
کچھ مشہور ضرب الامثال کے بارے میں
جمعرات 22 اپریل 2021

عمر فاروق
آپ کو جان کر حیرت ہوگی "کہاوتیں، قصوں کہانیوں اور عمومی واقعات سے جنم لیتی ہیں، یہ دراصل سماجی سچائیاں ہوتی ہیں جن کا کسی بھی صورت انکار ممکن نہیں ہوتا"
آج ہم چند مشہور کہاوتوں کے بارے میں بات کریں گے کہ ان کا پس منظر کیا ہے اور وہ کس طرح ہماری زندگیوں کا حصہ بنیں؟.
1- یہ منہ اور مسور کی دال:
2- نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری
ہم اس کہاوت کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں اس کہاوت کے وجود میں آنے کا جو قصہ بیان کیا جاتا ہے وہ بہت ہی دلچسپ ہے: کسی گاؤں کے لوگوں نے کبھی بانسری نہیں دیکھی تھی اتفاق سے ایک مرتبہ ایک شخص وہاں بانسری لے کر پہنچ گیا، اس نے بانسری بجائی تو لوگ دھیرے دھیرے جمع ہونے لگے ایک شخص نے بانسری والے سے پوچھا "یہ کیا چیز ہے اور کیسے بنتی ہے؟" آدمی نے بتایا یہ بانسری ہے اور بانس سے بنائی جاتی ہے اگر تم بانس لے آؤ تو میں تمہیں تھوڑی دیر میں بانسری بنا کر دے سکتا ہوں، پورے گاؤں میں بانس صرف اس گاؤں کے مکھیا کے پاس تھے، وہ شخص مکھیا کے پاس گیا اور بانس مانگ کر لے آیا، دیکھا دیکھی بہت سارے لوگ بانس کے لئے مکھیاں کے پاس پہنچ گئے، وہ پریشان ہوکر بولا آخر کیا وجہ ہر شخص بانس لینے چلا آرہا ہے؟ بتانے پر مکھیا بولا "آپ لوگ بانسری بنوانے کے لیے بانس لینے آئے ہو" یہ کہتے ہوئے وہ اٹھا اور بانسوں کو آگ لگاتے ہوئے بولا "نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری"
3-نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی
اس کہاوت کے حوالے سے ایک طوائف کا قصہ مشہور ہے جس کے کوٹھے پر ہر طرح کے لوگوں کا آنا جانا تھا، وہ جب تک جوان تھی لوگوں کا رش لگا رہتا تھا لیکن عمر ڈھلنے کے ساتھ ساتھ چاہنے والوں کی تعداد کم ہونے لگی ایک دن طوائف نے سوچا " میں نے ساری عمر کوئی نیک کام نہیں کیا
کیوں نہ حج کرکہ اپنا من ہلکا کرو اور ہوسکتا ہے اللہ میرے تمام گناہ معاف فرما دے، حج کے لیے جاتے وقت جب اس نے اپنے عزیز و اقارب کو قصور معاف کرنے کی درخواست کی تو یہ سن کر ایک منچلا شخص بولا "یا اللہ تیری شان بھی خوب ہے نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی" اور اس دن سے یہ فقرہ کہاوت کے طور پر مشہور ہوگیا
4- دودھ کا دودھ پانی کا پانی
ایک حلوائی دودھ میں بہت پانی ملایا کرتا تھا، ایک دن ایک بندر اس حلوائی کا پیسوں سے بھرا برتن اٹھا کر لے گیا اور دریا کے کنارے ایک درخت پر جا بیٹھا، حلوائی اس کا پیچھا کرتے کرتے درخت کے پاس آ پہنچا، اس نے بندر کو پھسلانے کی بہت کوشش کی مگر بندر نے اس کی ایک نہ مانی، وہ پیسوں کے نوٹ حلوائی کی طرف پھینک دیتا اور روپے اٹھیاں دریا میں پھینکتا جاتا، یہ دیکھ کر حلوائی کی جان سوکھنے لگی جس پر حلوائی بولا "یہ کیا غضب کررہے ہو" پاس سے گزرتا ایک شخص یہ منظر دیکھ کر بولا "بندر ٹھیک ہی کر رہا ہے، دودھ کے دام تیرے پاس پھینک رہا ہے اور پانی کے دام پانی میں ملا رہا ہے، اس کے اس نے پیسوں کی طرف اشارہ کرکے بولا یہ ہے دودھ اور اٹھیوں اور روپوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا یہ ہے پانی، جس کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی فقرہ مشہور ہوگیا۔
(جاری ہے)
نوٹ:
اس کالم میں کہاوتوں کا ذخیرہ ڈاکٹر شریف احمد قریشی کی کتاب "اردو کہاوتیں" میں سے لیا گیا ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عمر فاروق کے کالمز
-
حقیقت کا متلاشی عام ذہن
ہفتہ 29 جنوری 2022
-
حقیقی اسلام کی تلاش!
جمعرات 13 جنوری 2022
-
کیا شیطان بے قصور ہے؟
بدھ 12 جنوری 2022
-
"عالم اسلام کے جید علماء بھی نرالے ہیں"
منگل 4 جنوری 2022
-
خدا کی موجودگی یا عدم موجودگی اصل مسئلہ نہیں! ۔ آخری قسط
منگل 7 دسمبر 2021
-
خدا کی موجودگی یا عدم موجودگی اصل مسئلہ نہیں!۔ قسط نمبر1
ہفتہ 27 نومبر 2021
-
والدین غلط بھی ہوسکتے ہیں !
پیر 22 نومبر 2021
-
ہم اتنے شدت پسند کیوں ہیں؟ ۔ آخری قسط
بدھ 29 ستمبر 2021
عمر فاروق کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.