
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
جمعرات 25 جون 2020

عثمان غنی رعد
قومیں اپنے لوگوں سے اور لوگ اپنے وطنوں سے پہچانے جاتے ہیں۔مگر افسوس ہے کہ وہ قومیں،لوگ اور وطن کہاں چلے گئے۔؏”اب اُنھیں ڈھُونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر“ مگر یہ اذیت ،تکلیف اور مصیبتیں کہاں تک ہوں گی،خدا جانے!اس ملکِ خداد میں جس طرف بھی نظر کریں ایک خاص قسم کا فقدان نظر آتا ہے اور انتشار ہی انتشار ہر جگہ منڈلاتا دکھائی دیتا ہے۔میں شعبہِ تعلیم سے وابستہ ہوں اور درس وتدریس ہی میرا اوڑھنا بچھونا ہے۔اس لیے تعلیم وتعلم کے حوالے سے اس کالم میں بات کرنا چاہوں گا اور تعلیم کے بھی سب شعبے نہیں صرف فنی تعلیم کے حوالے سے چند گزارشات اور مسائل کا ذکر۔
نیشنل ٹیکنالوجی کو نسل جسے اردو میں” قومی فنی انجمن “کہا جاتا ہے،اس کا قیام تو2015ء میں عمل آیا اور اس فنی انجمن کا مقصد پاکستان کے ٹیکنالوجسٹ اور فنی مہارتوں میں ماہر کاریگروں کو رجسٹرڈ کرنا اور ان کو تحفظات اورسہولیات فراہم کرنا تھا اور ان بی ٹیک آنرز کی ڈگریوں کے حامل ٹیکنالوجسٹ کو ایک ٹیکنالوجی نمبر عطا کرنا تھا ۔
جس کے تحت وہ مختلف سرکاری ونجی اداروں میں ایک ٹیکنالوجسٹ کے طور پر اپنے فرائض انجام دے سکیں اور ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔مگر انجنئیرنگ کونسل جسے اردو میں”پاکستان انجنئیری انجمن “کہا جاتا ہے،کا قیام 10 جنوری 1976ء کو عمل میں آیا اور لگ بھگ انھیں سالوں میں پاکستان میں بی۔ٹیک آنرز بھی جاری ہوا جو تاحال جاری وساری ہے اور ملک بھر میں بے شمار ٹیکنالوجسٹ موجود ہوں جو تاحال حکومت کی مہربانی اور شفقت کے منتظر ہیں۔
ہمارے ملک میں ٹیکنالوجی کی تعلیم کی طرف لوگوں کا خصوصاً نوجوانوں کا رجحان بہت زیادہ ہوا ہے مگر ایک مصیبت ان لوگوں کو یہ پیش آئی کہ پاکستان انجنئیرنگ کونسل نے اسے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا اور ہمیشہ اس کی مخالفت کی اور یہی تاثر دیا کہ ایک ٹیکنالوجسٹ کبھی بھی ایک انجنئیر کے برابر نہیں ہو سکتا۔حال آں کہ بطور ایک انجنئیر اور ٹیکنالوجسٹ ہم جانتے ہیں کہ تمام انجنئیرز کو جو یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو کر عملی طور پر جب فیلڈ میں اترتے ہیں تو تمام ٹیکنالوجسٹ ہی سب کے سب انجنئیرز کو تیار کرتے ہیں اور انھیں عملی طور پر انجنئیرنگ کے تمام گُر سکھاتے ہیں۔مگر بعد میں یہی انجنئیرز تمام ٹیکنالوجسٹس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انھیں کبھی بھی اپنے برابر نہیں سمجھتے۔
اگر ایک انجنئیر اور ایک ٹیکنالوجسٹ کے علم کی بات کریں تو یہاں ہمیں ان کے علم کا اندازہ لگانے کے لیے ان کے سلیبس پر نظر کرنی پڑے گی تاکہ اندازہ ہو سکے کہ صحیح معنوں میں زیادہ انجنئیرنگ اور ٹیکنالوجی سے متعلقہ تعلیم کے مضامین کون پڑھتا ہے۔ایک ٹیکنالوجسٹ بننے کے لیے آپ کو میٹرک کے بعد تین سال کا ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجنئیر کرنا پڑتا ہے اور اس ڈپلومے کے تین سال کے سلیبس پر نظر کریں تو تقریباً تیس کتابیں بنتی ہیں اور یہ تیس کتابوں کے علاوہ جو روز مرہ کا عملی کام(پریکٹیکل) ہے اس سے تین سال آپ کو ایک بھی دن فرصت نہیں ملتی۔اسی وجہ سے ایک تین سالہ ڈپلومے کا حامل شخص ایک سولہ سالہ انجنیئرنگ کا حامل شخص بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور عملی کام میں فیلڈ میں ان سے ہی سیکھ کر آگے بڑھتا ہے۔یہاں ایک بات اور بھی قابلِ غور ہے کہ تین سالہ ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجنئیرنگ کرنے کے بعد آپ ایک اچھی نوکر کے حصول کی کوشش کر سکتے ہیں اور دنیا بھر میں بہت سے انجنئیر صرف تین سالہ ڈپلومہ آف ایسوسی انجنئیر کے حامل ہیں۔
مگر جب دوسری طرف ایک انجنئیر کی تعلیم کا اندازہ لگائیں تو اسے پہلے ایف۔ایس۔سی پری انجنئیرنگ کرنی پڑتی ہے اور بعد میں چار سالہ انجنئیرنگ کی ڈگری کرنی پڑتی ہے۔اب یہیں سے دونوں کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے کہ چار سالہ انجنئیرنگ کی ڈگری سے پہلے ایک انجنئیر بالکل بھی انجنئیرنگ کی عملی تعلیم سے بے خبر ہوتا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ کالج کے اندر لیب میں کیمسٹری،فزکس اور بائیو کے وہ تجربات سیکھتا ہے جن کا انجنئیرنگ کی فیلڈ سے دوردور کا کوئی واسطہ ہی نہیں ہے اور وہ چارسالہ انجنئیرنگ میں وہ مضامین پڑھنا شروع کرتا ہے جو ایک ٹیکنالوجسٹ اپنی چارسالہ ٹیکنالوجی کی ڈگری(بی۔ٹیک آنرز) سے قبل ہی ڈپلومے میں پڑھ چکا ہوتا ہے اور پھر ایک ڈپلومہ ہولڈر ٹیکنالوجسٹ بننے کے لیے انھیں مضامین میں جدید اور اعلا تعلیم کو آگے بڑھاتا ہے اور ساتھ میں اور بھی کئی مضمون پڑھتا ہے۔
ہماری زندگی میں ایک ہی شعبے کے افراد اپنے ہم پیشہ و ہم شعبہ شخص سے ضرور حسد کرتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ دوسرے کو کم زور کر کے خود کو اسی شعبے میں مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے تمام افراد کے لیے احمد فراز نے کہا تھا:
اپنی محرومی کے احساس سے شرمندہ ہیں
خود نہیں رکھتے تو اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ
میرے ایک دوست حافظ عباس علی(الیکٹریکل ٹیکنالوجسٹ) اکثر یہ کہا کرتے ہیں کہ سوائے نشئی حضرات کے کوئی بھی ہم پیشہ،ہم منصب،ہم شوق اور ہم شعبہ شخص دوسرے شخص کا خیال نہیں کرتا کیوں کہ نشئی پانچ ہوں اور سگریٹ ایک، تو پانچوں ایک ایک کش لگا لیں گے مگرکسی دوسرے نشئی کو محروم نہیں رکھیں گے۔مگر افسوس ہوتا ہے کہ ہم پڑھے لکھے ،عالم اور عاقل کہلانے والے لوگ ان نشئیوں سے بھی گئے گزرے ہو گئے ہیں۔
میرے دوست توقیر رانجھا( سول ٹیکنالوجسٹ) نے مجھے بتایا کہ ہم ٹیکنالوجسٹوں سے کیسا سوتیلے بچوںوالاسلوک ملکِ پاکستان میں ہورہا ہے۔ہم محنت بھی زیادہ کرتے ہیں،مضامین اور کتابیں بھی انجنئیروں سے زیادہ پڑھتے ہیں مگر حکومت ہمیشہ ہی انجنئیرز کے سامنے ہتھیار ڈالے ہوئے ہے۔ٹھیک ہے حکومت نے کچھ سالوں سے ٹیکنالجسٹوں کو ”ٹیکنالوجسٹ“نمبر عطا کرنے شروع کیے ہیں مگر کیا ان نمبروں سے ابھی تک ان ٹیکنالوجسٹوں کو وہ عزت اور نوکریاں مل رہی ہیں جو ایک پاکستان انجنئیرنگ کونسل سے ایک انجنئیر کو نمبر ملتا ہے اور وہ اس سے اپنے کیرئیر کا آغاز کرتا ہے۔
اس نئی حکومت سے ان تمام ٹیکنالوجسٹوں کو بہت امیدیں وابستہ تھیں مگر ابھی تک انھیں وہ حقوق نہیں مل سکے جو انھیں ملنے چاہییں تھے۔کئی دفعہ عدالتوں میں بھی اس کے فیصلے ہو چکے مگر تاحال تما م بی۔ٹیک آنرزا شخاص نظریں اٹھائے حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اپنے بہتر مستقبل کے لیے کوئی بہترین نوید کے منتظر ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ان تمام ٹیکنالوجسٹوں کے ضمن میں کوئی سنجیدہ قدم اٹھائیں اور ان کو بھی انجنئیرز کے برابر انجنئیر مانا جائے۔
میں آخرپہ یہ بتاتا چلوں کہ پڑھنے والے حضرات ضرور یہ جان لیں کہ میں نے بھی سولہ سالہ ٹیکنالوجسٹ کی ڈگری کی ہوئی ہے اور بی۔ٹیک آنرز (سول) کی ڈگری رکھتا ہوں۔یہ بتانا اس لیے ضروری تھا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ میں یہ سب کچھ کیسے جانتا ہوں۔یہ بات الگ ہے کہ بعد میں مَیں نے اردو تقابلی ادب میں پی۔ایچ۔ڈی کی۔اس لیے میں سمجھ سکتا ہوں کہ ان تمام ٹیکنالوجسٹوں نے کس کس قدردکھ اور مصائب جھیلے ہیں کہ غالب نے یونہی تو نہیں کہا تھا کہ:
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
نیشنل ٹیکنالوجی کو نسل جسے اردو میں” قومی فنی انجمن “کہا جاتا ہے،اس کا قیام تو2015ء میں عمل آیا اور اس فنی انجمن کا مقصد پاکستان کے ٹیکنالوجسٹ اور فنی مہارتوں میں ماہر کاریگروں کو رجسٹرڈ کرنا اور ان کو تحفظات اورسہولیات فراہم کرنا تھا اور ان بی ٹیک آنرز کی ڈگریوں کے حامل ٹیکنالوجسٹ کو ایک ٹیکنالوجی نمبر عطا کرنا تھا ۔
(جاری ہے)
ہمارے ملک میں ٹیکنالوجی کی تعلیم کی طرف لوگوں کا خصوصاً نوجوانوں کا رجحان بہت زیادہ ہوا ہے مگر ایک مصیبت ان لوگوں کو یہ پیش آئی کہ پاکستان انجنئیرنگ کونسل نے اسے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا اور ہمیشہ اس کی مخالفت کی اور یہی تاثر دیا کہ ایک ٹیکنالوجسٹ کبھی بھی ایک انجنئیر کے برابر نہیں ہو سکتا۔حال آں کہ بطور ایک انجنئیر اور ٹیکنالوجسٹ ہم جانتے ہیں کہ تمام انجنئیرز کو جو یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو کر عملی طور پر جب فیلڈ میں اترتے ہیں تو تمام ٹیکنالوجسٹ ہی سب کے سب انجنئیرز کو تیار کرتے ہیں اور انھیں عملی طور پر انجنئیرنگ کے تمام گُر سکھاتے ہیں۔مگر بعد میں یہی انجنئیرز تمام ٹیکنالوجسٹس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انھیں کبھی بھی اپنے برابر نہیں سمجھتے۔
اگر ایک انجنئیر اور ایک ٹیکنالوجسٹ کے علم کی بات کریں تو یہاں ہمیں ان کے علم کا اندازہ لگانے کے لیے ان کے سلیبس پر نظر کرنی پڑے گی تاکہ اندازہ ہو سکے کہ صحیح معنوں میں زیادہ انجنئیرنگ اور ٹیکنالوجی سے متعلقہ تعلیم کے مضامین کون پڑھتا ہے۔ایک ٹیکنالوجسٹ بننے کے لیے آپ کو میٹرک کے بعد تین سال کا ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجنئیر کرنا پڑتا ہے اور اس ڈپلومے کے تین سال کے سلیبس پر نظر کریں تو تقریباً تیس کتابیں بنتی ہیں اور یہ تیس کتابوں کے علاوہ جو روز مرہ کا عملی کام(پریکٹیکل) ہے اس سے تین سال آپ کو ایک بھی دن فرصت نہیں ملتی۔اسی وجہ سے ایک تین سالہ ڈپلومے کا حامل شخص ایک سولہ سالہ انجنیئرنگ کا حامل شخص بھی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور عملی کام میں فیلڈ میں ان سے ہی سیکھ کر آگے بڑھتا ہے۔یہاں ایک بات اور بھی قابلِ غور ہے کہ تین سالہ ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجنئیرنگ کرنے کے بعد آپ ایک اچھی نوکر کے حصول کی کوشش کر سکتے ہیں اور دنیا بھر میں بہت سے انجنئیر صرف تین سالہ ڈپلومہ آف ایسوسی انجنئیر کے حامل ہیں۔
مگر جب دوسری طرف ایک انجنئیر کی تعلیم کا اندازہ لگائیں تو اسے پہلے ایف۔ایس۔سی پری انجنئیرنگ کرنی پڑتی ہے اور بعد میں چار سالہ انجنئیرنگ کی ڈگری کرنی پڑتی ہے۔اب یہیں سے دونوں کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے کہ چار سالہ انجنئیرنگ کی ڈگری سے پہلے ایک انجنئیر بالکل بھی انجنئیرنگ کی عملی تعلیم سے بے خبر ہوتا ہے اور وہ زیادہ سے زیادہ کالج کے اندر لیب میں کیمسٹری،فزکس اور بائیو کے وہ تجربات سیکھتا ہے جن کا انجنئیرنگ کی فیلڈ سے دوردور کا کوئی واسطہ ہی نہیں ہے اور وہ چارسالہ انجنئیرنگ میں وہ مضامین پڑھنا شروع کرتا ہے جو ایک ٹیکنالوجسٹ اپنی چارسالہ ٹیکنالوجی کی ڈگری(بی۔ٹیک آنرز) سے قبل ہی ڈپلومے میں پڑھ چکا ہوتا ہے اور پھر ایک ڈپلومہ ہولڈر ٹیکنالوجسٹ بننے کے لیے انھیں مضامین میں جدید اور اعلا تعلیم کو آگے بڑھاتا ہے اور ساتھ میں اور بھی کئی مضمون پڑھتا ہے۔
ہماری زندگی میں ایک ہی شعبے کے افراد اپنے ہم پیشہ و ہم شعبہ شخص سے ضرور حسد کرتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ دوسرے کو کم زور کر کے خود کو اسی شعبے میں مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے تمام افراد کے لیے احمد فراز نے کہا تھا:
اپنی محرومی کے احساس سے شرمندہ ہیں
خود نہیں رکھتے تو اوروں کے بجھاتے ہیں چراغ
میرے ایک دوست حافظ عباس علی(الیکٹریکل ٹیکنالوجسٹ) اکثر یہ کہا کرتے ہیں کہ سوائے نشئی حضرات کے کوئی بھی ہم پیشہ،ہم منصب،ہم شوق اور ہم شعبہ شخص دوسرے شخص کا خیال نہیں کرتا کیوں کہ نشئی پانچ ہوں اور سگریٹ ایک، تو پانچوں ایک ایک کش لگا لیں گے مگرکسی دوسرے نشئی کو محروم نہیں رکھیں گے۔مگر افسوس ہوتا ہے کہ ہم پڑھے لکھے ،عالم اور عاقل کہلانے والے لوگ ان نشئیوں سے بھی گئے گزرے ہو گئے ہیں۔
میرے دوست توقیر رانجھا( سول ٹیکنالوجسٹ) نے مجھے بتایا کہ ہم ٹیکنالوجسٹوں سے کیسا سوتیلے بچوںوالاسلوک ملکِ پاکستان میں ہورہا ہے۔ہم محنت بھی زیادہ کرتے ہیں،مضامین اور کتابیں بھی انجنئیروں سے زیادہ پڑھتے ہیں مگر حکومت ہمیشہ ہی انجنئیرز کے سامنے ہتھیار ڈالے ہوئے ہے۔ٹھیک ہے حکومت نے کچھ سالوں سے ٹیکنالجسٹوں کو ”ٹیکنالوجسٹ“نمبر عطا کرنے شروع کیے ہیں مگر کیا ان نمبروں سے ابھی تک ان ٹیکنالوجسٹوں کو وہ عزت اور نوکریاں مل رہی ہیں جو ایک پاکستان انجنئیرنگ کونسل سے ایک انجنئیر کو نمبر ملتا ہے اور وہ اس سے اپنے کیرئیر کا آغاز کرتا ہے۔
اس نئی حکومت سے ان تمام ٹیکنالوجسٹوں کو بہت امیدیں وابستہ تھیں مگر ابھی تک انھیں وہ حقوق نہیں مل سکے جو انھیں ملنے چاہییں تھے۔کئی دفعہ عدالتوں میں بھی اس کے فیصلے ہو چکے مگر تاحال تما م بی۔ٹیک آنرزا شخاص نظریں اٹھائے حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں اور اپنے بہتر مستقبل کے لیے کوئی بہترین نوید کے منتظر ہیں۔حکومت کو چاہیے کہ وہ ان تمام ٹیکنالوجسٹوں کے ضمن میں کوئی سنجیدہ قدم اٹھائیں اور ان کو بھی انجنئیرز کے برابر انجنئیر مانا جائے۔
میں آخرپہ یہ بتاتا چلوں کہ پڑھنے والے حضرات ضرور یہ جان لیں کہ میں نے بھی سولہ سالہ ٹیکنالوجسٹ کی ڈگری کی ہوئی ہے اور بی۔ٹیک آنرز (سول) کی ڈگری رکھتا ہوں۔یہ بتانا اس لیے ضروری تھا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ میں یہ سب کچھ کیسے جانتا ہوں۔یہ بات الگ ہے کہ بعد میں مَیں نے اردو تقابلی ادب میں پی۔ایچ۔ڈی کی۔اس لیے میں سمجھ سکتا ہوں کہ ان تمام ٹیکنالوجسٹوں نے کس کس قدردکھ اور مصائب جھیلے ہیں کہ غالب نے یونہی تو نہیں کہا تھا کہ:
کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.