شام سے پہلے دوچار ہونے والے ہیں۔ اُدھر کوفی مسلمانوں کے دل میں اپنی جگہ ایک خوف مسلط ہے کہ عہدو اقرار سے پھرکر انہوں نے عاقبت ہی ڈبو لی۔ اہل بیت رسول کے قتل کا جرم ان کی مجرمانہ ذہنیتوں پر قابوس بن کر چھا رہا ہے۔

تنہا حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں بائیس ہزار یزیدی فوج بے طرح کانپ رہی ہے اور کوئی سامنے آنے کی جرات نہیں کرتا۔ یہ رنگ دیکھ کر عمرو بن سعد نے انس بن سنان کو جو اس بھرے لشکر میں اپنی شجاعت کی وجہ سے ممتاز تھا حکم دیا کہ حسین رضی اللہ عنہ سے جنگ کرے۔ وہ آگے بڑھا اور چشم زدن میں برچھی کے ایک ہی وار سے فی النار ہوگیا۔ انس کا بھائی تلملا کر حملہ آور ہوا لیکن حسین رضی اللہ عنہ کی خون آشام تلوار نے اسے بھی بھائی کے پیچھے روانہ کردیا۔

یوں سات پہلوان یکے بعد دیگرے میدان میں اترے اور چاروں شانے چت ہوگئے۔ جونہی آپ رضی اللہ عنہ کی تلوار چمکتی، لشکر یزید بادل کے ٹکڑوں کی طرح کٹ کر چھٹ جاتا۔ ایک تیر آپ رضی اللہ عنہ کی گردن کو زخمی کرتا ہوا گزر گیا۔ خون کا فوارہ بہہ نکلا۔ ساقی کوثر کے نواسے رضی اللہ عنہ کو شاید پانی پےئے بغیر ہی جنگ لڑنا تھی۔ لشکر یزید کے سربراہ نے سوچا کہ انفرادی جنگ سے ہاشمی شیر کو زیر کرنا محال ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔

چنانچہ اس نے فوج کو چاروں طرف سے حملے کا حکم دیا۔ تیروں کی بارش ہونے لگی۔ گھوڑا بھی زخمی ہوگیا۔ حسین رضی اللہ عنہ بھی زخموں سے چھلنی ہوگئے اور گھوڑے سے اتر آئے۔ شمرمردود کے حکم سے چھ یزیدیوں نے آپ کے گرد حلقہ باندھ لیا اور زرعہ بن شریک نے آپ کے بائیں بازو پر تلوار کا وار کرکے ہاتھ کاٹ دیا جس سے بے حد خون بہہ گیا اور حسین رضی اللہ عنہ نڈھال ہوگئے لیکن پھر بھی کسی کو قریب آنے کی ہمت نہ ہوئی۔

اس دوران ابن علی رضی اللہ عنہ، زہرابتول رضی اللہ عنہ کی گود کا پالا، رسول کا نواسہ اور تین دن کا پیاسا حسین رضی اللہ عنہ نماز کے سجدے میں چلا گیا۔ شمرمردود نے اپنے ساتھیوں سے کہا اب دیکھتے کیا ہو، ہمت کرو اور کام تمام کرڈالو۔ چاروں اطراف سے تیر برس رہے تھے۔ ایک تیر آپ رضی اللہ عنہ کے تالو سے پار ہوگیا۔ شمرمردود نے چہرہ اقدس پر تلوار ماری اور سنان بن انس نخی نے نیزہ مارا۔

خولی بن یزید سر کاٹنے کے لئے گھوڑے سے اترا لیکن اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ پھر سراقدس تن سے جدا کردیا گیا اور بیس گھڑ سواروں نے جسد مبارک کو پامال کیا۔ شہادت کے وقت جب شمرمردود نے تلوار چلائی تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف دیکھ کر کہا ”سچاہے اللہ اور اس کا رسول۔ میرے نانا نے فرمایا تھا، میں ایک ابلق کتے کو دیکھتا ہوں جو میرے اہل بیت کے خون میں منہ ڈالتا ہے“۔

ابلق کتے کا اشارہ شمرمردود کے مبروص ہونے کی طرف ہے۔ اس کے بدن پر پھلبہری کے سفید داغ تھے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت ان کے جسم اطہر پر نیزے کی 33ضربیں اور 34 زخم دوسرے ہتھیاروں کے تھے“۔ علامہ شبلی نعمانی اپنی شہرئہ آفاق کتاب ”سیرة النبی“ میں لکھتے ہیں کہ ”آپ فرمایا کرتے تھے ”حسین رضی اللہ عنہ میرا ہے اور میں حسین رضی اللہ عنہ کا ہوں، خدااُس سے محبت رکھے جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتا ہے“۔

ایک دفعہ امام حسین رضی اللہ عنہ دوش مبارک پر سوار تھے۔ کسی نے کہا کیا سواری ہاتھ آئی ہے۔ آپ نے فرمایا سوار بھی کیسا ہے۔ ایک دفعہ آپ کہیں دعوت میں جارہے تھے۔ امام حسین رضی اللہ عنہ راہ میں کھیل رہے تھے۔ آپ نے آگے بڑھ کر ہاتھ پھیلا دےئے۔ وہ ہنستے ہوئے پاس آآکر نکل جاتے تھے۔ بالآخر آپ نے ان کو پکڑ لیا۔ ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی پر اور ایک سرپر رکھ کر سینے سے لپٹا لیا۔

پھر فرمایا ”حسین رضی اللہ عنہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں“۔ اکثر امام حسین رضی اللہ عنہ کو گود میں لیتے اور ان کے منہ میں منہ ڈالتے اور فرماتے کہ ”خدایا میں اِس کو چاہتا ہوں اور اُس کو بھی چاہتا ہوں جو اِس کو چاہے“۔ یہ سب کچھ اللہ کے آخری نبی سرورِ کونین حضرت محمد نے صرف اُس کے لئے کہا جو ابن علی رضی اللہ عنہ، زہرا بتول رضی اللہ عنہ کی گود کا پالا، رسول کا نواسہ اور تین دن کا پیاسا حسین رضی اللہ عنہ تھا جسے کربلا میں یزیدیوں نے بے دردی سے شہید کردیا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :