شجر اداس ہیں

منگل 7 اپریل 2020

Waheed Anwar Zahir

وحیدر انور زاہر

چند دن پہلے ایک خبر نظر سے گزری اور پرانی یاد تازہ کر گئی۔ خبر کچھ یوں تھی کہ جاپان میں تحقیق ہوئی ہے کہ درختوں کے ساتھ وقت گزارنے ، آنکھیں بند کر کے ان کو بازووں میں بھرنے سے انسان کو سکون ملتا ہے، فشارخون میں بہتری آتی ہے، غصہ پیدا کرنے والے ہارمون کم ہوتے ہیں، اور قوتِ مد افعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر حضرات اپنے مریضوں کو ذہنی تناو سے نجات کے لیے جنگلوں یا درختوں میں جا کر وقت گزارنے کا مشورہ دیتے ہیں جسے tree hugging, forest bathing اور Eco-therapy کا نام دیاجاتا ہے۔


دنیا نت نئے تجربات اور تحقیقات کی آماجگاہ ہے۔جہان فانی میں اپنے حصے کا وقت گزارتے ہوئے بہت سارے علوم، مشاہدات و حقائق ایسے ہوتے ہیں جو چپکے سے عقل و دانش کے صحن میں اتر آتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہم ان کا مشاہدہ کرتے ہیں، ان پر یقین رکھتے ہیں لیکن ان کو اپنے آپ تک محدود رکھتے ہوئے چپکے سے زندگی کا سفر مکمل کر جاتے ہیں۔ایک ایسے ہی خیال، ایسے ہی مشاہدے کا تجربہ اوائل عمری میں ہوا جو بلواسطہ طور پر مندرجہ بالا تحقیق سے متعلق تھا۔


گاوں میں ہمارے گھر کے باہرایک پیپل کا درخت ہے۔۸۰کی دہائی میں منجھلے ماموں نے یہ درخت لگایا تھا جو رفتہ رفتہ اپنے قد میں اضافہ کرتا جا رہا تھا۔ پھر ان کو بسلسلہ کاروبار بلوچستان جانا پڑ گیا۔نئی جگہ اور کام زیادہ تھا۔نتیجتاً ڈیڑھ دو سال بعد ہی ان کا گاوں کا چکر لگتا۔جہاں دیدہ انسان تھے۔جن دنوں ان کے آنے کی خبر آتی ہم بچوں کے لیے وہ عید کے دن ہوا کرتے تھے۔

بلوچستان کے شہر تربت میں ایرانی اشیاء با آسانی دستیاب ہوا کرتی تھیں ۔ سب کے لیے ایرانی تحائف آیا کرتے تھے۔
قصہ مختصر یہ کہ جب وہ آتے تو رشتہ داروں سے ملنے ملانے کے بعد پہلی فرصت میں وہ با ہر گلی میں نکل کر پیپل کے پاس چلے جاتے۔ اس کے تنے پر محبت سے ہاتھ پھیرتے رہتے اور زیر لب درخت سے باتیں کرتے رہتے ۔میں اس وقت چھوٹا تھا۔وہ اکثر مجھے بتاتے کہ درخت بھی محسوسات رکھتے ہیں۔

یہ بھی محبت کو محسوس کرتے ہیں ،لمس سے خوش ہوتے ہیں اور خوش ہو کر زیادہ پھلتے پھولتے ہیں۔بالکل اسی طرح جیسے کوئی پالتو جانور۔ میں پاس کھڑا ہو کر سنتا اور دیکھتا رہتا اور پھر کھیل کود میں مصروف ہو جاتا۔
اسی طرح آٹھ دس سال کا عرصہ بیت گیا۔پیپل کا درخت بھی جوان ہوتا چلا گیا۔ہر گزرتے سال میں اس کا پھیلاو قابل دید ہوتا تھا۔بہار میں اسکی کونپلیں روزانہ انچوں کے حساب سے بڑھتی تھیں۔

گرمیوں میں اس کی گہری چھاوں میں ہم گھنٹوں کھیلا کرتے۔ پھر اس کے نیچے ایک برف کا ٹھیلا لگ گیا۔اور لوگوں کی آمدورفت اور بڑھ گئی۔جون جولائی کی گرم دوپہروں میں آتے جاتے مسافر، پھیری والے اس کے نیچے لگی چارپائیوں پر کچھ دیر سستاتے پیپل کی ٹھنڈی چھاوں کی تعریف کرتے، برف کے ٹھیلے سے ٹھنڈا پانی پیتے اور زادِ راہ لیتے۔ ہمارے محلے کے سارے بزرگ دوپہر ہوتے ہی اس کے نیچے ڈیرہ جما لیتے۔

شدید گرمی میں جب گھر کے کمرے بھی آگ برساتے تو ہم لوگ پیپل کی چھاوں میں آ بیٹھتے۔دوپہر سے شام تک ہماری آماجگاہ یا جاے پناہ یہی پیپل کی چھاوں ہوا کرتی۔بابے ایک دوسرے کے قصے مزے لے لے کر سناتے اور ہم سب ان باتوں سے محظوظ ہوا کرتے۔۔
پھر وقت پر لگا کر اڑنے لگا۔۲۰۰۲ میں ہم لوگ مستقل طور پر گاوں چھوڑ کر شہر منتقل ہو گئے۔ پہلے پڑھائی اور پھر کارِ روزگار میں زندگی یوں الجھتی چلی گئی کہ وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔

ماموں انتقال کر گئے۔ گاوں آنا جانا بہت کم ہو گیا ۔گزرنے والے مزید اٹھارہ سالوں نے سب کچھ بدل کے رکھ دیا۔
کچھ ماہ پہلے ایک فوتگی پر گاوں جانے کا اتفاق ہوا۔اب کی بار پیپل کو دیکھا تو میں حیران رہ گیا۔کیا یہ وہی پیپل تھا۔ نہیں بالکل نہیں۔ بہار زوروں پر تھی لیکن اس کی شاخیں مرجھائی ہوئی لگ رہی تھیں۔بڑے ٹہنوں کا پھیلاو بہت بے ترتیب ہو چکا تھا۔

شاخیں سکڑی سکڑی سی لگ رہی تھیں۔جگہ جگہ سے دھوپ چھن چھن کر آرہی تھی۔
اٹھارہ سالوں مین بہت کچھ بدل چکا تھا۔۔ ماموں کو فوت ہوئے پندرہ سال ہو گئے تھے۔برف کے ٹھیلے والا جہانِ فانی کو خیر آباد کہہ چکا تھا ۔وہ تمام بابے جو جون جولائی کی گرم دوپہریں اس پیپل کے نیچے بتایا کرتے تھے وہ سب کے سب فوت ہو چکے تھے۔گاوں میں کیبل لگ جانے کے بعد اب جوانوں کی دوپہریں ٹی وی یا موبائل کے ساتھ گزرنے لگ گئی تھیں۔

اب پیپل کے نیچے بیٹھنے والا کوئی بھی باقی نہ بچا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس کے نیچے کوئی چارپائی نہیں تھی۔ اب پھیری والوں کو ٹھندا پانی پلانے والا کوئی نہیں تھا۔ اس کی چھاوں میں بیٹھ کر اس کی تعریف کرنے والا کوئی نہ تھا۔ بابے اپنی قصوں سمیت کوچ کر چکے تھے۔ اب پیپل کے تنے پر ہاتھ پھیر کر اسکو شاباش دینے والا کوئی بھی نہ تھا۔ میں خود، جو اس کے ساتھ جوان ہوا تھا، اسکا ساتھ چھوڑ چکا تھا۔


یقیناً اسکی چھاوں کی تعریف کرنے والے، اسکے بزرگ اور بچپن کے ساتھی(میرے جیسے) بھی اس کے پاس نہیں تھے پس اس نے بھی سجنا سنورنا چھوڑ دیا تھا ، پھلنا پھولنا چھوڑ دیا تھا۔ گھنی چھاوں مہیا کرنا چھوڑ دیا تھا۔
 قارئین کرام ہم سب جانتے ہیں کہ آس، امید اور ساتھی، جب ساتھ چھوڑ جاتے ہیں تو انسان ذہنی طور پر مر تا چلاجاتا ہے۔ درخت بھی مخلوق ہیں، وہ بھی پیدا ہوتے ہیں وہ بھی مرتے ہیں۔

وہ بھی سانس لیتے ہیں، طریقہ کار مختلف ہو سکتا ہے لیکن ان کی زندہ ہونے میں کوئی انکار نہیں ہے۔ تحقیق نے بلا شبہ یہ ثابت کر دیا ہے کہ درختوں کا ساتھ انسان کو بہت سی بیماریوں سے نجات دلاتا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ تحقیق ابھی ادھوری ہے۔ اس میں ابھی انسانوں والا حصہ مکمل ہوا ہے درختوں کا حصہ ابھی باقی ہے۔
 اب کی بار میں نے طے کیا ہے کہ جب گاوں جانا ہو گا۔

تو میں نے اپنے اس دوست کو بہت وقت دینا ہے۔ اسے منانا ہے،تنے پر محبت سے ہاتھ پھیرنا ہے۔ اس سے بہت سی باتیں کرنی ہیں ا۔اسکی اداسی دور کرنی ہے۔اسے زندگی کی طرف لانے کی کوشش کرنی ہے۔
 قارئین کرام۔ یہاں ایک لمحے کے لیے رکیں اور سوچیں کہ کیا آپ نے بھی کبھی گھر کے آس پاس یا کہیں پر کوئی درخت لگایا تھا۔ اگر لگایا تھا تو کیا وہ اب بھی موجود ہے اور آپکے آس پاس ہے؟ یا آپ اسے دور چھوڑ کر آ چکے ہیں۔

اگر ایسا ہے تو پہلی فرصت میں اس کے پاس پہنچیں۔اس بار اس کو وقت دیں۔اس سے باتیں کریں۔اسکی تنہائی دور کریں ۔
 کیونکہ جس طرح درختوں کے بیچ میں بیٹھنے، ان کو گلے لگانے سے انسان کا فشار خون بہتر اور دل کی بیماریوں میں شفا ملتی ہے اسی طرح انسان کا وجود درختوں کو بھی زندہ رہنے کی امنگ، اور حوصلہ دیتا ہے اور انکی زندگی کو جلا بخشتا ہو گا۔


 مجھے یقین ہے کہ آنے والے دور میں جب کبھی یہ ادھوری تحقیق مکمل ہو گی تو انسان حیران ہو جائے گا کہ درخت بھی اداس اور خوش ہو تے ہیں۔خصوصا انسانوں کے ہاتھوں سے لگنے والے پالتو درخت۔تنہائی اور جدائی ان کو بھی اسی طرح دکھی کرتی ہے جس طرح انسانوں کو۔ اور یہ کہ درختوں کو بھی انسان کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی انسان کو درختوں کی۔ آخرکار یہ ازل سے انسان کے ساتھی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :