تختیوں کی سیاست

اتوار 9 جولائی 2017

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

سوچا تھا کہ بلدیاتی ناظمین اور ممبران کا ہروقت گلی اور محلوں میں اپنے ووٹروں، سپورٹروں اور عوام سے منہ لگتا ہے۔ آمنا سامنا ہوتا ہے اس لئے ایم این ایز اور ایم پی ایز کی جگہ یہ غریبوں کیلئے کچھ کر گزریں گے۔۔ لیکن اف۔۔ توبہ۔۔ یہ تو سیاست اور منافقت میں ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی کے بھی باپ نکلے۔۔ آبائی گاؤں جوز ضلع بٹگرام کے دورے کے دوران ایک گلی سے گزر ہوا تو اچانک نظر سامنے لگی ایک افتتاحی تختی پر پڑی جن پر نائب ناظم کا نام موٹے الفاظ میں لکھا ہوا تھا ۔

۔ جس کے نیچے درج تھا۔۔ افتتاح پختگی گلی 26 جون پیر بروز عیدالفطر ۔۔ تختی دیکھ کر دلی خوشی ہوئی کہ اگر جوز جیسے دور دراز اور پسماندہ علاقوں میں عید کے دن ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارے بلدیاتی ناظمین اور ممبران غریب عوام کیلئے واقعی کچھ کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں مگر چار قدم آگے جانے کے بعد جب اس تختی سے متعلق حقیقت مجھ پر آشکار ہو ئی تو میرا بلڈ پریشر ہائی اور بدن میں گویا آگ سی لگ گئی۔

(جاری ہے)

۔ عید والے دن گاؤں میں شدید بارش تھی اور اس طوفانی بارش میں گاؤں کے اندر ایسے کسی منصوبے کا افتتاح نہیں ہوا۔ ہم تو ایم این ایز اور ایم پی ایز کی جھوٹ اور منافقت سے تنگ تھے اب یہ کام گاؤں کی سطح پر شروع ہو گیا۔۔ لوگوں نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے کر ناظمین اور ممبران کو اپنے قیمتی ووٹ صرف اس لئے دئیے تھے کہ جھوٹ اور مفاد پرست ممبران قومی و صوبائی اسمبلی سے ان کی جان چھوٹ جائے گی اور ان کے بنیادی مسائل گاؤں اور محلوں کی سطح پر حل ہوں گے۔

۔ لیکن لگتا ہے کہ ایم این ایز اور ایم پی ایز کی طرح ان بلدیاتی ممبران اور ناظمین کو بھی خود نمائی کا کچھ زیادہ ہی شوق ہے۔ اس لئے جھوٹی تختیوں اور فوٹو سیشن کی سیاست کو انہوں نے گاؤں کی سطح پر بھی متعارف کرانا شروع کر دیا ہے ۔۔ کوئی تختی لگائے یا کوئی تختہ۔۔ عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں ۔۔ غریب لوگ اپنے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں ۔ تختیاں لگانے سے اگر عوامی مسائل حل ہوتے یا اس طریقے سے اگر عوام کی ہمدردیاں حاصل کرکے ان کے دل جیتے جاتے تو آج ممبران قومی و صوبائی اسمبلی دن کی روشنی میں آئندہ الیکشن میں شکست کے خواب کبھی نہ دیکھتے ۔

۔ جتنی تختیاں اس ملک اور صوبے میں ایم این ایز اور ایم پی ایز نے لگوائیں اتنی کسی نے نہیں لگائی ہوں گی لیکن اس کے باوجود لوگ ممبران اسمبلی سے جان چھوٹنے کی دعائیں مانگ رہے ہیں ۔۔ تختی لگانے سے نام کی مشہوری ضرور ہوتی ہو گی لیکن اس عمل سے عوام کو کسی طرح گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔۔ بلدیاتی ممبران اور ناظمین سے غریب عوام نے بہت سی توقعات اور امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں ۔

۔ یہ اگر اب جھوٹ اور منافقت کا لبادہ اوڑھ کر سیاستدان بننے کی کوشش کریں گے تو عوام ان کے بارے میں کیا سوچیں گے ۔۔ ؟ کچھ بننے کیلئے کچھ کرنا پڑتا ہے۔۔ محض اپنے بڑے بڑے ناموں کی تختیاں لگانے سے سوائے ذلت و رسوائی کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ۔۔ گلی محلوں کی سطح پر ایک دو نہیں لوگوں کو کئی طرح کے مسائل درپیش ہیں ۔۔ کہیں نکاسی آب کا مسئلہ ہے تو کہیں واٹر سپلائی لائنوں میں خرابیاں ہیں ۔

۔ صفائی کا نظام تو ہر گلی اور محلے میں نہ ہونے کے برابر ہے ۔۔ لوگوں کو علاقائی سطح پر قائم سرکاری اداروں سے سہولیات نہیں مل رہیں ۔۔ ان ددوردرازاوردیہی علاقوں میں چیک اینڈ بیلنس کا بھی کوئی طریقہ اوررواج نہیں ۔۔بلدیاتی ناظمین اور ممبران اگر چاہیں تو وہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر بھی غریب عوام کیلئے بہت کچھ کر سکتے ہیں لیکن اس کیلئے انہیں تختیوں کی سیاست سے باہر نکلنا ہوگا۔

۔ یہ تختیاں انسان کو تختے پر لٹا دیتی ہیں ۔۔ہم نے ایسے کئی نام نہاد عوامی خدمتگار اور سیاستدان دیکھے جو تختیاں لگاتے لگاتے خود تختہ ہو گئے اور آج ان کا نام و نشان بھی نہیں ۔۔ اپنے کسی کام ۔۔ فعل۔۔ عمل اور کردار کا کریڈٹ لینا واقعی کوئی گناہ اور جرم نہیں لیکن تختیوں کی سیاست کو عوامی خدمت کا نام اور درجہ دینا ظلم ہی نہیں بلکہ بہت بڑا ظلم ہے ۔

۔ایسے میں اگرممبران قومی وصوبائی اسمبلی کی طرح اب بلدیاتی ناظمین اورممبران بھی یہ ظلم شروع کردیں توپھراس ملک اورقوم کاکیابنے گا۔۔؟غریب لوگ اپنے قیمتی ووٹ دے کراپنے لئے نمائندے اس لئے منتخب نہیں کراتے کہ وہ ایم این اے۔۔ایم پی اے۔۔ناظم اورممبربن کرپھراپنے ناموں کی بڑی بڑی تختیاں لگائیں ۔تختیوں کے اس کھیل سے اس ملک کے غریب بہت گزرے ہیں ۔

۔جاگیرداری وسرمایہ داری کے بطن سے جنم لینے والے برگرفیملیوں کے ان چشم وچراغوں سے زیادہ اس ملک میں یہ تختیاں ان غریبوں نے دیکھی ہے۔۔سرمایہ داروں۔۔جاگیرداروں۔۔خانوں۔۔نوابوں اوروڈیروں کے بچے جب سکول میں داخل ہوتے ہیں توانہیں وہاں بھی کھلونے شلونے ہاتھ میں پکڑائے جاتے ہیں لیکن کسی غریب کابچہ جب پہلے دن کسی سکول میں جاتاہے توانہیں وہاں بھی پہلے ہی دن 1,2,3,4اورا،ب،ت ث اورج لکھنے کیلئے تختی ہاتھ میں تھمائی جاتی ہے ۔

۔اس لئے ان تختیوں کی غریبوں کے ہاں کوئی وقعت نہیں ۔۔غریب عوام کے دل جیتنے کے لئے ان کے مسائل حل کرنے ہوں گے۔۔ویسے بھی تختیاں لگانے کے لئے اس ملک میں پہلے سے تختہ سیاستدانوں کی کوئی کمی نہیں۔۔اس لئے خیبرپختونخواسمیت چاروں صوبوں کے بلدیاتی ناظمین اورممبران کوخودنمائی سے زیادہ عوام کی خدمت اورمسائل حل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔

۔یہ بلدیاتی ناظمین اورممبران اگرگلی محلوں کی سطح پرعوام کیلئے کچھ کرسکیں توپھران کوآگے بڑھنے کے لئے نہ کسی تختی کی ضرورت پڑے گی اورنہ ہی کسی تختے کی۔۔تاریخ شاہدہے کہ جن لوگوں نے بھی خدمت خلق کواپناشعاربنایاوہ کبھی ناکام نہیں ہوئے۔۔لیکن خدمت کے لبادے خودنمائی کرنے والوں کوناکامی سے دنیاکی کوئی طاقت نہ کبھی روک سکی اورنہ ہی آئندہ روک سکے گی ۔

۔بلدیاتی ناظمین۔۔ممبران جوابھی سیاست کے میدان میں نوخیزی کے مراحل سے گزررہے ہیں انہیں تختوں اورتختیوں بھٹی میں نہیں بڑھناچاہئے۔۔یہ اگرابھی سے غلط سمت نکل پڑے توپھرملک وقوم کاروشن مستقبل بھی انہی کے ہاتھوں تباہ اوربربادہوگا۔۔قوم کے روشن مستقبل اورملک کی ترقی کیلئے بلدیاتی ناظمین اورممبران کوتختہ سیاست سے بچ کرعوام کی خدمت کرنی چاہئے تاکہ کل کوعوام انہیں اچھے لفظوں سے یادکرسکیں ورنہ پھرممبران قومی وصوبائی اسمبلی کی طرح غریب لوگ ان سے بھی پناہ مانگنے کی دعائیں مانگتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :