بابائے ہزارہ پھربک گئے۔۔؟

پیر 15 مئی 2017

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

میرارب بہت بڑا ہے ۔۔وہ جسے چاہے عزت دے اورجسے چاہے ذلیل اوررسوا کردے۔کل تک لوگ کہتے اورہم بڑے ذوق وشوق سے سنتے رہے کہ تحریک صوبہ ہزارہ دم توڑ چکی اوربابابھی صرف ایک بابے تک محدود ہوگئے ہیں۔۔ لیکن وہ بابا جسے لوگ ایک بابا کہتے اورسنتے ہوئے نہیں تھکتے تھے نے اسی دم توڑتی تحریک صوبہ ہزارہ کے پلیٹ فارم سے ایک دن میں وہ کام کردکھادیا جوبڑے بڑے وزیر ،مشیر ،سیاستدان اورہزارہ کے نامی گرامی مگرمچھ چارسالوں میں بھی نہ کرسکے۔

بابا کے ہاتھوں وقت کے سیاسی فرعونوں کی ذلت ورسوائی دیکھ کریہ یقین ہوگیا کہ کسی کوعزت یاذلت دینا واقعی کسی انسان کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ میرے اس رب کی مرضی ہے کہ جوجب چاہے کسی کوبابا کی طرح عزت دے کرسرخرو کرے یاکسی کوسیاسی فرعونوں کی طرح کسی کے ہاتھوں ذلیل ورسواکردے۔

(جاری ہے)

وہ بابا جس کے بارے میں تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ پرویزخٹک یہ کہتے تھے کہ یہ عوام کوبیوقوف بنارہے ہیں ۔

وہ باباجن کوحکمران جماعت کے وزیر ،مشیر اورممبران اسمبلی تنہا سمجھتے تھے ۔اسی بابا کے سامنے پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کے گھٹنے ٹیکنا یہ کوئی چھوٹی اورمعمولی بات نہیں ۔جس بندے کی کوئی حیثیت نہ ہو اس کی منتیں کوئی نہیں کرتا۔۔جوشخص اکیلا ہواس کے سامنے گھٹنے کوئی نہیں ٹیکتا۔۔۔صوبائی حکومت سے اپنے مطالبات منواکربابا نے ایک بارپھرثابت کردیا ہے کہ وہ آج بھی اکیلے نہیں بلکہ ان کی پشت پر لاکھوں ہزاروے وال کھڑے ہیں ۔

۔پی ٹی آئی حکومت کے بابا کی ٹیم سے مذاکرات اس بات کاواضح ثبوت ہیں کہ تحریک صوبہ ہزارہ میں آج بھی حکومتی ایوانوں میں طوفان برپا کرنے کی دم موجود ہے ۔کیونکہ جوتحریک دم توڑتی ہے ،اس کی بخشش کیلئے ہاتھ توہرکوئی اٹھاتا ہے ۔۔فاتحہ پڑھنے کیلئے زبانیں بھی سواورہزاروں نہیں لاکھوں لوگ کھولتے ہیں لیکن مذاکرات کوئی نہیں کرتا۔۔پھرحکومتیں جوسپرپاور ہوتی ہیں وہ توچھوٹی موٹی تحریکوں کوکسی کھاتے میں شمار ہی نہیں کرتیں ۔

۔ایسے میں خٹک سرکار کی تحریک صوبہ ہزارہ سے مذاکرات اورتحریری معاہدہ یہ بابا کوتنہا سمجھنے اورتحریک صوبہ ہزارہ کوبے جان کہنے والوں کے منہ پر کسی زورداراورزناٹے دارطمانچے سے کم نہیں ۔۔بابا نے ایک بارپھر ثابت کردیا ہے کہ وہ تحریک صوبہ ہزارہ کے پلیٹ فارم سے نہ صرف نیا صوبہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ وہ ہزارہ کے درودیوارہلانے اورحکومتی ایوانوں میں ہلچل مچانے کی طاقت بھی اسی طرح رکھتے ہیں جس طرح وہ سانحہ بارہ اپریل کے دن رکھتے تھے ۔

۔صوبہ ہزارہ کانعرہ اکیلے بابا نے نہیں لگایا نہ ہی صوبہ ہزارہ کے نام پر بابانے ووٹ لئے ۔۔اقتدار کے ایوانوں میں منہ پر کالی چادریں لپیٹے آج بھی ایسے بڑے بڑے نام بیٹھے ہیں جوصوبہ ہزارہ کی برکت سے ایم این ایز اورایم پی ایز بنے۔لیکن ممبری ملنے کے بعد صوبہ ہزارہ اورہزارہ کے حقوق کے حوالے سے ان کی زبانیں بند اورآنکھیں ہوس کے پردے تلے آچکی ہیں ۔

۔آج ان لوگوں کوصوبہ ہزارہ کانام تک بھی یاد نہیں ۔۔اس کے برعکس بابا کی زبان پر کل بھی صوبہ ہزارہ اورہزارہ کے عوام کی صدا تھی اورآج بھی ہے ۔باباحیدرزمان نے صوبائی حکومت کوجوآٹھ مطالبات پیش کئے تھے ان میں ان کی ذات ومفاد کے حوالے سے کوئی ایک مطالبہ بھی نہیں تھا ۔بابا نے صوبائی حکومت کے سامنے یہ مطالبہ نہیں رکھاکہ خٹک سرکار نے چارسالوں میں ان کی جوکردارکشی کی ان پر ان کوکوئی ہرجانہ دیاجائے نہ بابا نے یہ مطالبہ کیا کہ ان کوکوئی پروٹوکول یاکوئی خفیہ فنڈ دیاجائے ۔

۔بلکہ بابا نے حکومت کے سامنے جومطالبات رکھے ان سب کاتعلق ہزارہ کی مٹی اورہزارہ کے عوام سے تھا۔۔بابا چاہتے توآٹھ مطالبات کی بجائے اپنی ذات ومفاد کے حوالے سے کوئی ایک باٹا جامطالبہ صوبائی حکومت سے منظور کراسکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔تحریک صوبہ ہزارہ نے حکومت کوجومطالبات پیش کئے ان میں باباحیدرزمان کانہیں بلکہ شہدائے ہزارہ کے ورثاء ۔

۔زخمیوں اورہزارہ کے دیگرغریب اورمظلوم عوام کے حقوق کاذکر تھا۔۔سوچنے کی بات ہے کہ متاثرین سکی کناری ڈیم کے حقوق کی جنگ لڑنے سے باباکوکیاملے گا۔۔؟یاہزارہ کے حقوق کیلئے ظالم حکمرانوں سے ٹکرلیکربابا کیامفادحاصل کریگا۔۔؟باباپرمفادپرستی ۔۔خودغرضی۔۔غداری اوربکنے کاالزام لگانے والے پہلے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ باباکواگر بکنا ہوتاتووہ وزیراعظم نوازشریف کیخلاف الیکشن لڑنے سے دستبردار ہوکربک جاتے ۔

۔بابااگر غدار ہوتے تووہ سانحہ بارہ اپریل کے دن حکومت سے مک مکا کرکے ایک کروڑ ہزارے والوں سے غداری کرلیتے ۔۔باباکواگرکوئی مفادلینا ہوتاتووہ پہلے سے حکمرانوں سے شہدائے ہزارہ کے سروں کی قیمت وصول کرکے خاموشی کی چادراوڑھ لیتے۔۔ لیکن تاریخ کے صاف وشفاف صفحے اس بات کی گواہ ہیں کہ باباسردارحیدرزمان پرمفادپرستی ۔۔۔ضمیرفروشی۔۔خودغرضی اورلوٹا کریسی کاسایہ بھی کبھی نہیں پڑا۔

۔جوشخص وقت پر جھکانہ کبھی بکا۔۔ وہ اب بے موسم اپنی قیمت کیالگائے گا۔۔۔؟اقتدار کی طاقت سے کوسوں دور بے سروسامانی کے عالم میں بابا نے تن تنہاء جھاری کس سے کاغان تک ہزارہ کے حقوق کیلئے جنگ لڑ کرمنتخب ممبران اسمبلی اورہزارہ کے مفادپرست سیاستدانوں کی کشتیوں میں ایک دو نہیں کئی سوراخ کردیئے ہیں۔۔ چارسالوں میں بھی جولوگ ہزارہ کے حقوق کاتحفظ نہ کرسکے انہیں ہزارہ کی نمائندگی کاکوئی حق نہیں۔

۔جوکام بابا نے اپنے سرلیا وہ کام تحریک صوبہ ہزارہ نہیں ایک کروڑ ہزارے والوں سے ووٹ بٹورنے والوں کے ذمے فرض اورقرض تھا ۔ہزارہ کے حقوق کاتحفظ کرنا اگربابا کاکام ہے توپھر لاکھوں کی تنخواہیں اورحکومتی مراعات لینے والے ممبران اسمبلی ۔۔وزیراورمشیر کس مرض کی دوا ۔۔؟باباپرغداری اورمفادپرستی کاالزام لگانے والے ذرہ اپنے گریبانوں میں بھی توجھانکیں ۔

۔ممبری۔۔وزارت اوراقتدار کی طاقت کے باوجود انہوں نے چارسالوں میں ہزارہ اورہزارہ کے عوام کیلئے کیاکیا ۔۔؟جوکام بابا نے ایک دن میں کیا ۔۔یہ توہزارہ سے منتخب ہونے والے ممبران اسمبلی زیادہ آسانی کے ساتھ کرسکتے تھے ۔۔پھر انہوں نے اس طرف توجہ کیو ں نہیں دی ۔۔؟حقیقت یہ ہے کہ غدار اورمفادپرست کبھی ایسے کاموں کی طرف توجہ نہیں دیتے ۔۔باباحیدرزمان نے حکومت کوجوآٹھ مطالبات پیش کئے تھے ان میں سے کسی ایک مطالبے سے بھی اگرکسی ممبراسمبلی ۔

۔کسی وزیر اورکسی مشیر کاذرہ بھی کوئی مفاد وابستہ ہوتا تووہ بابا سے پہلے ان مطالبات کوحکومت سے منظور کروادیتے ۔۔۔لیکن افسوس ان مطالبات میں سے کسی ایک مطالبے کاتعلق بھی کسی جاگیردار ۔۔سرمایہ دار ۔۔خان اورکسی نواب سے نہیں تھا بلکہ یہ توشہدائے ہزارہ کے غریب ورثاء ۔۔سکی کناری ڈیم کے متاثرین اورغریبوں سے متعلق تھے جس کی وجہ سے ان پرکسی مفادپرست ۔

۔کسی غدارا ورکسی خودغرض ایم این اے ۔۔ایم پی اے اورسیاستدان کی نظر نہیں لگی۔۔شکر ہے کہ بابا تھے ورنہ پھر غریبوں ۔۔مظلوموں اوربے سہاروں کیلئے کون بکتے ۔۔یہی ایک بابا توہے جوہزارہ اورہزارہ کے عوام کیلئے پہلے بھی ظالم حکمرانوں سے ٹکرلیکر سیسہ پلائی ہوئی دیواربنے رہے ۔۔۔اب بھی وہی باباشیر بن کرمیدان میں کودپڑے ۔۔ہزارہ اورہزارہ کے عوام کے حقوق کاتحفظ اگربکنے کے زمرے میں آتاہے توباباکویہ بکنابھی خیرسے مبارک ہو۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :