کووڈ میں تعلیم: کیا اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم اعلیٰ معیاری نہیں ہونی چاہیے؟

جمعہ 30 جولائی 2021

 Unaiza Ghazali

عنیزہ غزالی

پچھلے دنوں ایک دوست سے یوں ہی گفتگو کے دوران امتحانات کا ذکر چل نکلا۔ میں نے اس سے امتحانات کی بابت سوال کیا تو کہنے لگی کہ امتحانات تو خیر سے ختم ہو چکے ہیں، ایک ٹیچر کا اسائنمنٹ جمع کرانا ہے انہوں نے پرچہ نہیں لیا بلکہ آنلائن اسائنمنٹ کے ذریعے ہی ہماری جانچ کی ہے۔ میرے لیے یہ حیرت کی بات نہیں تھی کیوں کہ یونیورسٹی نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ جو اساتذہ چاہیں وہ پورا امتحان آنلائن لے سکتے ہیں۔

میں نے حسبِ توقع اگلا سوال داغا کہ کتنے اسائنمنٹ بنائے ہیں؟ تو وہ بولی کہ ایک ہی بنایا ہے۔ کیا، ایک؟ بس ایک؟ یہ بات میرے لیے واقعی حیران کن تھی۔ آگے اس سے چند مزید سوال پوچھنے پر مجھے اندازہ ہوا کہ چوں کہ ٹیچر نے سارا سیمیسٹر آنلائن کلاسز نہیں لی تھیں اس لیے انہوں نے ایک اسائنمنٹ لے کر طلباء کو فارغ کر دیا۔

(جاری ہے)

آئیے اس مسئلے کو یہیں چھوڑ کر کووڈ کی صورتِ حال سے اس کا ناطہ جوڑتے ہیں پھر واپس سلسلہ کلام کا رخ اس مسئلے کی جانب کریں گے۔


فروری 2020 کے اختتام سے پاکستان میں معاشی و معاشرتی نظام کووڈ کے باعث بری طرح متاثر ہونا شروع ہوا۔ ابتدا میں تو صورتِ حال سب کے لیے ہی عجیب اور غیر یقینی تھی اس وجہ سے نظامِ زندگی گھروں تک محدود ہو کر رہ گیا۔ البتہ آہستہ آہستہ یہ احساس شدید ہو گیا کہ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر کچھ متبادل تلاش کرنا ضروری ہیں تاکہ نظامِ معاشرت کو دوبارہ رواں دواں کیا جا سکے۔

یہیں سے آنلائن کلاسز کا آغاز ہوا اور تا حال فزیکل کلاسز اور آنلائن کلاسز کی آنکھ مچولی جاری ہے۔ اسی صورتِ حال میں ایسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں جن میں سے ایک کا تذکرہ اوپر ہو چکا ہے۔
بحر حال اپنی دوست سے یہ سننے کے بعد میں نے کئی اور طلباء سے ان کے تجربات کے بارے میں سوالات کیے تو معلوم ہوا کہ طلباء اس امر سے تو خوش ہیں کہ جامعہ نے آنلائن سسٹم لانچ کر دیا اور کہیں کہیں تو ایل ایم ایس سسٹم بھی ایکٹو کر دیے گئے لیکن کہیں طلباء کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا گیا اور کہیں آنلائن کلاسز منعقد ہی نہیں کی گئیں۔

کچھ جامعات میں طالبِ علموں کو یو ٹیوب ویڈیوز سننے کے لیے دے دی گئیں۔ اس طرح تعلیمی نظام کو بہت نقصان پہنچا۔ میری دوست کے ٹیچر نے جو کیا، سارا سیمیسٹر آنلائن کلاسز نہ لے کر طلباء کو ایک اسائنمنٹ کے ذریعے آزاد کر دیا، اس سے ایک پورے کورس کا حرج ہو گیا۔ وہ چیزیں جو اس کورس کا حصہ تھیں، طلباء نہیں سیکھ سکے۔ اگر مقصد صرف ڈگری لینا ہو تو یہ بات اتنی معنی نہیں رکھتی لیکن اگر مقصد واقعی تعلیم حاصل کر کے معاشرے کو مثبت بنانا اور ترقی دینا ہے تو یہ بات بہت اہم ہے۔

ایک پرائیویٹ یونیورسٹی کی طالبہ نے یہ بھی بتایا کہ ایس او پیز بنا تو دیے گئے ہیں جو کہ ایک اچھی بات ہے مگر ان پر عمل درآمد کروانے میں جامعہ ناکام رہی ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جامعہ ایک اعلیٰ تعلیمی ادارہ ہے۔ کووڈ کی وجہ سے کچھ حد تک بے ضابطگیاں سامنے آنا کوئی بڑی بات نہیں کیوں کہ کسی بھی ماحول میں ڈھلنے کے لیے انسانوں کو وقت در کار ہوتا ہے۔

تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ ڈیڑھ سال کا عرصہ اسی طریقہ تدریس کے ساتھ گزارنے کے باوجود بھی اب تک چیزیں بہتر نہیں ہو سکیں۔
ایک طالبہ نے یہ حل تجویز کیا کہ اگر ٹیچرز کو ٹریننگ دی جائے تو وہ بہتر طور پر آنلائن کلاسز کا احتمام کر سکیں گے۔ اس کی اس بات سے میں بھی اتفاق کرتی ہوں کیوں کہ ہمارے اساتذہ میں بعض ایسے بھی ہیں جو ادھیڑ عمر ہیں اور آنلائن طریقہ تدریس سے نا بلد ہیں۔

ٹریننگ کے ذریعے آنلائن نظام کو کافی حد تک بہتری کی جانب گامزن کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں دوسرا اقدام یہ کیا جا سکتا ہے کہ جامعات تدریس کی کڑی نگرانی کریں۔ یعنی یہ کہ کس طرح کلاسز ہو رہی ہیں اور اساتذہ اور طلباء کا کیا رویہ ہے اس کی نگرانی کی جائے۔ کیوں کہ اساتذہ کو بھی اس دوران طلباء کے رویے سے بہت شکایات رہی ہیں اس لیے دونوں کی نگرانی ہی اس مسئلے کو بہتر طور پر حل کر سکتی ہے۔ یہ کافی مشکل امر ہے لیکن یہی بہتر راستہ ہے۔ کم از کم اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم اعلیٰ معیاری ہونی چاہیے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :