سیاست غریبوں کاکھیل نہیں

پیر 25 جون 2018

Umer Khan Jozvi

عمر خان جوزوی

ہم گھرسے آفس کے لئے نکلے،آگے گلی میں بچے کھیل کودمیں مصروف تھے،چاریاپانچ بچے تھے جوعام سی ایک لکڑکوبلابناکرکرکٹ کھیل رہے تھے ،ان بچوں کی عمریں تین سے چارسال کے درمیان ہوں گی،بلاہاتھ میں پکڑے ایک بچے نے شارٹ کھیلتے ہوئے زورسے نعرہ لگایا،گلی گلی میں شورہے نوازشریف چورہے،چندلمحوں بعدباؤلنگ کرنے والابچہ بھی اوچھل کودکرپہلے والے بچے سے بھی تیزآوازمیں نعرہ لگانے لگا،گلی گلی میں شورہے عمران خان چورہے۔

گلی سے گزرتے ہوئے جہاں ان دونوں بچوں کے نعرے ہمارے کانوں میں گونج رہے تھے وہیں پھرہم کافی دیرتک سوچتے رہے کہ بڑوں کے ساتھ ہم نے بچوں کوبھی کس کام پرلگادیاہے۔۔؟پہلے توپندرہ سال تک بچے لفظ سیاست سے بھی ناآشناء ہوتے تھے لیکن آج روٹی کوچوچی کہنے والابچہ بھی اپنی توتلی زبان میں کلی کلی میں سورہے نوازچریف چورہے اورکلی کلی میں سورہے عمران کان چورہے کے نعرے لگاتاپھررہاہے۔

(جاری ہے)

سیاسی مخالفت اورانتقام کی آگ جلاتے جلاتے ہم نے اس ملک سے اخلاقیات کاجنازہ نکال دیاہے،میراقائدفرشتہ ،تیرالیڈرچور،میں ایمانداراورآپ بے ایمان یہ کونسی سیاست اورکونسااخلاق ہے۔ہمارے دین اسلام نے توسب سے زیادہ زورحسن اخلاق پردیاہے مگرافسوس سیاست سیاست کھیلتے ہوئے ہم اخلاق اورکردارکوبھی ایسے بھول گئے کہ آج ہم اخلاق سے دور بہت دورہوگئے ہیں ۔

ہمیں اچھی طرح یادہے ،ہم نے جب ہوش سنبھالا،دائیں اوربائیں ہاتھ کوپہچاناتوہمیں زندگی کے ابتدائی اسباق میں سے ایک سبق یہ دیاگیاکہ آپ سے عمرمیں ایک دن بڑابھی آپ کابڑاہوتاہے،ان کی عزت اوراحترام آپ پرلازم ہے،بڑااپناہویابیگانہ بڑابڑاہوتاہے اورہمارادین اسلام بڑوں کی عزت اوراحترام کادرس دیتاہے۔وہ دن اورآج کادن ہم نے بڑوں کے سامنے کبھی اونچی آوازمیں بات بھی نہیں کی ،سیاسی ،ذاتی،مذہبی،سماجی اوردیگراختلافات اپنی جگہ مگربڑاکسی بھی گروہ،پارٹی،فرقے ،قوم اورقبیلے کاہواس کی عزت اوراحترام آج بھی ہم سب پرلازم ہے۔

لیڈرلیڈرہوتاہے چاہے وہ نوازشریف کی شکل میں ہویاعمران خان یاپھرمولانافضل الرحمن اورزرداری کی صورت میں۔ہرشخص اورکارکن کواپنالیڈرجان سے زیادہ عزیزہوتاہے۔ماناکہ آج ہماری سیاست چوروں،ڈاکوؤں،راہزنوں،زانیوں،گلوبٹوں ،نکموں اوربدقماشوں تک محدودہوکررہ گئی ہے مگرحقیقت میں سیاست جہاں خدمت کانام ہے وہیں یہی سیاست برداشت ،پیاراورمحبت کابھی دوسرانام ہے۔

اپنے قائداورلیڈرکوفرشتہ ثابت کرنے کے لئے کسی دوسرے کے قائداورلیڈرکوچور،ڈاکو،زانی اورشرابی کادرجہ دینایہ ہرگزسیاست اورشرافت نہیں ۔بچوں کوسیاستدان بناکرہم نے ملک سے اخلاقیات کاجنازہ نکال دیاہے۔وہ بچے جن کے ہاتھوں میں قلم اورکتابیں ہواکرتی تھیں ہماری وجہ سے وہ آج سوشل میڈیاپرایک دوسرے کے لیڈروں اورقائدین کوبرابھلاکہہ کرسیاست کرنے کے فرائض سرانجام دیتے پھررہے ہیں ۔

میدان سیاست کے اندردن کی روشنی میں مقابلہ کرنے والے نوازشریف ،عمران خان ،آصف زرداری،مولانافضل الرحمن سمیت ہمارے سارے لیڈر،قائدین اورگلی ،محلوں تک کے سیاستدان غریب کارکنوں اورنادان سپاہیوں کوآپس میں لڑانے کے بعدپھر بندکمروں اوررات کی تاریکیوں میں سارے اندرسے ایک ہوجاتے ہیں لیکن افسوس ان کے نام پرسادہ لوح اورنادان کارکن سیاست سیاست کھیل کروہاں تک پہنچ جاتے ہیں جہاں سے پھران کے لئے واپس آنایاپھرپیچھے مڑنابھی ممکن نہیں ہوتا۔

وہ سیاسی لیڈراورقائدین جن کی اندھی محبت ،پیاراورعقیدت میں پاگل ہوکرسادہ لوح کارکن غیروں کے ساتھ اپنوں کے بھی جانی دشمن بن جاتے ہیں وہی لیڈراورقائدین مفادنکلنے اورمشکل وقت آنے پر پھران سادہ لوح کارکنوں کوپہچاننے سے بھی انکارکرتے ہیں ۔ہم نے اس ملک کی گلیوں اورمحلوں میں بے دل سیاسی لیڈروں اورقائدین کیلئے تن ،من ،دھن کی قربانی دینے والے ایک دونہیں ہزاروں کارکنوں کوکئی بارمارے مارے پھرتے اورآنسوبہاتے ہوئے دیکھا۔

سادہ لوح کارکنوں اورنادان سیاسی سپاہی اپنے سیاسیوں کے لئے ماں باپ،بہن بھائی، عزیزواقارب اورگھربارتک چھوڑنے سے بھی دریغ نہیں کرتے لیکن انتخابی دنگل اورمفاداتی گیم ختم ہونے کے بعدان کوپھراپنی پارٹیوں والے بھی گھاس ڈالناگوارہ نہیں کرتے۔جن امیدواروں کی کامیابی کے لئے یہ نادان کارکن دن اوررات ایک کرکے خالی پیٹ اورننگے پاؤں روڈماسٹری کرتے ہیں انتخابات کے بعدان کی محنت،مشقت اورقربانیوں سے منتخب ہونے والے ان کے اپنے ایم این اے اورایم پی اے بھی کامیابی کے بعدپھران کودیکھتے ہوئے نہ صرف منہ موڑتے ہیں بلکہ سوالیہ اندازمیں انجان بن کرپوچھتے پھرتے ہیں کہ ،،تم کون ہو،، اورکہاں سے آئے ہو۔

کئی کوتوپھردھکے دے کرممبران اسمبلی کے دفاتر،گھروں اورحجروں سے نکالاجاتاہے۔الیکشن کے موقع پرتوان سیاستدانوں کوان کارکنوں سے زیادہ عزیزکوئی نہیں ہوتالیکن الیکشن کے بعدپھران کارکنوں کوحقیراورفقیربنانے میں یہی سیاستدان ذرہ بھی دیرنہیں لگاتے۔آج ایک بارپھرملک میں عام انتخابات کے لئے میدان سج چکاہے۔وہ سیاستدان جوپورے پانچ سال کارکنوں اورسیاسی سپاہیوں کی نظروں سے اوجھل رہے ،ایک مرتبہ پھروہ سادہ لوح کارکنوں پرسوارہوکرگلی، محلوں میں نکل چکے ہیں ،ماضی کی طرح ایک بارپھرسادہ لوح کارکنوں اورعوام نے ان موسمی سیاسی پرندوں اور مفادپرستوں کی خاطرآپس میں لڑنے جھگڑنے کاکام شروع کردیاہے۔

سوشل میڈیاپراس وقت گالم اورگلوچ کاایک بازارگرم ہے۔میرالیڈرعمران تیرالیڈربے ایمان کانہ ختم ہونے والاسلسلہ بھی عروج پرپہنچ چکا،وہ وہ لوگ جن کوسیاسی پارٹیاں تودوراپنے گھروں میں بھی کوئی نہیں جانتا وہ بھی سیاسی کارکن بن کراپنے اندرکی خباثت کوباہرنکال کر ملک سے اخلاقیات کے جنازے کودھوم دھام سے نکالنے کیلئے کندھادے رہے ہیں ۔سیاست کے اس میلے میں کسی شریف کومعاف کیاجارہاہے نہ ہی کسی غریب کو۔

ہرطرف سے سنگ باری اورالزام تراشیوں کاایک طوفان برپاہے۔وہ سیاسی لوگ جن سے آج کی طرح کل کوبھی کچھ ہاتھ آنے والانہیں ،ہرطرف سے ان کے لئے اپنی دنیابرباداورآخرت خراب کی جارہی ہے۔نوجوان نسل سیاست سیاست ضرورکھلیں لیکن صبراورشرافت کادامن ہاتھ سے ہرگزنہ چھوڑیں ۔پانچ سال بعدبلوں سے نکلنے والے یہ سیاسی 25جولائی کے بعدایک بارپھربلوں کے اندرگھس جائیں گے لیکن یہ غریب لوگ اسی کھلے آسمان تلے رہیں گے جہاں ان کاالیکشن کے بعدبھی اپنوں اوربیگانوں سے آمناسامناہوگا۔

سیاسیوں کی ویسے ہرجگہ منڈی لگتی ہے۔ خان نہیں تو کوئی سردار، سردارنہیں تو کوئی چوہدری،چوہدری نہیں تو کوئی رئیس، رئیس نہیں تو کوئی جاگیردار،جاگیردارنہیں توکوئی سرمایہ دارسیاست کیلئے مل ہی جائے گالیکن ماں ،باپ،بہن بھائی اوررشتہ دارپھرنہیں ملتے ۔اس لئے خداراان سیاسیوں کی خاطراپنوں اوربیگانوں سے دشمنیاں مول کرخودکوعذاب میں نہ ڈالاجائے،الیکشن کسی نے جیتنے اورکسی نے ہارنے ہی ہیں ۔

ایک منٹ کے لئے ٹھنڈے دل سے سوچو۔جوجیت گیاوہ کونساتمہیں سونے کاتاج پہنائے گایاتمہارے لئے آسمان سے تارے توڑکرلائے گا۔۔؟عمران خان،شہبازشریف،بلاول بھٹو،مولانافضل الرحمن ،سراج الحق سمیت ہرسیاستدان نے اپنے لئے جیتنااورجیناہے۔غریبوں کی جوحالت پہلے تھی وہی 2018کے اس الیکشن کے بعدبھی ہوگی ۔غریب نہ الیکشن میں جیتتاہے اورنہ ہی ہارتا۔بے ایمانوں کے اس مقابلے میں مقابلہ ہمیشہ چوروں ،ڈاکوؤں،راہزنوں ،خانوں ،نوابوں ،جاگیرداروں اورسرمایہ داروں کاہوتاہے ۔اس لئے غریبوں کے لئے یہی مناسب ہے کہ وہ25جولائی پولنگ والے دن تک بدمست سیاسی بیلوں کی اس دوڑاورلڑائی سے ہرممکن دوررہیں کیونکہ اسی میں ان کی بھلائی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :