کچھ مشہور ضرب الامثال کے بارے میں

جمعرات 22 اپریل 2021

Umar Farooq

عمر فاروق

ہم روزمرہ کی گفتگو میں کہاوتیں اور ضرب الامثال کا استعمال کرتے ہیں، یہ کہاوتیں ہماری زندگی کا اہم حصہ بن چکی ہیں، کہاوتیں کسی بھی زبان کے لئے قیمتی اثاثے کی اہمیت رکھتی ہیں، دوران گفتگو بہت سارے ایسے مقام آتے ہیں جہاں طویل جملے، گفتگو یا بحث کے بجائے ایک محاورہ ہی ابلاغ وافہام کے لیے کافی ہوتا ہے، اس حوالے سے ہماری اردو زبان بےحد خوش قسمت ہے کہ اس کا دامن بے شمار محاورات، تلمیحات اور ضرب الامثال سے مالا مال ہے، ان کا استعمال برموقع ومحل عام لوگوں اور اردو دان طبقے میں عام ہے، کہاوتیں لفظوں کا وہ مجموعہ ہیں جو بزرگوں اور اسلاف کی زندگی کے  دانشمندانہ تجربے سے اخذ کیا گیا ہوتا ہے، اس سے زندگی کے نفسیاتی، سماجی، تہذیبی اور تاریخی پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں، ضرب المثال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے شان الحق حقی دیباچہ جامع المثال میں لکھتے ہیں "ضرب الامثال عوامی سطح پر پیدا ہوتی ہیں، ان میں عوامی فطانت اور ان کی زندگی کی جھلک نظر آتی ہے لیکن ان کا کمال یہ ہوتا ہے کہ خواص بھی ان کو برتتے اور اپنالیتے ہیں، یہ بات ایک حقیقت بھی ہے جو روزمرہ کے مشاہدے میں دیکھنے کو ملتی ہے، آپ جب بھی غور کریں گے آپ کو معلوم ہوگا عام طبقہ، سادہ لوح افراد  کہاوتوں کا بکثرت استعمال کرتے ہیں، آپ کو پنجاب کے دیہاتوں میں اکثر بوڑھے اور بزرگ افراد گفتگو کے دوران کہاوتوں کا استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں جو اس بات کی غمازی ہے کہ پنجاب کہاوتوں کے معاملے میں ملک کے باقی صوبوں اور لوگوں سے بہت آگے ہے.
 آپ کو جان کر حیرت ہوگی "کہاوتیں، قصوں کہانیوں اور عمومی واقعات سے جنم لیتی ہیں، یہ دراصل سماجی سچائیاں ہوتی ہیں جن کا کسی بھی صورت انکار ممکن نہیں ہوتا"
 آج ہم چند مشہور کہاوتوں کے بارے میں بات کریں گے کہ ان کا پس منظر کیا ہے اور وہ کس طرح ہماری زندگیوں کا حصہ بنیں؟.
 1- یہ منہ اور مسور کی دال:
صحیح کہاوت "یہ منہ اور منصور کی دار" ہے جو بگڑتے بگڑتے یہ منہ اور مسور کی دال بن گئی، اس کا مطلب: "تم اس کے لائق یا اس چیز کے مستحق نہیں ہو" اس کہاوت کے وجود میں آنے کا سبب حضرت منصور کا وہ نعرہ بتایا جاتا ہے جو انہوں نے وجد ومستی کی حالت میں لگایا، یہ واقعہ کچھ اس طرح ہے: حضرت منصور نے پچاس سال ریاضت میں صرف کرنے کے بعد  ایک دن جوش میں آکر "انالحق" کا نعرہ لگا دیا، جس پر بغداد کے علماء نے ان پر کفر کے فتوے لگائے اور تین سو کوڑوں کی سزا مقرر کی، باز نہ آنے پر آپ کی زبان اور پاؤں کاٹ دیے گئے، سر اتار کر جلا دیا گیا، جس کے بعد آپ کے رگ وپے سے "انا الحق" کی صدائیں بلند ہونے لگیں، عشق کی اس انتہا کو دیکھ کر کہا جانے لگا "یہ منہ اور منصور کی دار" جو بعد ازاں "یہ منہ اور مسور کی دال" بن گیا
2- نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری
 ہم اس کہاوت کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں اس کہاوت کے وجود میں آنے کا جو قصہ بیان کیا جاتا ہے وہ بہت ہی دلچسپ ہے: کسی گاؤں کے لوگوں نے کبھی بانسری نہیں دیکھی تھی اتفاق سے ایک مرتبہ ایک شخص وہاں بانسری لے کر پہنچ گیا، اس نے بانسری بجائی تو لوگ دھیرے دھیرے جمع ہونے لگے ایک شخص نے بانسری والے سے پوچھا "یہ کیا چیز ہے اور کیسے بنتی ہے؟" آدمی نے بتایا یہ بانسری ہے اور بانس سے بنائی جاتی ہے اگر تم بانس لے آؤ تو میں تمہیں تھوڑی دیر میں بانسری بنا کر دے سکتا ہوں، پورے گاؤں میں بانس صرف اس گاؤں کے مکھیا کے پاس تھے، وہ شخص مکھیا کے پاس گیا اور بانس مانگ کر لے آیا، دیکھا دیکھی بہت سارے لوگ بانس کے لئے مکھیاں کے پاس پہنچ گئے، وہ پریشان ہوکر بولا آخر کیا وجہ ہر شخص بانس لینے چلا آرہا ہے؟ بتانے پر مکھیا بولا "آپ لوگ بانسری بنوانے کے لیے بانس لینے آئے ہو" یہ کہتے ہوئے وہ اٹھا اور بانسوں کو آگ لگاتے ہوئے بولا "نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری"
3-نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی
اس کہاوت کے حوالے سے ایک طوائف کا قصہ مشہور ہے جس کے کوٹھے پر ہر طرح کے لوگوں کا آنا جانا تھا، وہ جب تک جوان تھی لوگوں کا رش لگا رہتا تھا لیکن عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ چاہنے والوں کی تعداد کم ہونے لگی ایک دن طوائف نے سوچا " میں نے ساری عمر کوئی نیک کام نہیں کیا
 کیوں نہ حج کرکہ اپنا من ہلکا کرو اور ہوسکتا ہے اللہ میرے تمام گناہ معاف فرما دے، حج کے لیے جاتے وقت جب اس نے اپنے عزیز و اقارب کو قصور معاف کرنے کی درخواست کی تو یہ سن کر ایک منچلا شخص بولا "یا اللہ تیری شان بھی خوب ہے نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی" اور اس دن سے یہ فقرہ کہاوت کے طور پر مشہور ہوگیا
4- دودھ کا دودھ پانی کا پانی
 ایک حلوائی دودھ میں بہت پانی ملایا کرتا تھا، ایک دن ایک بندر اس حلوائی کا پیسوں سے بھرا برتن اٹھا کر لے گیا اور دریا کے کنارے ایک درخت پر جا بیٹھا، حلوائی اس کا پیچھا کرتے کرتے درخت کے پاس آ پہنچا، اس نے بندر کو پھسلانے کی بہت کوشش کی مگر بندر نے اس کی ایک نہ مانی، وہ پیسوں کے نوٹ حلوائی کی طرف پھینک دیتا اور روپے اٹھیاں دریا میں پھینکتا جاتا، یہ دیکھ کر حلوائی کی جان سوکھنے لگی جس پر حلوائی بولا "یہ کیا غضب کررہے ہو" پاس سے گزرتا ایک شخص یہ منظر دیکھ کر بولا "بندر ٹھیک ہی کر رہا ہے، دودھ کے دام تیرے پاس پھینک رہا ہے اور پانی کے دام پانی میں ملا رہا ہے، اس کے اس نے پیسوں کی طرف اشارہ کرکے بولا یہ ہے دودھ اور اٹھیوں اور روپوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا یہ ہے پانی، جس کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی فقرہ مشہور ہوگیا۔

(جاری ہے)


نوٹ:
اس کالم میں کہاوتوں کا ذخیرہ ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی کتاب "اردو کہاوتیں" میں سے لیا گیا ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :