متاثرین زلزلہ اورہمارے حکمران

منگل 20 مارچ 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

قبروں پرقیمتی چادریں توہم بڑے شوق وذوق سے چڑھاتے ہیں لیکن غربت کے ہاتھوں گلی ،محلوں،چوکوں اور چوراہوں پرگھومنے پھرنے والے ننگے جسموں کی ہمیں کوئی پرواہ نہیں ۔نعشوں اورلاشوں پربین کرکے جنازوں کوکندھادینے کوتوہم سب ثواب سمجھتے ہیں لیکن ظلم سے لرزتے،بھوک سے بلکتے ،غربت سے کانپتے اورحالات کی ستم ظریفیوں سے کھیلتے کسی انسان کاسہارابن کرانسانیت کوبچانے کی ہمیں آج بھی کوئی فکرنہیں ۔

اپنی عیاشیوں اوربناؤسنگھارپرہم لاکھوں اورکروڑوں روپے آرام وسکون کے ساتھ اڑادیتے ہیں لیکن غربت اورکسی بیماری کے ہاتھوں ایڑھیاں رگڑنے والے کسی غریب کے لئے ہماری جیبوں میں دس روپے بھی موجودنہیں ہوتے،شراب وکباب پرلٹائے جانے والے لاکھوں اورکروڑوں روپوں کا تو ہمیں کوئی احساس نہیں ہوتا لیکن مسجد،مدرسے اورکسی غریب،یتیم ،فقیراورمسکین کودےئے جانے والے دودوروپے کے سکوں کاحساب ہمیں برسوں تک زبانی یادرہتاہے۔

(جاری ہے)

ہم قبروں میں دفنائے جانے والوں کاپوجاتوکرتے ہیں لیکن اپنے اردگردچبوتروں اورمٹی سے بنے تندورنمامکانوں اورٹینٹوں میں رہنے والوں کوپوچھتے بھی نہیں ۔مرنے ،بچھڑنے اوردنیاسے روٹھنے کے بعدہرشخص چاہے وہ ہمارااپناہویابیگانہ ہم اسے ہیراتوقراردیتے ہیں لیکن کسی زندہ شخص کے منہ میں پانی ڈالنابھی ہم گوارہ نہیں کرتے،زندہ انسانوں کودیواراورمردوں کوگلے سے لگانے کارواج آج اس ملک میں عام بلکہ بہت ہی عام ہوچکاہے ۔

آج اس ملک میں حکمرانوں سے لے کرعوام تک نعشوں اورلاشوں پربین توسب کرتے ہیں ،گریبان چھاک کرمگرمچھ کے آنسوبھی سب بہاتے ہیں لیکن زندہ انسانوں کے لئے نہ کسی آنکھ میں کوئی آنسوہے اورنہ ہی کسی دل میں کوئی درد۔سانس نکلنے کے بعدنعش اورلاش کے سرہانے بیٹھ کرنوٹوں کی گڈیاں توہم لاتے ہیں لیکن کسی کی زندگی میں انہیں اس کاحق دینے کاسلیقہ اورطریقہ ہم میں سے کوئی نہیں جانتا،اپنے آپ کوپکے ٹکے مسلمان کہہ کرفخرسے سینہ توہم روزانہ چوڑاکرتے ہیں لیکن اس کے باوجودکسی دوسرے مسلمان اوربھائی کے حق پرڈاکہ مارنے کاکوئی بھی موقع ہم ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

حکمران ہیں ،سیاستدان،ٹیچرز،انجینئرز،ڈاکٹرز،گلوکارز،فنکارز،قلم کارزمطلب ہم سب ہروقت اس انتظارمیں بیٹھے رہتے ہیں کہ کسی طرح اپنے کسی بھائی کے حق پرڈاکہ ماریں ۔ہم میں سے ہرشخص اپنی جگہ دوسروں کی حق تلفیوں میں لگاہواہے۔جس کاجتناہاتھ پہنچتاہے وہ اتناہی اپنے دوسرے بھائی کاگوشت نوچ کراپنی آخرت تباہ کررہاہے۔آخرت کی فکراورخداکاخوف ہمارے دل اوردماغوں سے نکل چکا،قبرحشرکوبھی ہم بھول چکے ہیں ۔

چاہئے تویہ تھاکہ 2005کے قیامت خیززلزلے کے بعد ہم سارے سیدھے ہوکرراہ راست پرآجاتے مگرافسوس قیامت خیززلزلے سے بلندوبالاعمارتیں زمین بوس،مضبوط پہاڑریزہ ریزہ ،بستیوں کی بستیاں اورشہروں کے شہرملیامیٹ اورکشمیرسے کراچی تک کی زمین کانپ اٹھی،دربھی ہلے اوردیواربھی ،ہمارے گناہوں کے بوجھ سے زمین تولرزی لیکن افسوس صدافسوس گناہوں پرگناہ کرنے والے ہمارے ہاتھ اوردل نہ ذرہ بھی کانپے اورنہ ہی ہمارے جسم ایک لمحے کے لئے کچھ لرزے۔

اسی وجہ سے 2015کا قیامت خیززلزلہ ہمارے لئے عبرت کی بجائے لوٹ مار،ظلم وزیادتی اورناانصافیوں کاذریعہ بنا۔ہم اگراس خوفناک اوراندوہناک زلزلے کی شکل میں اللہ پاک کی آزمائش،امتحان اورعذاب سے عبرت حاصل کرتے توکیاہمارے دل اورہاتھ متاثرین کے حقوق کوہڑپ کرنے کے لئے پھر اس طرح آگے بڑھتے۔۔؟2005کے قیامت خیززلزلے کے بعدمتاثرین کی بحالی اورآبادکاری کے لئے اندرون وبیرون ممالک سے اربوں نہیں کھربوں کی امدادآئی ،مشکل کی اس گھڑی میں دنیانے دل کھول کرمتاثرین کی مددکی لیکن وہ اربوں اورکھربوں روپے کہاں گئے۔

۔؟اس کاآج بھی کوئی اتہ پتہ نہیں ۔قیامت خیززلزلہ جس سے بالاکوٹ سب سے زیادہ متاثرہوا۔جہاں بستیوں کی بستیاں ملیامیٹ اورسینکڑوں پھول جیسے معصوم بچوں سمیت ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے،وہاں زندہ بچ جانے والوں کی فوری آبادکاری کیلئے نیوبکریال سٹی تعمیرکرنے کاوعدہ کیاگیالیکن ہمارے اپنوں اوربیگانوں ،چھوٹوں اوربڑوں کی لوٹ مارکی وجہ سے بالاکوٹ کاوہ بدقسمت اجڑاگلشن آج تک دوبارہ آبادنہ ہوسکا۔

بالاکوٹ کے رہائشی رحمت جودل بہلانے کے لئے آج بھی ہمارے کالم پڑھتے ہیں کہتے ہیں کہ ہم آج بھی وہاں کھڑے ہیں جہاں پربارہ سال پہلے قیامت خیززلزلے والے دن کھڑے تھے۔بارہ سالوں میں حکمرانوں پرحکمران بدل گئے،کئی حکومتیں آئیں اورکئی گئیں لیکن بکریال سٹی کاپھربھی کچھ نہ بن سکا۔خیبرپختونخوامیں تحریک انصاف کی حکومت نے بکریال سٹی میں خصوصی دلچسپی لے کرایک دونہیں کئی باراسے جلدسے جلدآبادکرنے کااعلان کیامگرکھوداپہاڑنکلاچوہاکے مصداق پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت بھی تمام تردعوؤں اوروعدوں کے باوجود متاثرین کے زخموں پرمرہم لگانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔

صوبائی حکومت کی جانب سے چنددن پہلے بکریال سٹی میں متاثرین کوپلاٹوں کی الاٹمنٹ کاباقاعدہ افتتاح کیاگیالیکن اب یہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ بکریال سٹی میں متاثرین کوپلاٹوں کی الاٹمنٹ کے لئے حکومت کی جانب سے جوشرائط رکھی گئی ہیں وہ متاثرین کے زخموں پرمرہم لگانے کی بجائے نمک پاشی کے مترادف ہیں ۔متاثرین کے لئے دنیابھرسے آنے والی اربوں اورکھربوں کی امدادہڑپ کرنے کے بعداب بکریال سٹی میں متاثرین کوپلاٹوں کی الاٹمنٹ کے ذریعے بھی سوداگری کاکام شروع کردیاگیاہے۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ بکریال سٹی میں ان لوگوں کوہی پلاٹ آلاٹ کئے جائیں گے جوان پلاٹوں کے بدلے بالاکوٹ میں اپنے مکان دیں گے۔اگرایساہی ہے تویہ پھرسوداگری نہیں تواورکیاہے۔۔؟مظلوموں کوانصاف اورمتاثرین کوریلیف کی فراہمی میں نفع اورنقصان کونہیں دیکھاجاتاویسے بھی متاثرین کی بحالی اورآبادکاری حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔نیوبکریال سٹی میں متاثرین زلزلہ کوپلاٹوں کی الاٹمنٹ یہ حکمرانوں کاکوئی احسان نہیں بلکہ متاثرین کاوہ حق ہے جوانہیں بارہ سال پہلے ملناچاہئے تھا ۔

متاثرین زلزلہ بارہ سال سے کھلے آسمان تلے رہ کرزندگی کے شب وروزگزاررہے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کوکاروباری فکر اورلین دین کے سوچوں سے فرصت نہیں ۔زلزلے کے بعددنیاسے آنے والی اربوں اورکھربوں کی امدادمتاثرین کی آبادکاری اوربحالی کے لئے کافی اورشافی تھی ،وہ امداداگرہڑپ نہ کی جاتی توآج اس ملک کے زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں ایک دونہیں کئی بکریال سٹیاں تعمیراورآبادہوتیں ۔

اربوں اورکھربوں کی امدادمتاثریں کوملی نہ ہی انہوں نے ہڑپ کی ۔اس لئے غریب متاثرین سے پلاٹ کے بدلے مکان لینے کافارمولہ ایجادکرنے والے حکمرانوں کواگرمتاثرین کے ساتھ کاروبار،سوداگری اورلین دین کااتناہی شوق ہے توپہلے وہ دنیابھرسے متاثرین کے نام پرآنے والی اربوں اورکھربوں کی امدادکاحساب کتاب متاثرین کے سامنے رکھیں اس کے بعدپلاٹ کے بدلے متاثرین سے مکان لینے کی شرائط عائدکریں کیونکہ کاروبار،لین دین اورسوداگری میں ایک ایک پائی کاحساب ہوتاہے ۔

حکمران اگراربوں اورکھربوں کی امدادکاحساب نہیں دے سکتے توپھراپنے حقوق کے لئے بارہ سال سے دردرکی خاک چھاننے اورخوارہونے والے متاثرین کیلئے پلاٹوں کی الاٹمنٹ آمرانہ خواہشات سے مشروط کرنابہت بڑاظلم ہے ۔حکمران متاثرین زلزلہ کامزیدامتحان لیکراپنے آپ کوکسی امتحان میں ڈالنے سے گریزکریں ۔اللہ ہاں دیرہے اندھیرنہیں ۔متاثرین کوتماشابنانے والے ایک بات یادرکھیں اللہ نہ کرے اگرحکمرانوں کے یہ محلات اوردرودیوار2005کی طرح ہلے،کانپے اورلرزے توپھران کاکیاہوگا۔۔؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :