وسائل زیادہ، وقت کم

پیر 7 جون 2021

 Unaiza Ghazali

عنیزہ غزالی

انتہائی عجیب حقیقت ہے جو ذہن پر اکثر عیاں ہوتی رہتی ہے۔ آج دو کالمز کا مطالعہ کرتے وقت اسی حقیقت نے شدت سے دماغ کے دریچوں پہ دستک دی۔ وسائل بڑھتے جا رہے ہیں، وقت کم ہوتا جا رہا ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں میں لوگوں کے پاس وسائل کم ہوا کرتے تھے، کام کرنا مشکل ہوتا تھا اور ایک کام کو کرنے میں کئی کئی دن اور کبھی کبھی تو کئی ماہ یا کئی سال لگ جایا کرتے تھے۔

لوگ مہینوں سفر کرتے تھے اور پھر منزل تک پہنچ پاتے تھے۔ اس مشاہدے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ بیسویں صدی جو ابھی ماضیِ قریب میں ہی گزری ہے، اس میں بھی اسی کم وسائل اور پر مشقت زندگی کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ میری والدہ ذکر کرتی ہیں کہ ان کے دادا جب حج پر گئے تو چار ماہ بعد واپس لوٹے تھے۔

(جاری ہے)

نسیم حجازی لکھتے ہیں کہ اپنے ایک ناول کے لیے تحقیق کرنے میں انہیں چھ سال سے زائد کا عرصہ لگا۔

کیوں کہ انٹر نیٹ کا دور نہیں تھا، کتابوں کے لیے لائیبریریوں کی خاک چھاننی پڑتی تھی۔ سفر کے لیے آسان سہولیات مہیا نہیں تھیں۔ پھر کیسے وقت اتنا زیادہ تھا؟ کیسے لوگ یہ کہتے تھے کہ دن آرام آرام سے گزرتے تھے؟ وقت تو کم ہونا چاہیے تھا کہ کام پر مشقت اور زیادہ محنت طلب تھے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ جیسے جیسے آسانیاں آتی گئیں، ٹیکنالوجی کی بدولت وسائل بڑھتے گئے، وقت کم ہوتا گیا۔

لوگ مصروف رہنے لگے۔
اس امر پر ذرا غور کیا تو احساس ہوا کہ بے شک پہلے وسائل کم تھے اور کام محنت طلب تھے، لیکن لوگوں کے پاس اضافی سرگرمیوں کا حجوم نہیں تھا۔ آج ہماری اسمارٹ زندگیوں میں جو اضافی چیزیں ہمیں جکڑے ہوئے ہیں، وہ پہلے نہیں تھیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ لوگ اپنے مقصد پر، اپنے اصل کام کو کرنے پر ہی اپنا وقت صرف کرتے تھے۔

اگر کسی دفتر میں کوئی دستاویز تیار کیا جانا ہوتا تھا تو اسے کاغذ پہ دن کا اچھا خاصہ وقت لگا کر لکھا جاتا تھا اور ارسال کیا جاتا تھا۔ آج یہ کام ٹائیپنگ سے ہو جاتا ہے۔ یہ سہولت ہے، آسانی ہے۔ لیکن ٹائیپنگ کرنے والے کے پاس ایک عدد اسمارٹ ڈیوائس ہے جس کے ذریعے وہ اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے ساری دنیا گھوم سکتا ہے، اس کا لیپ ٹاپ یا اسمارٹ فون۔

اب وہ ٹائیپنگ کے دوران کبھی وٹس ایپ یوز کرتا ہے، کبھی نیوز فیڈ چیک کرتا ہے، کبھی کوئی انٹرسٹنگ آرٹیکل پڑھنے لگ جاتا ہے اور کبھی یو ٹیوب پر ریکومینڈڈ فار یو والی ویڈیوز میں ایسا کھو جاتا ہے کہ گھنٹوں کے گھنٹے منٹوں کی مانند ہاتھ سے پھسلتے چلے جاتے ہیں اور دن کے آخر میں وہی شخص افسوس کرتا رہ جاتا ہے کہ آج یہ بھی نہیں کر سکا اور یہ کام بھی رہ گیا۔

پھر وہ سوچ لیتا ہے کہ وہ رہ جانے والے پینڈنگ کام کل کرے گا۔ اور ہر کل آج میں بدل کر گزر جاتی ہے۔ یہی مسئلہ اسٹوڈنٹس اور معاشرے کے تقریباً ہر دوسرے شخص کا ہے۔ وجہ؟ ڈسکٹریکشنز، جو فوکس نہیں کرنے دیتیں۔ اس کے مختلف حل سننے میں آتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ایک دن کے لیے فون بالکل رکھ دیا جائے اور پینڈنگ کام کیے جائیں۔ گوگل کے فیچرڈ اسنپیڈ نے بتایا کہ آپ اپنے کام کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر دیں اور آن لائن ڈسٹریکشنز کو بالکل بلاک کر دیں۔

کہیں یہ ٹپ بھی ملتی ہے کہ کام کے دوران موبائل فون سے دور رہیں۔ یہ سب ہی باتیں درست ہیں لیکن اصل مسئلہ ان چیزوں اور ڈسٹریکشنز کے ساتھ نہیں، آپ کے ساتھ ہے۔ یہ آپ ہیں جو ان کے آگے ہار مان جاتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ ہمارا مقصد اس زندگی میں یہ ہے کہ ہمیں آخرت کی تیاری کرنی ہے۔ وہ زندگی جو آنے والی ہے، اس کے لیے خود کو تیار کرنا ہے اور ایسے اعمال کرنے ہیں جو اُس زندگی میں ہماری کامیابی کے ضامن بن سکیں۔

اب مسئلہ یہی ہے کہ دنیا میں ایسی بہت سی ڈسٹریکشنز ہیں جو ہمیں فوکس نہیں کرنے دیتیں۔ کبھی کسی لطف کے آگے ہم گٹھنے ٹیک دیتے ہیں اور کبھی کوئی لذت ہمیں اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ لیکن اگر ہمیں معلوم ہو کہ ہمارا اصل کام کیا ہے، تو ہم خود کو ان ڈسٹریکشنز سے نکال کر بار بار اپنا فوکس اپنے مقصد کی طرف واپس لانے کی سعی کرتے ہیں۔ اس قاعدے کو اگر ہر کام کی تکمیل کا بنیادی قاعدہ سمجھ لیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔

اس کے مطابق جب بھی کوئی کام شروع کیا جائے گا تو اس کے دوران ڈسکٹریکشنز (رکاوٹیں) بھی ضرور آئیں گی۔ ان ڈسٹریکشنز کو مکمل طور پر ختم کرنا آپ کے اختیار میں نہیں ہے۔ آپ کے اختیار میں سیلف کنٹرول ہے۔ جس کے ذریعے آپ ان ڈسٹریکشنز کے ہوتے ہوئے بھی خود کو اپنے مقصد کی طرف راغب کر سکتے ہیں۔ صرف آپ کو بار بار خود کو یہ یاد کروانا ہے کہ آپ کا کام کیا ہے، اصل مقصد کیا ہے۔

جب یہ ہو گا تو خود بخود یہ چیزیں آپ کو آپ کے کام سے نہیں ہٹا سکیں گی۔ اوپر جن ٹپس کا ذکر ہے، وہ بھی اسی وقت آپ پر اثر کریں گی جب آپ میں سیلف کنٹرول ہو گا۔ اگر سیلف کنٹرول نہیں ہو گا تو آپ کا ہاتھ خود بخود موبائیل کی طرف جائے گا اور آپ کے لیے خود کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔
وقت اور وسائل دونوں کو بہتر طور پر بروئے کار لانے کے لیے یہ لازمی امر ہے کہ دونوں میں توازن برقرار رکھا جائے۔ جب وسائل کو درست اور با مقصد طریقے سے استعمال کیا جائے گا تو وقت بھی خود بخود ہاتھ آ جائے گا۔ وقت کی کنجی کو ہاتھ میں رکھنا بہت ضروری ہے کیوں کہ:
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :