
کورونا کی اداس ڈائری سے اقتباس
پیر 27 جولائی 2020

طلحہ حبیب
کورونا کے اس ماحول میں جب ہر طرف اداسی کا راج ہے۔ اندر کا خالی پن اپنا ابدی ٹھکانہ چھوڑ کر آس پاس کی ہر شے پر حاوی ہو چکا ہے۔ ہر چیز مایوسی کی تصویر بنی ہمیں اپنے اصل کی حقیقت بتا رہی ہے۔ ایسے میں نہ چاہتے ہوئے بھی میرا دماغ اسی ایک نکتے پر الجھا ہوا ہے۔ کیا ہو گا اب۔ کیا زندگی دوبارہ سے شروع ہو پائے گی۔۔؟ ان کچھ ماہ میں خاموشی کی اک دبیز تہہ نے زندگی کو چھپا دیا ہے۔ کیا وہ ساری رونقیں وہ سارے ہنگامے کیا وہ ساری چمک دوبارہ نظر آسکے گی یا اس دبیز تہہ تلے ہمیشہ کے لیے دم توڑ دے گی۔ ابھی سامنے دیکھنے پر کیا نظر آ رہا ہے اور کیا نظر آنا چاہیے؟ کون سی چیز ہے جو اس سارے ماحول میں مجھے زندہ رکھے گی۔ کوئی تو ایندھن ہو گا جو میری گاڑی کو اس صحرا سے گزار کر پار اتار سکے گا۔
سوچنے کا بہترین وقت ہوتا ہے سونے سے پہلے کا۔ سونے سے پہلے اس بات کو خوب سوچو۔ جب سوال رگوں میں دوڑنے لگے تو اس کا گولہ بنا کر سامنے نظر آتی نیند کی سرنگ میں دھکیل دو۔ پھر ایسا ہوتا ہے کہ نیند میں خواب کی صورت اس کا کوئی نا کوئی جواب کوئی نہ کوئی حل دکھائی دے جاتا ہے۔ نیک لوگوں کے لیے وہ کشف یا وجدان ہوتا ہے۔ ہم گنہگار اسے صرف خواب ہی کہہ سکتے ہیں۔ پر جو بھی ہو اس وقت دماغ بالکل آزاد ہوتا ہے کسی بھی بیرونی تسلط سے۔ اپنی سب سے بڑے دشمن یعنی سوچوں سے بھی آزاد۔ اس لیے خواب کے دوران دماغ کی حدود لامحدود ہوتی ہیں ۔ روح اپنے اصل سے روشناس ہوتی ہے۔ دماغ بھی دل سے سوچتا ہے۔ میں نے بھی نیند کے سیاہ نقطے پر ساری توجہ مرکوز کی اور پھر اس نقطے کو دماغ کا احاطہ کرتے دیکھا۔
پھر وہی نقظہ روشن ہوا۔ روشنی بڑھتی چلی گئی نقطہ پھیلتا چلا گیا۔ روشنی اتنی ہو گئی کہ آنکھیں چندھیا گئیں۔ تب پتہ چلا زیادہ روشنی بھی اندھا کر سکتی ہے۔ دھند چھٹی تو میں نے خود کو بھی اسی روشنی کا حصہ بنتے دیکھا۔ پھر میں نے خود کو آزاد پایا۔ جسم سے آزاد خود سے آزاد اور وقت سے آزاد۔ میں نے ایک ہی جست میں کئی زمانے طے کیے۔ میں نے نوح کی کشتی دیکھی، تمام انسانیت کو پانی میں غرق ہوتے دیکھا۔ میں نے عاد و ثمود کا انجام دیکھا۔ میں نے قومیں بنتے تباہ ہوتے دیکھیں میں نے انسان کی ہوس کو زمین کو اجاڑتے دیکھا۔ میں نے ہلاکو خان کی ظلم و بربریت دیکھی۔ میں نے منگولوں کو بستیاں اجاڑتے دیکھا۔میں نے بغداد کو کھنڈر ہوتے دیکھا میں نے قسطنطنیہ کو گرتے دیکھا۔ان آنکھوں نے لندن کو تاریخ کی عظیم آگ کی لپیٹوں میں دم توڑتے دیکھا۔ان آنکھوں نے زلزلوں سے زمین کو ہزاروں جانیں نگلتے دیکھا۔ قحط سے قوموں کو بھوکوں مرتے دیکھا۔ میں نے جنگ عظیم کی تباہ کاریاں دیکھیں۔میں نے ہیروشیما اور ناگاساکی کو بھی خاک ہوتے دیکھا۔
لیکن اس سب میں کے بعد میں نے زندگی کو پھر سے زندہ ہوتے دیکھا۔ وہ جو اجڑ چکے تھے انہیں بستے دیکھا۔ کھنڈروں کو پھر سے آباد ہوتے دیکھا۔ میں نے جاپان کو گھٹنوں کے بل چلتے پھر کھڑے ہوتے اور پھر چھاتی تان کر چلتے دیکھا۔ میں نے لندن کو دوبارہ اس راکھ سے تعمیر ہوتے دیکھا۔ زیادہ بڑا زیادہ بہتر اور زیادہ منظم۔ میں نے ہر تباہی کے بعد انسانیت کو دوبارہ زندہ ہوتے اور پہلے سے بہتر ہوتے دیکھا۔ جب ہر تباہی کے بعد لگتا کہ بس یہ اختتام تھا۔ اب یہاں زندگی اپنی آخری سانسیں ہار چکی ہے۔ لیکن اس کے بعد زندگی لوٹی پہلے سے بہتر ہو کر پہلے سے زیادہ تیز پہلے سے زیادہ مضبوط اور پہلے سے زیادہ ناقابل شکست ہو کر۔ کیوں۔۔کیسے۔۔!؟
کیونکہ ہر تباہی میں صرف ایک چیز تھی جو سینہ تان کر کھڑی رہی۔ چین میں آئے سیلاب کے وقت منہ زور پانی کی طاقت بھی اس کی ہمت نہ توڑ سکی۔ قحط کے وقت کی بھوک اور افلاس بھی اسے نہ ہرا سکی۔ اس نے ظالم منگولوں کی بربریت کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس نے لندن کی آگ بھی جھیلی اور اس نے جاپان اور بغداد کی تباہی کے بعد کے سناٹے میں بھی اپنا وجود زندہ رکھا۔ وہ کیا چیز تھی۔وہ امید تھی۔ قوموں کی امید کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ قوموں کا یقین کہ وہ ان حالات سے گزر جائیں گے۔ قوموں کا حوصلہ جس نے ان میں زندگی کی رمق قائم رکھی۔ یہ حوصلہ، امید اور یقین ہی تھا جس سے دنیا نے اپنی تاریخ میں ہر تباہی کے بعد راکھ سے اپنا وجود سمیٹا، اٹھے اور اک نئے دور کا آغاز کیا۔
مجھے بھی میرے جواب مل چکے تھے۔ امید! یہی اس سب سے گزرنے میں میری مدد کرے گی۔ اب یقین ہے مجھے کہ اس گہرے اندھیرے کے بعد روشنی آئے گی۔ ان سناٹوں کے بعد پھر سے میں زندگی کی رونق سنوں گا۔ بس مجھے میری امید کو زندہ رکھنا ہے۔
(جاری ہے)
واپس زندگی کے نخلستان میں۔ کیا ہو گا وہ۔
کیا ہونا چاہیے وہ۔ سب گڈ مڈ ہوتے سوال دماغ میں اک طوفان مچائے ہوئے تھے۔سوچنے کا بہترین وقت ہوتا ہے سونے سے پہلے کا۔ سونے سے پہلے اس بات کو خوب سوچو۔ جب سوال رگوں میں دوڑنے لگے تو اس کا گولہ بنا کر سامنے نظر آتی نیند کی سرنگ میں دھکیل دو۔ پھر ایسا ہوتا ہے کہ نیند میں خواب کی صورت اس کا کوئی نا کوئی جواب کوئی نہ کوئی حل دکھائی دے جاتا ہے۔ نیک لوگوں کے لیے وہ کشف یا وجدان ہوتا ہے۔ ہم گنہگار اسے صرف خواب ہی کہہ سکتے ہیں۔ پر جو بھی ہو اس وقت دماغ بالکل آزاد ہوتا ہے کسی بھی بیرونی تسلط سے۔ اپنی سب سے بڑے دشمن یعنی سوچوں سے بھی آزاد۔ اس لیے خواب کے دوران دماغ کی حدود لامحدود ہوتی ہیں ۔ روح اپنے اصل سے روشناس ہوتی ہے۔ دماغ بھی دل سے سوچتا ہے۔ میں نے بھی نیند کے سیاہ نقطے پر ساری توجہ مرکوز کی اور پھر اس نقطے کو دماغ کا احاطہ کرتے دیکھا۔
پھر وہی نقظہ روشن ہوا۔ روشنی بڑھتی چلی گئی نقطہ پھیلتا چلا گیا۔ روشنی اتنی ہو گئی کہ آنکھیں چندھیا گئیں۔ تب پتہ چلا زیادہ روشنی بھی اندھا کر سکتی ہے۔ دھند چھٹی تو میں نے خود کو بھی اسی روشنی کا حصہ بنتے دیکھا۔ پھر میں نے خود کو آزاد پایا۔ جسم سے آزاد خود سے آزاد اور وقت سے آزاد۔ میں نے ایک ہی جست میں کئی زمانے طے کیے۔ میں نے نوح کی کشتی دیکھی، تمام انسانیت کو پانی میں غرق ہوتے دیکھا۔ میں نے عاد و ثمود کا انجام دیکھا۔ میں نے قومیں بنتے تباہ ہوتے دیکھیں میں نے انسان کی ہوس کو زمین کو اجاڑتے دیکھا۔ میں نے ہلاکو خان کی ظلم و بربریت دیکھی۔ میں نے منگولوں کو بستیاں اجاڑتے دیکھا۔میں نے بغداد کو کھنڈر ہوتے دیکھا میں نے قسطنطنیہ کو گرتے دیکھا۔ان آنکھوں نے لندن کو تاریخ کی عظیم آگ کی لپیٹوں میں دم توڑتے دیکھا۔ان آنکھوں نے زلزلوں سے زمین کو ہزاروں جانیں نگلتے دیکھا۔ قحط سے قوموں کو بھوکوں مرتے دیکھا۔ میں نے جنگ عظیم کی تباہ کاریاں دیکھیں۔میں نے ہیروشیما اور ناگاساکی کو بھی خاک ہوتے دیکھا۔
لیکن اس سب میں کے بعد میں نے زندگی کو پھر سے زندہ ہوتے دیکھا۔ وہ جو اجڑ چکے تھے انہیں بستے دیکھا۔ کھنڈروں کو پھر سے آباد ہوتے دیکھا۔ میں نے جاپان کو گھٹنوں کے بل چلتے پھر کھڑے ہوتے اور پھر چھاتی تان کر چلتے دیکھا۔ میں نے لندن کو دوبارہ اس راکھ سے تعمیر ہوتے دیکھا۔ زیادہ بڑا زیادہ بہتر اور زیادہ منظم۔ میں نے ہر تباہی کے بعد انسانیت کو دوبارہ زندہ ہوتے اور پہلے سے بہتر ہوتے دیکھا۔ جب ہر تباہی کے بعد لگتا کہ بس یہ اختتام تھا۔ اب یہاں زندگی اپنی آخری سانسیں ہار چکی ہے۔ لیکن اس کے بعد زندگی لوٹی پہلے سے بہتر ہو کر پہلے سے زیادہ تیز پہلے سے زیادہ مضبوط اور پہلے سے زیادہ ناقابل شکست ہو کر۔ کیوں۔۔کیسے۔۔!؟
کیونکہ ہر تباہی میں صرف ایک چیز تھی جو سینہ تان کر کھڑی رہی۔ چین میں آئے سیلاب کے وقت منہ زور پانی کی طاقت بھی اس کی ہمت نہ توڑ سکی۔ قحط کے وقت کی بھوک اور افلاس بھی اسے نہ ہرا سکی۔ اس نے ظالم منگولوں کی بربریت کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس نے لندن کی آگ بھی جھیلی اور اس نے جاپان اور بغداد کی تباہی کے بعد کے سناٹے میں بھی اپنا وجود زندہ رکھا۔ وہ کیا چیز تھی۔وہ امید تھی۔ قوموں کی امید کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ قوموں کا یقین کہ وہ ان حالات سے گزر جائیں گے۔ قوموں کا حوصلہ جس نے ان میں زندگی کی رمق قائم رکھی۔ یہ حوصلہ، امید اور یقین ہی تھا جس سے دنیا نے اپنی تاریخ میں ہر تباہی کے بعد راکھ سے اپنا وجود سمیٹا، اٹھے اور اک نئے دور کا آغاز کیا۔
مجھے بھی میرے جواب مل چکے تھے۔ امید! یہی اس سب سے گزرنے میں میری مدد کرے گی۔ اب یقین ہے مجھے کہ اس گہرے اندھیرے کے بعد روشنی آئے گی۔ ان سناٹوں کے بعد پھر سے میں زندگی کی رونق سنوں گا۔ بس مجھے میری امید کو زندہ رکھنا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.