صادقین کا جنرل ضیاء کو لکھا گیا غیرشائع شدہ نایاب خط

پیر 8 فروری 2021

Syed Sardar Ahmed Pirzada

سید سردار احمد پیرزادہ

سید عباس زیدی پاکستان کے قابل فخر سینئر سفارتکار رہ چکے ہیں۔ 1982ء کے دنوں میں وہ ہندوستان میں پاکستانی سفارتخانے میں تعینات تھے۔ اِسی عرصے کے دوران اُنہوں نے ممتاز پاکستانی آرٹسٹ صادقین کا ایک خط اُس وقت کے پاکستان کے سربراہِ حکومت جنرل محمد ضیاء الحق کو بھیجا۔ یہ خط نایاب ہے اور اب تک منظر عام پر نہیں آیا۔ اس کے کچھ حصے پیش خدمت ہیں جن سے 3باتیں ضرور اخذ کی جا سکتی ہیں۔

.1اُس دور میں صادقین جیسے انٹرنیشنل پاکستانی آرٹسٹ بھی اپنی سروسز ہندوستان جاکر نہیں بیچتے تھے حالانکہ یہ پیشہ ورانہ طور پر جائز ہوسکتا تھا لیکن وہ عزتوں والے لوگ پاکستان کی شان اور آن کے لیے اپنا جائز حق بھی چھوڑ دیتے تھے۔ .2صادقین لکھتے ہیں کہ ہندوستان کی حکومت کے وزراء اور دیگر بڑے بڑے لوگ بھی اُن سے ملنے آتے تو انہی چٹائیوں پر بیٹھتے جہاں وہ بیٹھ کر کام کررہے ہوتے۔

(جاری ہے)

اِس سے پتا چلتا ہے کہ ہندوستان میں فن اور فنکار کی کتنی قدر ہے۔ .3صادقین خطاطی کے ساتھ ساتھ نفسیات کے بھی ماہر تھے کیونکہ انہوں نے جنرل محمد ضیاء الحق کے ذہن کی اسلامی نفسیات کو خوب جان کر ہی قرآنی آیات، مذہبی تحریروں، اسلامی جذبات اور ملکی خودداری کو سامنے کر کے ہی اس خط کی تحریر کو اثرانگیز بنایا لیکن جنرل محمد ضیاء الحق کی ذاتی خوشامد نہیں کی۔

صادقین کا نایاب خط ملاحظہ ہو۔ ”یہ رُقعہ اقتصادی کمک کی خاطر تحریر کیا جارہا ہے جس کے بغیر یہاں ہندوستان میں اپنے فنی مقاصد کی تکمیل نہایت دشوار ہے۔ میں فقیر صادقین گزشتہ نومبر کی دوسری تاریخ لاہور سے نئی دلّی کی طیران گاہ میں آیا تھا اور وہیں ہندوستان کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے یہ اطلاع ملی کہ اگلے دن بارہ بجے ہندوستان کی وزیراعظم شریمتی اندرا گاندھی سے ملاقات ہونی ہے۔

چنانچہ ۳ نومبر کو ان سے ملاقات ہوئی اور میں ان کے اخلاق سے متأثر ہوا۔ انتہائی اختصار سے میں یہاں اپنی بودوباش اور سرگرمیوں پر روشنی ڈالتا ہوں۔ شہروں شہروں گیا اور جگہ جگہ تصویروں اور خطاطیوں کی نمائش کی۔ ہرجگہ ہزاروں کی تعداد میں طفل و جوان و پیر کو بسم اللہ اور دیگر آیات لکھ لکھ کر بانٹیں۔ جس کسی نے بھی کہا اس کو لکھ کر یا بناکر کچھ دیا۔

خطاطی سورہٴ یٰسین اور نقاشیٴ سورہٴ رحمن اور اسمائے حُسنیٰ حیدرآباد (دکن) کے اُردو گھر میں، لکھنٴو کی سرکاری للت کلا اکیڈمی میں، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کینڈی ہال میں اور دلّی کے متعدد مقامات پر جن میں جامعہ مِلّیہ اسلامیہ بھی شامل ہیں، منظرِ شہود پر آچکی ہیں جن کو مخلوقِ خدا کا ایک انبوہ بیکراں دیکھنے آچکا ہے اور آرہا ہے۔آج کل بھی غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین میں یہی نمائش، نمائش آیات قرآنی لگی ہوئی ہے۔

خطاطیٴ آیات کی یہ نمائش ماہِ رمضان المبارک سے جاری ہے اور اس کو دیکھنے وزیر بھی آتے ہیں اوربڑے حکامِ بالا بھی۔ ابھی حال ہی میں حضرت امیر خُسرو کے عرس کے موقع پر ٹونک سے ایک وفد آیا تھا۔ اُدھر مسلمانان بمبئی بھی شدت سے انتظار میں ہیں۔ اس مہینے کی ۲۰ تاریخ سے جے پور میں بھی اپنی نمائش ہونے والی ہے۔ بالخصوص اسلامیانِ ہندوستان فقیر کی خطاطیوں کے ساتھ یہاں آنے پر بہت خوش ہیں۔

یہ لوگ بے حد محبت کررہے ہیں اور تہ دل سے دعائیں بھی دے رہے ہیں۔ عارضی نمائشوں کے علاوہ میں نے یہاں کے اہم ترین اداروں میں مستقل طو ر کا دیواری تصویروں کی صورت میں کام کیا ہے اور اپنی طرف سے تحفہٴ درویش کے طو رپر متعلقہ اداروں کو پیش کردیا ہے۔ ان اداروں میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، اردو گھر حیدرآباد دکن، نیشنل جیوفزیکل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ حیدرآباد دکن، غالب اکیڈمی نئی دِلّی اور بنارس ہندو یونیورسٹی شامل ہیں۔

بیشتر ادارے مجھے مادی طو رپر نوازنا چاہتے تھے مگر میں نے یہ سوچ کرکہ ایک خیرسگالی اور دوستی کے جذبے سے کیے ہوئے کام کو میں ایک تجارتی سازباز میں بدل کر اپنی قدروقیمت کیوں گھٹاؤں، میں نے اُن سے یہی کہا کہ تحفے کے طو رپر پیش کررہا ہوں۔ الحمدللہ اب ان اداروں میں ہزاروں بے شمار افراد، طلبا اور سیاح ان کاموں کو دیکھ رہے ہیں اور اس طرح پاکستانی آرٹ یہاں ہمیشہ ہی دیکھتے رہیں گے۔

ان کاموں کی نقاب کشائی ایک پُرشکوہ تقریب ہوتی ہے۔ نقاب کشائی یہاں کے بڑے بڑے لوگ کرتے ہیں اور ان کاموں کو ہندوپاک دوستی کی طرف ایک اہم قدم قرار دیتے ہیں جس کی اطلاعات یہاں کے ذرائع ابلاغ سے ملک بھر میں ہوجاتی ہیں۔ انتہائی سادہ زندگی گزارتا ہوں۔ ایک ہی جوتا ہے وہی پہن کر غُسل خانے میں بھی جاتا ہوں اور وہی جوتا پہن کر پرشکوہ تقریبات میں شرکت کی جاتی ہے۔

جہاں رہتا ہوں وہاں چند چٹائیوں کے سوا اور چند تصویرِ بتاں، چند حسینوں کے خطوط کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ ان ہی چٹائیوں پر رئیسانِ دلّی اور افسرانِ حکومت بھی خنداں پیشانی کے ساتھ تشریف رکھتے ہیں۔ مجھے انتہائی معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت ہند کچھ مادی طور سے نوازنا چاہتی ہے جس کے لیے میرا مُصمم ارادہ ہے کہ اس طرح اپنے آپ کو نوازنے کا حکومتِ ہند کو موقع نہیں دوں گا۔

اس سلسلے میں چند امور ضروری آپ کی توجہ چاہتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے لکھ بھی چکا ہوں کہ اول تو یہ کہ میں یہاں تصویریں فروخت کرنے کا قائل نہیں ہوں کیونکہ ایک ثقافتی صورتحال ایک تجارتی شکل اختیار کرجائے گی جس سے کہ آبرو کو زک پہنچے گی۔ دوسرے یہ کہ اگرچہ بھارت کی سرکار مادی حساب سے مجھ کو نوازنا چاہتی ہے تو اس کو قبول کرنے میں میری آبرو اور آن کو زک پہنچتی ہے۔

تیسرے یہ کہ میں قانون کا پوری طرح احترام کرتا ہوں یعنی جائز ترین راستوں سے آئی ہوئی اقتصادی کمک قابل قبول ہوتی ہے۔ وہ جو زیرِزمین راستے ہیں ان پر عمل ہرگز نہیں کرسکتا ہوں کہ خدا کے فضل و کرم سے صاحب ضمیر بھی ہوں ورنہ رقوم کے تبادلے کے ماہرین طرح طرح کے راستے بتاتے ہیں اور میں ان کی کسی بات پر کان نہیں دھرتا۔ اغیار کی پیشکشوں کو قبول کرنا تو درکنار میں تو اپنوں کے آگے بھی ہاتھ نہیں پھیلاتا۔

یہ زرمبادلہ تو میں پاکستانی روپے کے بدلے میں مانگنے کی درخواست کررہا ہوں جو وہاں پر آتے ہی ادا کردیے جائیں گے۔ کئی ماہ کی بات ہے کہ جناب عبدالستار صاحب نے، وہ جب یہاں پاکستان کے سفیر تھے اس سلسلے میں ایک مکتوب مُدلّل متعلقہ وزارتوں کو پاکستان لکھا تھا۔ جس کا بعد از انتظار بسیار نتیجہ نفی میں نکلا۔ ملحوظِ خاطر رہے کہ کوئی ڈیڑھ یا پونے دو برس پہلے میں نے بینک دولت پاکستان کو گیارہ لاکھ اٹھانوے ہزار روپے کا زرمبادلہ دیا تھا۔

یہاں میں صرف پچاس ہزار روپے کے لیے آپ سے درخواست کررہا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ اچھے خاصے ہٹے کٹے چنگے بھلے افراد کو جنھوں نے پاکستان کو کبھی ایک دھیلا بھی زرمبادلہ کا نہیں دیا، ان کو صحت کی بنیاد پر ممالک غیر میں علاج معالجے کے سلسلے میں لاکھوں ڈالر دیے جاسکتے ہیں تو اس فقیر کو اسلامک انسٹی ٹیوٹ دہلی میں کام کرنے کے لیے اور رشتہٴ جسم و جان قائم رکھنے کے لیے اور دیگر اخراجات پورے کرنے کے لیے پانچ ہزار ڈالر کیوں نہیں دیے جاسکتے۔

جبکہ یہ کام میری ہی طرف سے نہیں بلکہ پاکستان کی طرف سے اِس گراں قدر ادارے کو ایک تحفہٴ پاکستان ہوگا اور ہمیشہ ایک یادگار کے طور پر قائم رہے گا اور خطاطی کی تاریخ میں ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔ یہ بے اندوہ فقیر صادقین اس عرضداشت کو ارباب بست و کُشاد اور اصحاب حل و عقد تک پہنچانے کے بعد امید کررہا ہے کہ اس درخواست پر ہمدردانہ طور سے غور کیا جائے گا اور اس کو خوانخواستہ یہ مصرعہ نہیں پڑھنا پڑے گا کہ ”بات بھی کھوئی التجا کرکے“۔ فقیر صادقین عفی عنہ، ۱۶/ اگست ۱۹۸۲ء، جی۱۹۔ جنگ پورہ ایکس ٹیشن، نئی دلّی“۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :