ہم نے اساتذہ کوکیادیا۔۔۔۔؟

جمعہ 3 نومبر 2017

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

استادکسی بھی ملک ۔۔کسی بھی شہراورکسی بھی علاقے کاہواستاداستادہوتاہے۔۔سچ اورجھوٹ میں تفریق۔۔حرام وحلال میں تمیز۔۔اچھے اوربرے کی پہچان ۔۔کامیابی اورناکامی کی وجوہات والدین کے بعداستادہی بتاتے اورسکھاتے ہیں ۔۔اسی وجہ سے استادکوروحانی باپ بھی کہاجاتاہے۔۔مہذب معاشروں میں اساتذہ کوسرآنکھوں پربٹھایاجاتاہے لیکن ہمارے ہاں یہ رواج عام نہیں ۔

حضرت علی  کاقول ہے کہ جس سے میں نے ایک لفظ بھی پڑھایاسیکھاوہ میرااستادہے۔۔لیکن اس معاملے پربھی ہمارامزاج،طبعیت اورموڈ مختلف بلکہ حدسے زیادہ مختلف ہے۔۔جن سے ایک لفظ یاحرف نہیں درجنوں اورسینکڑوں کتابیں ہم پڑھ اورسیکھتے ہیں آج ہم ان کوبھی استادماننے کے لئے تیارنہیں ۔۔تعلیمی انقلاب کے نعرے تواس ملک میں برسوں سے لگائے جارہے ہیں اوردعوے بھی عرصے سے ہورہے ہیں ۔

(جاری ہے)

حکمرانوں کی جانب سے اس بدقسمت ملک میں،،پڑھالکھاپنجاب،،تعلیم سب کیلئے اورتعلیمی ایمرجنسی جیسے پرفریب نعرے توہردورمیں لگے اورہم نے سنے بھی ۔لیکن اس کے باوجودنہ پڑھالکھاپنجاب کاخواب شرمندہ تعبیرہوسکانہ تعلیم سب کے لئے کی خواہش ذرہ بھی پوری ہوئی اورنہ ہی تعلیمی ایمرجنسی سے کسی غریب کے تعلیم کی کوئی پیاس بجھی۔۔اس کے برعکس ایسے کئی ممالک جوتعلیمی میدان میں ہم سے بہت پیچھے تھے نعروں اوردعوؤں کے بغیرہم سے آگے بہت آگے نکل گئے۔

۔ہم صرف تعلیم تعلیم کے نعرے لگاتے رہے اورجھوٹے اورسوکے دعوے ہی کرتے رہے جبکہ تعلیم کوترقی کازینہ سمجھنے والے تعلیم کوگلے سے لگاکرخاموشی سے آگے بڑھتے گئے ۔آج وہ لوگ اس مقام تک پہنچ چکے جہاں تک جانے کے لئے بھی ہمیں کئی سال درکارہوں گے۔۔ نعروں اوردعوؤں کے باوجودملک میں تعلیمی تباہی اورپستی کی وجوہات جاننے کی اگرتھوڑی سی کوشش کی جائے تویہ بات عیاں ہوتی ہے کہ استادکونظراندازکرکے تعلیمی ترقی کی بجائے ہم نے ہمیشہ تعلیمی تباہی کے لئے نہ صرف سامان فراہم کیابلکہ دھوم دھام سے اقدامات بھی اٹھائے۔

۔ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ جس شخص کوالف سے اناراورب سے بکری کابھی علم نہ ہووہ اس ملک میں ،،تعلیم عام،،کرنے کاٹھیکیداربن جاتاہے۔۔مداری کاحکیم۔۔حکیم کاڈاکٹر۔۔ڈاکٹرکاانجینئر۔۔فنکارکاعالم ۔۔نوسربازکاسیاستدان اوربڑے سے بڑے چوراورڈاکوکا ملک کاحکمران بننے کارواج توویسے ہی یہاں رائج ہے ۔۔اوپرسے اس کواس ملک کی بدقسمتی یاعوام کی بدبختی جانیں یاسمجھیں کہ یہاں پر،،دودھ کی رکھوالی کے لئے بلی ،،کوچوکیداری پرمامورکرنے کارواج بھی ہم نے برسوں سے عام کردیاہے۔

۔اس بدقسمت ملک کے اندرجس شخص کوملک کی وسائل اورمعیشت کاپتہ نہیں ہوتااس کوخزانے کاوزیرلگادیاجاتاہے۔۔جوروٹی کو جوجوبولتاہو وہ اطلاعات کاوزیربن جاتاہے۔۔جوجاہلیت میں کوئی ثانی نہ رکھتاہووہ وزیرتعلیم کا منصب سنبھال لیتاہے۔۔ہردورمیں ہرحکمران نے تعلیمی انقلاب کے دعوے کئے۔۔اس کیلئے کئی منصوبے بھی شروع کئے گئے لیکن کیاآج تک کسی حکمران نے تعلیم کوفروغ اورانقلاب کی راہ پرگامزن کرنے کی طاقت رکھنے والے اساتذہ کے لئے بھی کچھ کیا۔

۔؟وہ ایم این ایز۔۔ایم پی ایز۔۔وزیر۔۔مشیراورحکمران جوخودکسی وقت میں کسی استادکے شاگردرہے۔۔اقتدارمیں آنے کے بعدانہوں نے سب سے پہلے اپنے انہی اساتذہ کونشانہ بنایا۔۔آج اساتذہ پراپنی مرضی کے فیصلے مسلط کرنے والے خیبرپختونخواکے وزیراعلیٰ پرویزخٹک کیاکسی استادکے شاگردنہیں رہے۔۔؟بنی گالہ میں تحریک انصاف کے چےئرمین عمران خان کے گھرکے باہراحتجاج کرنے والے قوم کے معماروں میں کیا کسی ایم این اے۔

۔ایم پی اے۔۔وزیر۔۔مشیراورکسی حکمران کاکوئی استادنہیں ۔۔؟اشفاق احمد کہتے ہیں روم میں میرا ایک مرتبہ ٹریفک چالان ہو گیا۔ مصروفیت کی وجہ سے چالان فیس وقت پر جمع نہ کروا سکا کورٹ جانا پڑا۔
جج کے سامنے پیش ہوا تو اس نے وجہ پوچھی۔میں نے بتایا کہ میں استاد ہوں مصروف ایسا رہا کہ وقت نہیں ملا۔اس سے پہلے کہ میں بات مکمل کرتا، جج نے کہا کہ ایک استاد عدالت میں ہے اور احترام میں کھڑا ہوگیا باقی سب لوگ بھی کھڑے ہو گئے اور مجھ سے معافی مانگ کر میرا چالان منسوخ کر دیا۔

اس روز میں اس قوم کی ترقی کا راز جان گیا۔اس کے برعکس ہم نے یہاں ہردورمیں اساتذہ کوذلیل ورسواکرنے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔۔وہ اساتذہ جن کے مبارک ہاتھوں میں قلم اورکتاب ہونی چاہئے تھی ہم نے انہیں ہردورمیں اپنے حقوق کے لئے بینرزاورکتبے ہاتھ میں اٹھائے احتجاج اوردھرنے دینے پرمجبورکیا۔۔آج ایک بارپھرہماری ان حرکتوں کی وجہ سے معماران قوم دوبارہ سڑکوں پرہیں ۔

۔عمران خان اورپرویزخٹک خیبرپختونخوامیں تعلیمی اصلاحات کاراگ الاپتے ہوئے نہیں تھکتے جبکہ دوسری طرف صوبے بھرکے اساتذہ اپنے مستقبل اورحقوق کے حوالے سے اتنے بے چین ہوچکے ہیں کہ انہیں ایک لمحے کابھی سکون نصیب نہیں ۔اسی بے سکونی اوربے چینی کے ہاتھوں وہ قلم اورکتاب کی بجائے ہاتھوں میں بینرزاورکتبے اٹھائے مارے مارے پھرنے پرمجبورہیں ۔

۔ سڑکوں پرنکلنے والے انہی اساتذہ نے ہمیں ڈاکٹرز۔۔انجینئرز۔۔بزنس مین۔۔کھلاڑی۔۔ادیب۔۔شاعر۔۔فنکار۔۔کالم نگار۔۔پولیس ۔۔وکیل ۔۔جج۔سیاستدان ۔۔حکمران اورراحیل شریف جیسے سپہ سالاردےئے لیکن خداراایک منٹ کیلئے سوچیں توسہی ۔۔ہم نے آج تک انہیں کیادیا۔۔؟نوازشریف کے سابق دورمیں قوم کے انہی معماروں سے قلم کتاب چھین کرکیاہم نے انہیں دنیاکے سامنے تماشانہیں بنایا۔

۔؟جن سے لکھناپڑھناہم نے سیکھا۔۔جن کی بدولت ہم وزیر۔۔مشیراورحکمران بنے کیا ان پرپھرپولیس کے ذریعے لاٹھیاں اورگولیاں ہم نے نہیں برسائیں ۔۔؟ جن کی محنت اورکوششوں سے ہم جاہلیت کی زنجیروں سے آزادہوئے کیاانہیں پھرغلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کے لئے اسمبلیوں کے اندرنت نئے قوانین ہم نے نہیں بنائے۔۔؟جن اساتذہ نے ہمیں بیٹوں جیساپیاردیاوقت آنے پرپھرہم نے سیاسی دشمنیوں۔

۔جبری ریٹائرمنٹ اورغیرقانونی ٹرانسفرزکے ذریعے انہیں مارنہیں دیا۔۔؟ہم نے اساتذہ کوجودیاوہ ایک لمبی داستان ہے ۔۔اسی وجہ سے توہزارکوششوں اورلاکھ دعوؤں کے باوجودہم اس ملک میں تعلیمی انقلاب کاخواب شرمندہ تعبیرنہیں کرسکے ۔۔ہائی سکول جوزکے موجودہ پرنسل حافظ مطیع اللہ۔۔قاری حسن مرحوم۔۔محمدامین۔۔عبدالباقی۔۔عبدالقدوس۔۔سیف الرحمن۔

۔حضرت یوسف اوردیگرچنداساتذہ سے ہم نے پڑھااوربہت کچھ سیکھالیکن جن اساتذہ سے ہم نے نہ کبھی پڑھانہ کچھ سیکھاان کی محبت بھی ہمارے دل میں کبھی کم نہیں رہی ۔۔ماسٹرمحمدامین اورماسٹرمحمدیاسرہمارے قریبی رشتہ دار ہیں ۔۔دل اورخون کارشتہ ہونے کی وجہ سے ہماری ان سے بے تکلفی عام بلکہ حدسے زیادہ تھی لیکن جب سے وہ استادبنے ہیں اب ہم ان سے بھی کنارہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کہیں ہماری وجہ سے ،،استاد،،کی کوئی بے ادبی نہ ہو۔

۔استادلاہورکاہو۔۔کوئٹہ بلوچستان کا۔۔گلگت کا۔۔پشاورکا۔۔کراچی کا۔۔چترال کایاپھرسوات اوربٹگرام کا۔۔استاداستاداورہمارافخرہے۔۔ ہم مانے یانہ ۔۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہی اساتذہ نے ہمیں بہت کچھ دیا۔۔اگریہی اساتذہ نہ ہوتے توشاہدخاقان عباسی وزیراعظم کیسے بنتے۔۔؟پرویزخٹک پھروزرات اعلیٰ کے منصب تک کیسے پہنچتے ۔۔؟عمران خان تحریک انصاف کے چےئرمین اورقوم کے لیڈرکیسے بنتے۔

۔؟اگریہی اساتذہ نہ ہوتے توہم ڈاکٹر،انجینئر،کالم نگار،وکیل ،شاعر،ادیب ،صحافی،وطن کے سپاہی ،سیاستدان اورحکمران کیسے بنتے ۔۔؟ان اساتذہ نے ہمیں جوکچھ دیاہم اگران کے ان احسانات کابدلہ چکاناچاہیں توعمربھرہم ان کے بتلائے اورسکھلائے ہوئے ایک لفظ کابدلہ بھی نہیں چکاسکتے۔۔ ان اساتذہ نے ہمیں بہت کچھ دیالیکن افسوس ہم نے آج تک انہیں کام چور۔۔بلیک میلر۔۔حرام خورجیسے القابات کے سواکچھ نہیں دیا۔۔نااہل حکمرانوں کے ہاتھوں قوم کے معماروں کاآج اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پرنکلناپوری قوم کے منہ پرطمانچہ اورہم سب کیلئے شرم کی بات ہے ۔۔ہم اگراپنے محسنوں سے بھی انصاف نہیں کرسکیں توپھرکسی اورسے کیاانصاف اوربھلائی کرلیں گے۔۔؟اللہ ہمیں ہدایت دے۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :