ترک سکونت کے باوجودمیراتعلق خیبرپختونخواکے اس بدقسمت ضلع سے ہے جہاں آج ۔درد۔تکلیف اور ظلم پررونے ۔چیخنے اورچلانے کوجرم کادرجہ دے کر احتجاج پرپابندی کے مطالبے کئے جارہے ہیں ۔سالوں بعداس ضلع کاکوئی ایک چکرلگنے کے باوجودمیرادل ہروقت اس ضلع کے عوام کیلئے دھڑکتارہتاہے۔۔کیونکہ یہاں کی مٹی میں آج بھی میرے آباؤاجدادگہری اورمیٹھی نیندسورہے ہیں ۔
۔ایسے میں میں اپناآپ توبھول سکتاہوں لیکن اس ضلع اوراس کے غریب عوام کوکبھی نہیں بھول سکتا۔سالوں پہلے جب آخری بارمیرااس ضلع کا چکرلگا۔تویہاں کی کھنڈرنماسڑکیں ۔ٹوٹی پھوٹی گلیاں دل ودماغ پرایسے نقش ہوئیں جس طرح الف سے اناراورب سے بکری ۔جمہوری حکومت میں بٹگرام کاستیاناس دیکھ کرہمیں تویوں لگاکہ جیسے یہاں حکومت اورحکومت کے کارندوں کاکوئی نام ونشان ہی نہ ہو۔
(جاری ہے)
لیکن وہاں کے مقامی افرادنے ایک سانس میں اس ضلع سے منتخب ہونے والے ایم این اے اورایم پی اے کے نام لیکرہمارے اندازوں ،وہم اورگمان کی بلندعمارتوں کوایک لمحے میں ملیامیٹ اورہمارے نیک وصالح خیالات کی یکسر نفی کردی ۔۔ہم نے ڈرتے ڈرتے دھیمی سی آوازمیں ان سے پوچھا۔کہ جناب ۔اگراسلام آباداورپشاورمیںآ پ کے بھی نمائندے ہیں توپھران بدقسمت شاہراہوں ،گلی اورمحلوں کوبرسوں سے کیچڑ۔
۔کھڈوں اورگردوغبارکایہ بخارکیوں۔؟وہ گویاہوئے۔ہمارے نمائندے اسلام آباداورپشاورمیں ہماری نمائندگی کرکے وزیراعظم ،وزیراعلیٰ اوروزیروں مشیروں سے ہماری بات کرتے ہیں یہاں نہیں۔یہاں تو وہ آتے بھی بہت کم ہیں، جب بھی آتے ہیں ،ان کے پاس وقت ہی اتناکم ہوتاہے کہ ان کوان سڑکوں ،گلی اورمحلوں میں چلنے پھرنے کاموقع ہی نہیں ملتا،وہ اگریہاں کی شاہراہوں ،گلی اورمحلوں کی یہ حالت دیکھیں توپھرضروروزیراعظم اوروزیراعلیٰ سے اس کی بات کریں گے،ویسے صاحب جی ۔
سناہے الیکشن قریب آرہے ہیں ،الیکشن کے دنوں میں توہمارے یہ منتخب نمائندے اس پورے ضلع میں گھومتے پھرتے ہیں ،ایک ایک گھراوردرپردستک دیتے ہیں ،اس بارجب آئیں گے نا تویہ سارے مسائل اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔یہ سن کرمیں آبائی ضلع کے عوام کی کہانی کوبھی سمجھ گیا۔جس ضلع کے ایم این اے اورایم پی اے کے پاس اپنے حلقے کے عوام کیلئے بھی وقت نہ ہووہاں کے عام بیروزگاروں کے ساتھتعلیم یافتہ نوجوان بھی پھرچوکوں اورچوراہوں پرالواورٹماٹرنہ بیجیں تواورکیاکریں ۔
؟اس وقت نہ صرف بٹگرام بلکہ پورے ملک میں روزگار کی یہ حالت ہے کہ سو میں سے کم از کم اسی پچاسی فیصد لوگ ہاتھوں میں ڈگریاں اور کاغذات اٹھائے نوکریوں کیلئے در در کی خاک چھان رہے ہیں جبکہ سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں پہلے سے جو لوگ روزگار پر لگے ہوئے ہیں حکمران، سرمایہ دار، جاگیردار، صنعتکار اور سرمایہ کار ان کو بھی کسی طرح بیروزگار کرنے کے چکر چلا رہے ہیں۔
سرکاری ملازمین کو گھر کی راہ دکھانے کیلئے ایک طرف اگر نت نئے قانون بنائے جارہے ہیں تو دوسری طرف پرائیویٹ سیکٹرز کے مالکان غریب ملازمین سے گدھوں کی طرح کام لے کر تنخواہوں کی بندش سمیت دیگر انسانیت سوز اقدامات سے ان کو ہراساں کرکے نوکریاں چھوڑنے پر مجبور کررہے ہیں۔ حکمران اور اوپر والا طبقہ عیاشیاں کررہا ہے جبکہ غریبوں کو ایک وقت روٹی کیلئے بھی بڑے پاپڑ جھیلنے پڑتے ہیں۔
ایسے میں غریب لوگ اپنے معصوم اور پھول جیسے بچوں کو فاقہ کشی، بھوک و افلاس کے سائے سے بچانے اور پیٹ کے جہنم بھرنے کیلئے گلی ، محلوں اور شاہراہوں کے کنارے آلو، پیاز اور ٹماٹر کی ریڑھی و چھابڑی نہ لگائیں تو کیا کریں۔۔؟ مگرسناہے کہ میرے ضلع کے خانوں ،نوابوں،چوہدریوں،رئیسوں،جاگیرداروں ،سرمایہ داروں اورخانوں کونہ صرف چوکوں اورچوراہوں میں غریبوں کے الو،ٹماٹربیجنے پر اعتراض ہے بلکہ یہ سب غریبوں کے سرعام رونے،دھونے،چیخنے اورچلانے کے بھی سخت خلاف ہیں۔
اسی لئے وہ ان غریبوں کی زبانوں کوسرکارکے تالے لگانے کے بارے میں سوچ بچارکررہے ہیں ۔یہ چاہتے ہیں کہ بٹگرام کے غریب بھوک سے بلک بلک کرمریں پرنہ چیخیں اورنہ ہی چلائیں۔آئین اورقانون کی بالادستی کے ہم قائل لیکن عوام کشی کے ہرگزنہیں ۔غریبوں کے منہ سے روٹی کانوالہ چھیننایامعصوم اورپھول جیسے بچوں کوبھوک وافلاس سے مارنایہ آئین وقانون کی کوئی پاسداری نہیں ۔
بٹگرام میں غریب ریڑھی بانوں اورتھڑہ فروشوں پرہاتھ اٹھانے والے خان اورنواب قانون کے مطابق ان غریبوں کے لئے باعزت روزگارکابندوبست کیوں نہیں کرتے ۔؟جوہاتھ قانون کوتوڑنے کیلئے اٹھے اس ہاتھ کوتم ایک نہیں سوبارجڑسے کاٹولیکن خداراقانون کی آڑمیں ذاتی اورسیاسی مفادات کیلئے کسی غریب کاچولہانہ بجھاؤ۔عطاء محمددیشانی نے قانون توڑنے کے لئے نہیں انسانیت بچانے کیلئے ہاتھ اٹھایا۔
انسانیت ہوگی توقانون کی بالادستی قائم ہوگی ،انسان ہی نہ ہوں توپھرقانون کہاں ہوگا۔مانا کہ شاہراہوں کے کنارے ریڑھیاں لگانا مناسب نہیں اور یہ بھی مانا کہ غریبی کے ہاتھوں اٹھایا جانے والا غریبوں کا یہ اقدام تجاوزات کے زمرے میں بھی آتا ہوگا لیکن کیا غربت، بھوک و افلاس اور فاقہ کشی سے تڑپنے والے غریبوں کے مست حکمرانوں کی عیاشیاں گناہ ۔
۔جرم اورغیرقانونی سمیت کسی ایک کھاتے یا زمرے میں بھی نہیں آتیں ۔۔۔؟ ماتم والے گھر کے باہر اگر ڈھول باجا بجانا مناسب نہیں تو پھر بھوک سے بلکتے ، رلتے اور تڑپتے لوگوں پر عیاشی کی حکمرانی کرنا کیونکر جائز اور مناسب ہے ۔؟میرے ضلع میں عطاء محمددیشانی کی شکل میں ایک مردحریت ،ایک مسیحااورایک شیرنے غریبوں پراٹھنے والے ہاتھوں کوپیچھے موڑنے کی ٹھانی تومفادپرستوں ،خانوں اورنوابوں کی نیندیں ہی حرام ہوگئیں ۔
کیااس دھرتی پرغریبوں کوجینے کابھی حق نہیں ۔؟اگرہے توپھرمیرے ضلع کے خان ،نواب،چوہدری،سرداراوررئیس عطاء محمددیشانی کے خلاف چوہوں کی مجلسیں منعقدکرنے کی بجائے اس مردحریت کے ہاتھ مضبوط کیوں نہیں کرتے۔؟بغض عطاء دیشانی میں غریبوں کونشانہ بنانایہ کہاں کاانصاف ہے۔؟اپنے حقوق کے لئے احتجاج یہ نہ صرف بٹگرام بلکہ اس ملک کے ہرشہری کابنیادی حق ہے۔
تم دوسرے کواس کاحق بھی نہ دواورپھراس حق کیلئے اس کے رونے ،چیخنے اورچلانے پرپابندی بھی لگاؤ،یہ کہاں کانصاف اورکونساقانون ہے۔؟ہمیں دوسروں کوقانون کاسبق پڑھانے کی بجائے پہلے خود قانون پرعمل کرناچاہئے،اپنے حقوق کے احتجاج،مظاہرے،دھرنے اورشاہراہوں کے کنارے الو،پیازاورٹماٹرکی ریڑھیاں لگانااگرغیرقانونی ہے توپھرسیاست کی چھتری تلے غریبوں کے حقوق پرڈاکے مارناقانون کی کونسی پاسداری ہے،بٹگرام سمیت اس ملک کے خان،نواب،چوہدری ،رئیس،جاگیردار،سرمایہ داراوروڈیرے غریبوں کے احتجاج،مظاہروں اوردھرنوں پرپابندی لگانے سے پہلے ان کوان کاحق دیں ۔
مجھے یقین ہے جب اس ملک کے غریبوں کوان کاحق ملے توپھربٹگرام سمیت کسی ضلع اورشہرمیں کوئی بھی غریب احتجاج کیلئے نہیں نکلے گا۔لیکن اگریہ چوراورلٹیرے غریبوں کے حقوق پراسی طرح ڈاکے ڈالتے رہیں گے توپھران غریبوں کوبھی احتجاج سے کوئی نہیں روک سکے گا۔