نیتھن فارمولا

جمعرات 15 جولائی 2021

 Unaiza Ghazali

عنیزہ غزالی

آج ایک دلچسپ کہانی زیرِ مطالعہ تھی۔ لطف بھی آیا اور سچ تو یہ ہے کہ میں واقعی ایسی ذہانت پہ بڑی حیران ہوئی۔ پہلے کہانی ملاحظہ ہو۔
امریکہ کی ایک مشہور کمپنی نیتھنز فیمس کہلاتی ہے۔ یہ کمپنی آج اپنی بہترین سروس اور معیار کی بنیاد پر بہت شہرت کی حامل ہے لیکن اس کے بانی نے اسے کھڑا کرنے میں بہت محنت سے کام لیا۔ نیتھن ہینڈ ورکر نسلی اعتبار سے پولش تھا۔

جب وہ 1912 میں امریکہ پہنچا تو اسے انگریزی بولنی، پڑھنی اور لکھنی نہیں آتی تھی۔ وہ اس زبان سے بالکل نابلد تھا۔ اس نے ہمت مجتمع کر کے برکلنز کونی آئیلینڈ میں ایک بزنز کا آغاز کیا۔ اپنے ہم پیشہ افراد سے اس کا مقابلہ سخت تھا اور ظاہر ہے کہ نیا بزنز شروع کرنا آسان کام نہیں ہوتا۔ وہاں لوگ دس سینٹ میں ہوٹ ڈوگ بیچا کرتے تھے۔

(جاری ہے)

نیتھن نے اپنے ہوٹ ڈوگ کی قیمت گھٹا کر پانچ سینٹ کر دی لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے کمپیٹیٹرز نے اس کے ہوٹ ڈوگ کے معیار کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

کم کالیٹی کا ہے، اسی لیے سستا ہے۔ نیتھن نے ہار نہیں مانی۔ اس نے چند افراد کو سفید کوٹ میں ملبوس کیا۔ یہ بظاہر نظر آنے والے ڈاکٹرز لوگوں کو نیتھن کا ہوٹ ڈوگ کھاتے نظر آتے تھے۔ نیتھن کا ہوٹ ڈوگ مشہور ہوتا گیا۔ لوگوں نے سمجھ لیا کہ یہ بہترین کالیٹی کا ہے کیوں کہ اسے تو ڈاکٹرز کھاتے ہیں۔
میں اس کہانی کو پڑھ کر یہ سوچ رہی تھی کہ مستقل مزاجی کتنی ضروری ہوتی ہے۔

یہ ایک الگ بحث ہے کہ نیتھن کا طریقہ درست تھا یا نہیں، بحر حال اسے پولیس نے بھی نہیں پکڑا۔ شاید اس وقت یہ کہانی منظرِ عام پر نہیں آئی تھی۔ خیر اگر وہ ہار مان لیتا، اگر وہ اپنے کمپیٹیٹرز کے خوف سے سب چھوڑ دیتا تو اتنا بڑا بزنز کیسے کھڑا ہوتا؟ ایک ایسا شخص جو انگریزی بول تک نہیں سکتا تھا، اس نے ایک ایسے ملک میں اپنی جگہ بنا لی جہاں پہلے سے اس ملک کے مقامی لوگ وہی چیز بیچ رہے تھے جو نیتھن نے بیچی۔

زندگی میں ہم اکثر یہ سوچ لیتے ہیں نہ، یہ تو سب کر رہے ہیں۔ میں نے کیا تو فائدہ نہیں ہوگا۔ ایسا نہیں ہوتا۔ لکھنے والے کئی لکھاری ہیں، مگر کوئی کوئی یونیک ہوتا ہے۔ بولتے بہت لوگ ہیں، مگر کچھ لوگ اپنے الفاظ سے مسحور کر دیتے ہیں۔ ایک ہی کام بہت لوگ کرتے ہیں، لیکن ان کی انفرادیت ان کو یونیک اور دوسروں سے مختلف بناتی ہے۔ یہ قابلیت ہوتی ہے جو انسان کو منوا لیتی ہے۔


اکثر لوگ صرف اس بنیاد پر آگے نہیں بڑھتے کہ وہ مخالفت برداشت نہیں کر سکتے۔ انہیں لوگوں کی باتیں خوف دلاتی ہیں اور وہ ہر کوشش ترک کر دیتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ فرار وہ واحد راستہ ہے جو انہیں آزاد کر سکتا ہے۔ لیکن یہ بات قابل غور ہے کہ کسی ایک چیز کو چھوڑ کر اگر کوئی دوسری شے بھی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی، مخالفت تو وہاں بھی ہو سکتی ہے۔

کوئی چیز بغیر کوشش کے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ دنیا میں کوئی تاجر ہو یا سیاست دان، دینی رہنما ہو یا سائنس دان، اپنے خیالات کو منوانے اور آگے بڑھنے کے لیے کوشش ضرور کرتا ہے اور مخالفتوں کو بھی برداشت کرتا ہے۔
مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر آپ نیتھن کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی زندگی میں اپنے ٹیلینٹ کو ابھارنے کے لیے وہ کریں جو آپ کے اخلاقی معیارات کے حساب سے درست ہو تو کامیابی آپ کا مقدر بن سکتی ہے۔ کوشش کریں اور اپنی کسی کمزوری کو اپنی صلاحیت پر حاوی نہ ہونے دیں۔ یہی ہے وہ فارمولا جس نے نیتھن کو کامیاب کیا۔ کوشش کرنا اور خوف نہ کھانا، ہار نہ ماننا۔
منزل سے آگے بڑھ کر منزل تلاش کر
مل جاۓ تجھ کو دریا، سمندر تلاش کر

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :