تقدیر یا پھر انتخاب..!

جمعرات 11 فروری 2021

Umar Farooq

عمر فاروق

ہم اس مسئلے کو چند لمحوں کے لیے سادہ اور عام فہم انداز میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، دنیا کے تمام انسان کچھ معاملات میں مکمل طور پر بے بس، مجبور اور لاچار ہیں، مثلا: ہم کہاں پیدا ہوں گے، ہمارے ماں باپ کون ہوں گے، ہمیں کیسے رشتہ دار نصیب ہوں گے، ہمارا جسم، ہماری آنکھیں، ناک، کان کیسے ہوں گے، ہم گورے یا کالے ہوں گے، ہم کب پیدا ہوں گے، کب اس دنیا سے رخصت ہوجائیں گے اور کب کسی حادثے یا بیماری کا شکار ہوجائیں، اس طرح کی بے شمار چیزیں جنھیں کنٹرول کرنا ہماری اوقات سے باہر ہے، یہ سب کی سب پہلے سے لکھ اور طے کر دی جاچکی ہیں اور ان معاملات میں ہم مکمل طور پر بے بس ہیں، یہ ہماری تقدیر کا ایک حصہ ہے جبکہ دوسرے حصہ میں کچھ معاملات ایسے ہیں جن میں ہمیں چیزوں کے نتائج سے آگاہ کرکے "انتخاب" کا مکمل "اختیار" دے دیا گیا ہم چاہیں تو فلاں کام کرلیں اور چاہیں تو رہنے دیں، یہ ہماری صوابدید پر ہے اور یہی وہ "انتخاب" ہے جو آگے چل کر ہماری تقدیر یا ہمارا مقدر بن جاتا ہے، گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں "ایک تقدیر وہ ہے جو پہلے سے لکھ دی جاچکی ہے اور ایک جس کو ہم خود اپنے انتخاب واختیار سے لکھتے ہیں، مثلا اگر آپ آگ میں ہاتھ ڈالیں گےتو کیا ہوگا..؟ آپ اپنا ہاتھ جلا بیٹھیں گے، آپ اگر اچھی غذا لیں اور صحت کے اصولوں کے عین مطابق زندگی گزاریں تو نتیجتا آپ تندرست رہیں گے اور اگر اسی طرح آپ موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اچھا کاروبار یا اچھی نوکری کریں گے تو ظاہر سی بات ہے آپ کو پیسے بھی ملیں گے اور آپ بہت جلد خوشحال اور آزاد بھی ہوجائیں گے لیکن اگر آپ لوگوں کو "اونٹوں پر عمرہ کروانے والی"ٹریول ایجسنی کھول کر بیٹھ جائیں گے تو آپ بری طرح پٹ جائیں گے.
تقدیر اور انتخاب(تدبیر) کا یہی وہ اصل مسئلہ ہے جس کو ہم خلط ملط کردیتے ہیں، میں دوبارہ عرض کرتا چلوں "ہماری تقدیر ہمارے مقدر کا کچھ حصہ پہلے سے طے شدہ ہے اور بقیہ حصے سے بھی قدرت بخوبی واقف ہے لیکن اس کی تکمیل ہم نے کیسے کرنی ہے یہ مکمل طور پر ہمارے "انتخاب" پر منحصر ہے" آپ خود سوچیں اگر سارے معاملات قسمت یا تقدیر نے طے کرنے ہیں تو پھر ہم سے کس چیز کا حساب لیا جائے گا...؟ ہمیں خدا کی طرف سے جو صلاحیتیں ودیعت کی گئیں ہیں ان کا کیا کام ہے...؟ پہاڑوں جیسا جوش وجذبہ، استقلال اور محنت کس کھاتے میں جائیں گے...؟ دنیا کے تمام انسانوں کا دن چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے ہمارے چھت پر جتنی دھوپ پڑتی ہے اتنی ہی دوسروں کے چھت پر بھی ہوتی ہے ہمارے دن اور راتیں بھی برابر ہوتی ہیں پھر کیا وجہ ہمارے ہمسائے ہم سے آگے نکل جاتے ہیں اور ہم تقدیر کی راہ تکتے رہ جاتے ہیں، ہم قسمت اور مقدر کا رونا روتے رہتے ہیں، بات صاف ہے ہمارے انتخاب، ہمارے فیصلے غلط ہوتے ہیں اور جب ہمارے کئے گئے فیصلے اپنے ثمرات کے ساتھ ہم پر ظاہر ہوتے ہیں تو ہم اپنی نالائقی کو تسلیم کرنے کے بجائے بہت چالاکیٰ کی کے ساتھ اسے تقدیر کے سر تھوپ دیتے ہیں، ہم اپنے انتخاب کو بدلنے، اپنے معیار اپنی ترجیح کو درست کرنے کے بجائے ڈھٹائی کے ساتھ اسے مقدر سمجھ کر گلے لگا لیتے ہیں اور ساری عمر یہ سوچ کر گزار دیتے ہیں کہ ہمارے مقدر میں یہی تھا جبکہ خدا نے تو یہ صاف صاف بتا دیا ہے "تم جتنی کوشش کرو گے تمہیں اتنا عطا کیا جائے گا، جتنا مانگو گے تمہیں اتنا ہی نوازا جائے گا، ہم نے جن چیزوں کے نتائج واضح کر دیے ہیں ان میں تمہیں انتخاب کا حق دے کر یہ اختیار دے دیا ہے "جاؤ اپنی قسمت خود لکھو" ایک ہم ہیں جو یہ سمجھے بیٹھے ہوئے ہیں سارا مسئلہ ہی قسمت کا ہے، میری تقدیر مجھے کچھ کرنے نہیں دے رہی باقی لوگ مقدر کی وجہ سے آگے نکل گئے اور میں پیچھے رہ گیا حالانکہ ہم اپنے انتخاب کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں، یہ یاد رکھیں "جن چیزوں کو آپ تبدیل نہیں کرسکتے وہ بھی آپ کی قسمت ہے اور وہ چیزیں جنہیں آپ بدل سکتے ہیں وہ بھی آپ کا مقدر ہیں لیکن یہ مقدر آپ اپنے ہاتھوں سے لکھتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے کی گئی غلطیاں کبھی قدرت کے کھاتے میں نہ ڈالیں، آپ گڑھے میں گرتے ہیں تو یہ آپ کا مقدر ہے لیکن یہ سمجھ کر کہ قدرت اسی میں راضی ہے گڑھے میں ڈیرہ جمالینا عقلمندی نہیں بلکہ سیدھی سادھی حماقت ہے، آپ کے پاس پورا پورا اختیار ہے آپ خود کو اس گڑھے سے باہر نکال کر اپنا مقدر بدل ڈالیں، آپ اگر غریب ہیں، بے روزگار ہیں تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں لیکن غربت اور بے روزگاری کو قسمت سمجھ کر اس سے سمجھوتہ کرلینا آپ کی سب سے بڑی بیوقوفی ہے، انسان تو وہ ہے جس نے پہاڑوں کا سینہ چیر دیا، جو سمندروں کی تہوں میں اترگیا، جس نے آسمانوں کے راز افشا کردیے، جس نے چاند اور ستاروں کو مسخر کر ڈالا، جو بڑے سے بڑے طوفانوں سے ٹکرا گیا، جس نے اپنی  جرات، اپنی ہمت، اپنی بہادری، اپنے انتخاب اور اپنی صلاحیتوں سے اپنا مقدر بدل ڈالا، آپ نے تو بس غربت اور بے روزگاری سے لڑنا ہے اپنی چند چھوٹی چھوٹی خواہشوں کو تکمیل کرنی ہے، آپ ایک مرتبہ کوشش کرکے تو دیکھیں کامیاب نہیں ہوتے تو پھر کوشش کریں اتنی مرتبہ کی قسمت کی دیوی آپ کے قدموں میں گرنے پر مجبور ہو جائے، آپ بیج بو کر تو دیکھیں، اپنے خدا، اپنے مالک، اپنے رازق پر بھروسہ کرکہ تو دیکھیں، کیا آپ کو اپنے خدا پر بھی یقین نہیں...؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :