سیاسی کارکنوں کی حق تلفی کیوں۔؟

پیر 14 اگست 2017

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

جاوید اقبال نہ صرف ہمارے قریبی رشتہ دار ہیں بلکہ ان کاشمار میرے اچھے،نیک ،مخلص اوروفادار دوستوں میں بھی ہوتا ہے ،قدرت نے کمال کی ذہانت اورقابلیت عطا ء کی ہے۔۔ ہمارے جیسے کم ذہن لوگ جن کوصبح کاسبق بھی یاد نہیں رہتا،ان کے سامنے بات بھی نہیں کرسکتے۔وہ صرف بات نہیں کرتے بلکہ ساتھ دلائل کے انبار بھی لگادیتے ہیں،بچپن کاکافی وقت ہم نے ایک ایک ساتھ گزارا،کئی سال تک ایک سکول میں ایک ہی چھت کے سائے تلے اردو،انگریزی ،ریاضی کئی کتابوں سے ہم بجلی کی طرح گزرے،اس وقت میٹرک کے ساتھ مڈل بھی بورڈ ہوتا تھا،مذل کاامتحان دینے کے بعد ہمارے راستے الگ ہوئے،اس کے بعد جاوید اقبال نے بی اے ،ایم اے اورنہ جانے کیا کیا۔

۔؟ اورکون کونسی ڈگریاں حاصل کیں۔۔؟ لیکن ہم صحافت کی پرخاروادی میں دوڑتے ہوئے کانٹے دارجھاڑیوں میں اس طرح پھنسے کہ پھر نکلنے کاراستہ ہی نہ ملا۔

(جاری ہے)

دنیا کی بڑھتی ہوئی مصروفیات اورمعاش کی فکر پھر اس قدر ہروقت دامن گیر رہی کہ ہمیں کبھی ایک ساتھ اٹھنے بیٹھنے کاموقع بھی نہ ملا۔۔گاؤں میں کئی جنازوں کے موقع پر رسماً ملاقات توایک دونہیں کئی بارہوئی لیکن علیک سلیک سے کبھی زیادمعاملہ آگے نہیں بڑھا۔

چند دن پہلے جب ہم اپنے سارے بوجھ ہزارہ میں چھوڑ کراس کے چھوٹے بھائی عبدالوہاب جن کی شادی راولپنڈی میں تھی میں اچانک شریک ہوئے توشادی ہال سے واپسی پر اس کے دوسرے بھائی قاری عبدالنصیر کی رہائشگاہ پراللہ کے حکم سے ہماری ایسی محفل جمی کہ جس نے پچھلے سارے قرض ہی اتاردےئے۔یاسرماسٹرکے نئے نئے سیاسی ٹوٹکوں نے تومحفل کوکشت زغفران ہی بنادیا۔

۔اس محفل کی سب سے بڑی بات یہ تھی کہ اس میں ہماری ساری یادیں اورباتیں ایک بارپھر تازہ ہوئیں اورگلاب کے پھول کی طرح ایسی تازہ ہوئیں کہ ہمیں بچپن کازمانہ پھرسے یادآنے لگا۔۔وہ بھی کیاخوب زندگی تھی۔۔جب کندھوں پرکوئی بوجھ تھانہ ہی کسی چیزکی کوئی فکر۔۔بستہ اٹھایاسکول گئے ۔واپس آتے ہی کھاناصحیح طریقے سے کھایانہ ہوتاکہ گینداوربلااٹھاکرگراؤنڈکی طرف چل پڑتے۔

۔زمین پھٹتی یاآسمان گرتاہمیں کسی چیزکی کوئی فکرہی نہ ہوتی ۔اپنی ایک دنیاتھی جس میں ہم رہتے تھے۔مٹی کے گھربناتے پھراسے گراتے۔کھیلتے کھیلتے آپس میں لڑتے۔ایک دوسرے پرمعصوم مکوں اورلاتوں کے وارکرتے ۔پھرتھوڑی دیربعدہاتھوں میں ہاتھ ڈال کرہنسی خوشی مذاق کرتے۔ہمارے سینوں میں یہ دل تواس وقت بھی تھے لیکن لڑائی ،جھگڑے یاکسی ہاتھاپائی کے موقع پراس کی حرکت کوکبھی ہم نے محسوس نہیں کیاکہ جس کی وجہ سے کسی دوست اورساتھی کی بات کوبرامان کراس دل کودشمنی پرمائل یاقائل کرتے۔

لڑتے جھگڑتے پھربھی ایک دوسرے سے بے حدپیارکرتے۔۔زندگی کااصل مزہ وہی تھا۔اب تووہی دل جواس وقت شیشے کی طرح صاف تھے بغض۔حسد۔کینہ ۔جھوٹ۔فریب اورمنافقت سے بھرچکے۔آج کسی کی کوئی مجال کہ ہم سے ہاتھ لگائیں یاہماری اتنی طاقت کہ کسی کی طرف آنکھ اٹھاکردیکھیں ۔بہرحال پچپن سے اب تک کے سفرمیں ہم نے بہت کچھ سیکھا۔جس طرح حالات ہمیشہ ایک جیسے نہیں رہتے اسی طرح انسان بھی کبھی ایک حالت پرنہیں رہتا۔

بچپن سے جوانی اورپھرجوانی سے بوڑھاپایہ زندگی کے اہم حصے اورمراحل ہیں جن سے ایک نہ ایک دن ہرانسان کوگزرناپڑتاہے۔۔جوجاویداقبال دس پندرہ سال پہلے ہمارے ساتھ ہوتے تھے وہ بھی توآج ویسے نہیں ۔۔حالات اورواقعات نے انہیں بھی تبدیل بلکہ حدسے زیادہ تبدیل کردیاہے۔۔دس پندرہ سال پہلے جب ہمارے راستے جدا ہوئے تھے اس وقت جاوید اقبال کاشما رجے یوآئی کے دیوانوں اورپروانوں میں ہوتا تھا لیکن آج وہ جاویداقبال نہ جے یوآئی کادیوانہ ہے اورنہ ہی پروانہ ۔

۔ زندگی میں پہلی بار میں نے اس کواس دن جے یوآئی سے متنفر پایا۔ وہ اب جے یوآئی کو بھی اسی نظر سے دیکھتے ہیں جس نظر سے وہ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی ،تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کو دیکھتے ہیں۔۔ امانت دیانت اور شرافت کے معاملے میں وہ آج بھی فضل الرحمان کو روایتی سیاستدانوں اور حکمرانوں سے ہزار درجے بہتر سمجھتے ہیں۔ ان کے ہاں نواز شریف، عمران خان، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان میں فرق آج بھی موجود ہے۔

لیکن ان کے نزدیک جے یوآئی، مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور دیگر سیاسی پارٹیوں میں رتی برابر کوئی فرق نہیں۔ ان کے مطابق موروثی سیاستدانوں کی طرح جے یوآئی میں مفاد پرستوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ جاوید اقبال نے زمانہ طالب علمی میں جے یوآئی کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں۔ جمعیت کی طلبہ تنظیم کے ذریعے انہوں نے جے یوآئی کو مالی اور سیاسی طور پر مضبوط بنانے کیلئے در در کی خاک چھانئی ۔

جمعیت کیلئے تو اس نے وہ کچھ کیاجو اس کے بس سے بھی باہر تھا لیکن جب اس کی واری آئی تو جے یوآئی کے ہی سائے سے اس پر ایسا وار ہوا کہ جس کے زخم وہ آج تک نہیں بھولے ۔۔متحدہ مجلس عمل کے دور حکومت میں سکالر شپ پر ان کا جامعہ الازہر جانے کا پروگرام بنا۔۔ غریب گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود دوڑ دھوپ کرکے اس مقصد کیلئے کاغذات بھی انہوں نے چند دنوں میں مکمل کئے ۔

۔مولانا فضل الرحمان نے ان کاعذات پرسائن بھی کردیا لیکن سٹمپ اس پرنہ لگ سکا۔۔مولانا کے سٹمپ کے بغیر اس کا جانا ممکن نہ تھا جبکہ وہ سٹمپ مولانا کے پرسنل سیکرٹری کے پاس تھا۔۔مولاناکے سائن پرمہر لگانے کیلئے اس نے ایک دو نہیں کئی بار اسلام آباد کے چکر لگائے لیکن ہر بار انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔۔ جامعہ الازہر سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا خواب آہستہ آہستہ دھندلا سادکھائی دینے لگا ۔

۔پھر اچانک اپنی ہی جے یوآئی کے ہاتھوں وہ خواب ہی خوابوں سے غائب ہوگیا۔۔ ٹائم گزر گیا پر مہر نہ لگی۔۔ اپنے ساتھ یہ سلوک اورمولاناکے پرسنل سیکرٹری کاشاہانہ اندازورویہ دیکھ کر جاوید اقبال سوچوں میں پڑگئے کہ اگر جے یوآئی کے ایک مخلص، ایماندار اور نظریاتی ورکر کے ساتھ ایسا ہورہا ہے تو باقیوں کے ساتھ کیاہوگا۔۔؟ وہ دن اور آج کا دن۔۔

جاوید اقبال نے جے یوآئی کا نام ہی لینا چھوڑ دیا۔۔ میرے سامنے صرف جاوید اقبال ہی نہیں ایسے کئی نظریاتی لوگوں کی زندگیاں پڑی ہیں جو اپنی پارٹیوں کیلئے ہواوٴں اورطوفانوں سے لڑتے لڑتے قبر میں اتر گئے لیکن ان پارٹیوں نے انہیں مایوسی۔۔ بے انصافی اور زیادتیوں کے سوا کچھ نہیں دیا ۔۔مانسہرہ میں مٹی کی لمبی چادراوڑھ کرگہری نیندسونے والے نویدخان کامیں تذکرہ کروں یاایبٹ آبادکے شیربہادرکارونارؤں۔

میں مانسہرہ کے خرم خان کانام لوں یابٹگرام کے برہ خان کی کہانی لکھ ڈالوں ۔۔میں کراچی سے گلگت اورسوات سے کاغان تک جہاں بھی دیکھتاہوں مجھے ہرسیاسی پارٹی کانظریاتی اورمخلص ورکرماراماراپھرتااورڈنڈے کھاتانظرآتاہے۔آج تک اس ملک میں کسی بھی سیاسی کارکن کواس کاجائزحق کبھی نہیں ملا۔احتجاج ہو۔جلسہ ہو۔۔کوئی جلوس ہو۔دھرناہویاپھرکسی جگہ کوبھرنا۔

۔ہرجگہ مارکھانے کے لئے یہی سیاسی کارکن سب سے آگے ہوں گے لیکن جب بھی الیکشن یا مفادات سمیٹنے کاٹائم آتاہے توپھرنہ جانے عمران خان کے دوست۔۔نوازشریف کے رشتہ دار۔۔زرداری کے یاراورمولاناکے مریدکہاں سے نکل آتے ہیں ۔اس وقت پھرکسی غریب کارکن کاکوئی نام ونشان نہیں ہوتا۔ایک ایک جاگیردار،سرمایہ دار،خان اورنواب کے پورے کے پورے خاندان کوٹکٹ مل جاتے ہیں لیکن کسی غریب کارکن کیلئے ایک ٹکٹ بھی کہیں سے نہیں نکلتا۔جب تک اس ملک میں غریب سیاسی کارکنوں کوان کاجائزحق نہیں ملتااس وقت تک ان سیاسی پارٹیوں سے جاویداقبال، شیربہادر،خرم خان اوربرہ خان جیسے باغی جنم لیتے رہیں گے جوکسی بھی طورپرملک وقوم کے مفادمیں نہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :