ہم بہت روئے جب بادشاہت یاد آئی

پیر 9 نومبر 2020

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

اختر سعید مدان چونکا دینے والے قلم کار ہیں۔ اُن کے ایک افسانے ”پہلا جرم“ کو تلخیص کے ساتھ اپنے الفاظ میں سمجھتے ہیں۔ افسانے کے مطابق ”سلطنت اروما ایک خوش قسمت، خوش باش اور پُرامن سلطنت تھی۔ وہاں کے شہری جرم کے لفظ سے بھی ناواقف تھے۔ اُن کے لیے ہردن عید کا دن اور ہر رات شب برات ہوتی۔ ایک دفعہ سلطنت اروما کا بادشاہ مرگیا۔

حسب دستور مرکزی پھاٹک سے صبح سب سے پہلے داخل ہونے والے کو بادشاہ بنایا جانا تھا لیکن پورا دن اور پوری رات گزرنے کے باوجود شہر میں کوئی بھی داخل نہ ہوا۔ اس لیے سب مشورے کے لیے ایک فقیر سیانے کے پاس گئے۔ سیانے نے کہا عبوری دور کے لیے اکیس آدمیوں کی حکمران کونسل تشکیل دے دو۔ اِس کی صدارت کوئی جہاندیدہ آدمی کرے۔ ہررکن کے انتخاب کے لیے گیارہ شہریوں کی رضامندی ضروری ہو۔

(جاری ہے)

ایک بزرگ بولا وہ اکیس آدمی کون ہوں؟ اُن کا صدر کون ہو؟ سیانے نے جواب دیا اکیس آدمی تم میں سب سے زیادہ سمجھدار، صاحبِ علم، طاقتور اور دور اندیش ہونے چاہئیں۔ وہ اکیس آدمی خود ہی اپنا صدر منتخب کرلیں گے۔ لوگوں کے لیے یہ نئی باتیں تھیں۔ ساری رات کے مشورے کے بعد اروما کے عوام نے اپنے میں سے بہترین اکیس آدمی سلیکٹ کرلیے۔ اِس حکمران کونسل نے اپنے میں سے ایک بابے کو عبوری صدر بنالیا اور پہلا مسئلہ یہ زیربحث آیا کہ مرحوم بادشاہ کو دفن کرنے کا اعزاز کون حاصل کرے؟ عبوری صدر کا کہنا تھا کہ اُسے بادشاہ کے اختیارات حاصل ہیں لہٰذا یہ حق اُسی کا ہے جبکہ صاحب علم کا موقف تھا چونکہ وہ بہت ساری چیزوں کا علم رکھتا ہے لہٰذا یہ فریضہ اُسی کو زیب دیتا ہے۔

اس نازک مسئلے پر کئی دن تک بحث ہوتی رہی۔ یہاں تک کہ بادشاہ کی لاش سے بدبو اٹھنے لگی۔ بالآخر جمہوری طریقے کو پسند کرتے ہوئے طے پایا کہ عبوری صدر اور صاحب علم کے درمیان حکمران کونسل میں سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے ووٹنگ کرائی جائے۔ اس میں عبوری صدر جیت گیا۔ یوں مرحوم بادشاہ کی گلی سڑی لاش گیارہ دن بعد دفن ہوئی۔ اسی دوران دارالحکومت کے مرکزی پھاٹک سے ایک خواجہ سرا شہر میں داخل ہوا۔

اب اس مسئلے پر بحث ہونے لگی۔ اکثر ممبران کا خیال تھا کہ خواجہ سرا کو بادشاہ نہیں بنانا چاہئے مگر صاحب علم نے درمیانی راستہ نکالا کہ خواجہ سرا کو بادشاہ کی بجائے جمہوری روایات کے تحت چیف ایگزیکٹو آفسیر کہہ دیا جائے۔ البتہ اگر معزز اراکین سمجھتے ہیں کہ خواجہ سرا سے غلطیاں سرزد ہونے کا خدشہ ہے تو یہی حکمران کونسل برقرار رہے اور صرف اِنہی اکیس ارکان کو فیصلے کا اختیار حاصل ہو۔

اس طرح مملکت کے فیصلے احسن طور پر ہوں گے۔ کئی دن کی مسلسل بحث کے بعد صاحب علم نے اپنی دلیلوں سے سبھی کو ہمنوا بنالیا۔ نئے فیصلے کے مطابق خواجہ سرا کو اروما کا سی ای او بنا دیا گیا۔ تخت پوشی کے جشن کے بعد ساتویں دن حکمران کونسل کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ ہرممبر کے لیے اُس کے شایانِ شان ایک محل ہونا چاہیے۔ اس فیصلے پر رائے شماری کی قطعاً ضرورت پیش نہیں آئی۔

مملکت کا یہ واحد قانون تھا جو متفقہ طور پر فوری منظور ہوا۔ اکیس محلوں کے لیے بہترین جگہ منتخب کی گئی۔ محلوں کی تعمیر دوسال میں مکمل ہوئی اور اُن پر اتنا سرمایہ خرچ ہوا کہ حکومت کا خزانہ خالی ہوگیا۔ یہاں تک کہ حکومت کے ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے بھی رقم نہ بچی۔ نئی مشکل کے حل کے لیے اُن اکیس ارکان کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں حساب کتاب کے ماہر نے یہ حل نکالا کہ اروما کے عوام پر تھوڑا سا ٹیکس عائد کردینا چاہئے۔

ابتدائی اندازے کے مطابق یہ ٹیکس ایک پیسہ فی خاندان لگانے کی تجویز تھی لیکن جب ٹیکس وصول کرنے والوں کی تنخواہوں میں اٹھنے والے اخراجات کا حساب لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ حکومت کو اِس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ لہٰذا ٹیکس کی رقم دگنی کردی گئی۔ اس اجلاس کے دوران ہی صاحب علم نے سوال اٹھایا کہ اگر کوئی خاندان ٹیکس ادا کرنے سے انکاری ہوتو کیا کرنا چاہئے؟ ممبران اکرام نے اُس کے لیے قید کی سزا تجویز کی۔

اب نیا مسئلہ یہ درپیش ہوگیا تھا کہ اُسے قید کہاں رکھا جائے؟ کیونکہ اس سے قبل کسی کو قید کی سزا ریاست میں نہ ہوئی تھی۔ اس طرح دارالحکومت میں ایک جیل کی تعمیر کی ضرورت محسوس کی گئی۔ حکومت کا خزانہ تو پہلے ہی خالی تھا۔ اس لیے ممبران اکرام نے اپنے بہترین دماغوں کو کام میں لاتے ہوئے جیل بنانے کے لیے ٹیکس کی رقم تین گنا کردی۔ ٹیکس وصول کرنے والے عملے کی بھرتی کے لیے اکیس رکنی کمیٹی نے فی کس سوسو آدمی اپنی مرضی اور پسند کا بھرتی کیا اور انہیں سلطنت کے مختلف علاقے سونپ دےئے۔

دارالحکومت کے مضافات میں ایک کسان رہتا تھا۔ کسان کے پاس کل تین ایکڑ زمین تھی۔ اس کا کچا مکان بھی کھیتوں میں ہی تھا۔ بدقسمتی سے اِس سال کسان کی فصل پر بیماری حملہ آور ہوئی جس کی وجہ سے اُسے اپنے کھانے کے لیے بھی غلہ حاصل نہ ہوا۔ کسان کے تین نابالغ بچے تھے۔ اُس کی مالی حالت بہت پتلی تھی۔ ایک دن حکومت کے اہلکار اُس سے ٹیکس وصول کرنے گئے۔

کسان نے اُن سے کہا تین پیسے اچھی خاصی رقم ہے، میرے پاس اِس سال کچھ بھی نہیں۔ ٹیکس وصول کرنے والوں نے کہا ہمیں حکمران کونسل کی طرف سے سخت حکم ہے، حکومت کا خزانہ خالی ہے، ہم یہ ٹیکس معاف نہیں کرسکتے، اگر ٹیکس ادا نہیں کرو گے تو تمہیں بیوی بچوں سمیت جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ حکومت کے کارندے کسان کو ایک دن کی مہلت دے کر چلے گئے۔ اُس رات اروما کے غریب کسان نے ایک امیر زمیندار کے گھر چوری کی اور صبح حکومت کا ٹیکس ادا کردیا۔

سلطنت اروما میں سرزد ہونے والا وہ پہلا جرم تھا۔ پہلا جرم جوکہ حکومت میں جمہوری اراکین کی شمولیت کے بعد سرزد ہوا، اروما میں پہلی جیل بنی، پہلی بار عوام پر ٹیکس لگا، پہلا تالا بنا۔ اس واقعے کو آج صدیاں گزر چکی ہیں۔ آج کل اروما میں ہرشہرمیں جیلیں ہیں، ہرشہر میں تالوں کا کاروبار ہے پھر بھی بے شمار جرم ہوتے ہیں، عوام پر لاتعداد ٹیکس ہیں، تاہم ہر بالغ شہری کو ووٹ کا حق حاصل ہے کیونکہ آج کل اروما میں مکمل اور کھلی جمہوریت ہے“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :