
موت
جمعرات 2 اپریل 2020

وحیدر انور زاہر
ہمارے ملک میں خبریں بانٹنے والے بے شمار چینل ہیں۔ملک کے کونے کونے سے خبر منٹوں میں ہم تک پہنچ جاتی ہے۔ اگر آپ خبروں سے لگاو رکھتے ہیں تو جانتے ہونگے کہ وطن عزیز میں روزانہ دس سے بیس اموات ہوجاتی ہیں۔زیادہ تر اموات حادثاتی ہوتی ہیں۔المیہ یہ ہے کہ اب ہمارے لیے یہ اموات کی خبریں معمول کا حصہ ہو گئیں ہیں۔ہم بے حس ہو گئے ہیں۔
قارئین کرام بے شک موت ایک اٹل حقیقت ہے۔لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ موت کیا ہے؟مرنا دراصل کیا ہے؟مرنے والے پیچھے کیا اور کن کو چھوڑ جاتے ہیں۔مرنے والا بذات خود اپنا کیا نشان چھوڑتا ہے؟اور موت زندہ رہ جانے والوں پر کیا اثرات چھوڑتی ہے؟
موت زندگی کا سب سے بڑا دکھ ہے۔ قدرتی طور پر کسی دوسرے کی موت غیر متعلقہ اشخاص پر اتنا اثر نہیں ڈالتی جتنا قریبی رشتوں پر ہوتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ مرنے والا تو انجانے دیسوں کو سدھار جاتا ہے لیکن پیچھے رہ جانے والوں کو نہ ختم ہونے والا دکھ دے جاتا ہے۔
کبھی سوچیں تو آپ حیران رہ جائیں گے۔کہ جب کوئی مرجاتا ہے تو اسکی میت وہ آخری اثاثہ ہوتی ہے جو اس کے دنیا میں آنے کی دلیل ہے۔اور یہ دلیل اور ثبوت بھی اگلے ۱۰ سے ۱۲ گھنٹوں میں ختم ہونے جا رہا ہوتا ہے۔ آپ کے سارے تعلق، سارے رشتے جو مرنے والے کی زندگی کے ساتھ جڑے تھے ،منوں مٹی تلے دفن ہو نے جا رہے ہوتے ہیں۔ قبر صرف مرنے والے کی قبر نہیں ہوتی بلکہ اسکی ساری محنت، ساری محبت، ساری نفرت ،ساری زندگی کی بھی قبر ہوتی ہے۔ اور پھر قبر وہ آخری نشان رہ جاتا ہے جو دلیل دیتا ہے کہ آپ کبھی اس دنیا میں آئے تھے،یہاں قیام پذیر رہے تھے، اس کے علاوہ کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں۔
یہاں پر یہ دلیل قابل غور ہو سکتی ہے کہ نامور لوگ اپنی تخلیق ،اپنے فن کے بل بوتے پر اپنا نام امر کر جاتے ہیں۔ دنیا ان کو یاد رکھتی ہے۔انکی سالگرہ و برسی مناتی ہے۔ان پر پروگرام مرتب کئیے جاتے ہیں اور اس طرح وہ لوگ معاشرے میں دیر تک لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ نامور لوگ بھی یاد تو کیے جا سکتے ہیں، محسوس نہیں کیے جا سکتے۔اسی طرح ہمارے ماں باپ بہن بھائی بیوی بچے جو ہم سے دائمی رخصت لے جاتے ہیں، یاد تو کیے جاسکتے ہیں محسوس نہیں کیے جا سکتے۔احساس وہ حس ہے جو ہمیں زندہ اور مرجانے والوں کے درمیاں فرق بتاتی ہے۔ زندہ لوگوں کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ لمس ایک ایسی حقیقت ہے جو زندگی کا احساس دلاتی ہے۔ ہم جن رشتوں سے جڑے ہوتے ہیں ،انکے درمیان رہتے ہیں،ان سے بات کرتے ہیں،انکو دیکھتے ہیں، ان سے لڑتے ہیں،جھگڑتے ہیں اور اس طرح سے زندگی کو محسوس کرتے ہوئے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔موت ہم سے یہ سارا طبعی تعلق چھین کر لے جاتی ہے۔مرجانے والے کا گھر تو ہوتا ہے،وہ خود نہیں ہوتا۔اس کی گاڑی،بنگلہ،بینک بیلنس اور جائداد تو ہوتی ہے،وہ نہیں ہوتا۔
ان ساری باتوں میں جو سب سے بڑی دکھ کی بات ہے جس پر ہم توجہ نہیں دیتے، وہ یہ ہے کہ اب ازل سے لے کر ابد تک اس انسان نے آپ کے پاس نہیں آنا، آپ سے نہیں ملنا،آپ سے بات نہیں کرنی، آپ کی بات نہیں سننی، آپ سے ناراض نہیں ہونا اور آپ کو کبھی نہیں منانا۔ اگر سوچا جائے تو یہ اتنے دکھ کی بات ہے جس کے تصور سے ہی انسان کانپ جائے۔ ذرا غور کریں کہ جس کے ساتھ آپ نے زندگی کے بہتریں دن گزارے ہیں، جس نے آپکو اپنی زندگی کا حسین تریں وقت دیا ہے۔جس نے آپ کے دکھ درد،اور مصیبتوں مین آپ کا ساتھ دیا ہے۔ وہ مر گیا ہے ،وہ دنیا سے چلا گیا ہے، جب اس کو دفن کر دیا جائے گا،تو وہ دنیا سے اس طرح اوجھل ہو جائے گا ازل سے لے کر ابد تک دوبارہ دکھائی نہیں دے گا۔
آپ پکارو گے تو پکارتے رہ جاو گے،۔
جانے والا نہیں آے گا۔
کبھی نہیں آئے گا، کبھی بھی نہیں آئے گا۔
ساری زندگی نہیں آے گا۔
محسوس کرنے لگو گے تو محسوس بھی نہیں ہو گا۔
وہ سارے جذبے،وہ سارے تعلق، وہ سارے گلے شکوے جو اسکے وجود کے ہونے سے ہوتے تھے وہ سب بھی ختم۔اور سب سے بڑھ کر اس کے وجود کا احساس،بصری احساس،سمعی احساس اور عظیم لمسی احساس بھی ختم۔
قاریئن کرام جب انسان وجود میں آتا ہے تو دنیا مین آنے کے بعد زندگی کا سب سے پہلا اورپیارا لمس ماں کے وجود کا لمس ہے۔اس لمس کی خوشبو ساری زندگی نہیں جاتی۔اسی طرح باقی تمام رشتوں کی بھی اپنی اپنی خوشبو ہے جو ہمیں تمام عمر معطر کیے رکھتی ہے۔جب تک یہ وجود زندہ رہتے ہیں ،ساتھ رہتے ہیں یا ملتے رہتے ہیں،یہ خوشبو دوچند رہتی ہے۔بلکہ یہ وجودی خوشبو ان کے ہونے کے احساس کو تازہ دم کرتی رہتی ہے۔لیکن موت۔۔۔۔۔موت اس احساس کو چھین کر لے جاتی ہے۔اب یہ وجودی خوشبو یاداشت میں تو پڑی رہے گی۔لیکن المیہ یہ ہو گا کہ یاد کرنی پڑا کرے گی یا یاد میں آیا کرے گی۔ ان کے وجود کی موجودگی کو تازہ دم نہیں کر سکے گی،کبھی بھی نہیں کر سکے گی۔
صاحبان وقت، یاد رکھیں کہ یاد کبھی بھی احساس کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔لمس کو یاد تو کیا جا سکتا ہے، محسوس نہیں کیا جا سکتا۔
احساس یا محسوسات زندگی کا اور یاد دوری یا موت کھیل ہے۔
احساس وصال ہے اور یاد فراق ہے
موت ایک اٹل حقیقت ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔یہ انسان کی دسترس میں نہیں۔البتہ دو چیزیں انسان کی دسترس میں ہیں، احساس اور یاد۔۔۔۔۔۔۔۔آج آپ سوچ لیں کہ دونوں چیزوں کا بروقت استعمال کریں گے۔زندگی دوبارہ کبھی نہیں ملے گی، جانے والے نے کبھی واپس نہیں آنا۔جتنی آپکی اور آپکے رشتوں کی زندگی ہے۔اس میں احساس کو شامل کر لیں۔ کوشش کر کے ہر اس احساس کو شامل کر لیں جس نے کل کو یاد بننا ہے۔
موجودہ وقت کی بے احساسی آنے والے کل میں پچھتاوں کو یاد بنادے گی،جبکہ آج کی احساس داری آنے والے کل میں خوشگوار یاد کو جنم دے گی۔
یاد رکھیں کہ یاد موت اور احساس زندگی ہے۔
قارئین کرام بے شک موت ایک اٹل حقیقت ہے۔لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ موت کیا ہے؟مرنا دراصل کیا ہے؟مرنے والے پیچھے کیا اور کن کو چھوڑ جاتے ہیں۔مرنے والا بذات خود اپنا کیا نشان چھوڑتا ہے؟اور موت زندہ رہ جانے والوں پر کیا اثرات چھوڑتی ہے؟
موت زندگی کا سب سے بڑا دکھ ہے۔ قدرتی طور پر کسی دوسرے کی موت غیر متعلقہ اشخاص پر اتنا اثر نہیں ڈالتی جتنا قریبی رشتوں پر ہوتا ہے۔
(جاری ہے)
کبھی سوچیں تو آپ حیران رہ جائیں گے۔کہ جب کوئی مرجاتا ہے تو اسکی میت وہ آخری اثاثہ ہوتی ہے جو اس کے دنیا میں آنے کی دلیل ہے۔اور یہ دلیل اور ثبوت بھی اگلے ۱۰ سے ۱۲ گھنٹوں میں ختم ہونے جا رہا ہوتا ہے۔ آپ کے سارے تعلق، سارے رشتے جو مرنے والے کی زندگی کے ساتھ جڑے تھے ،منوں مٹی تلے دفن ہو نے جا رہے ہوتے ہیں۔ قبر صرف مرنے والے کی قبر نہیں ہوتی بلکہ اسکی ساری محنت، ساری محبت، ساری نفرت ،ساری زندگی کی بھی قبر ہوتی ہے۔ اور پھر قبر وہ آخری نشان رہ جاتا ہے جو دلیل دیتا ہے کہ آپ کبھی اس دنیا میں آئے تھے،یہاں قیام پذیر رہے تھے، اس کے علاوہ کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں۔
یہاں پر یہ دلیل قابل غور ہو سکتی ہے کہ نامور لوگ اپنی تخلیق ،اپنے فن کے بل بوتے پر اپنا نام امر کر جاتے ہیں۔ دنیا ان کو یاد رکھتی ہے۔انکی سالگرہ و برسی مناتی ہے۔ان پر پروگرام مرتب کئیے جاتے ہیں اور اس طرح وہ لوگ معاشرے میں دیر تک لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ نامور لوگ بھی یاد تو کیے جا سکتے ہیں، محسوس نہیں کیے جا سکتے۔اسی طرح ہمارے ماں باپ بہن بھائی بیوی بچے جو ہم سے دائمی رخصت لے جاتے ہیں، یاد تو کیے جاسکتے ہیں محسوس نہیں کیے جا سکتے۔احساس وہ حس ہے جو ہمیں زندہ اور مرجانے والوں کے درمیاں فرق بتاتی ہے۔ زندہ لوگوں کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ لمس ایک ایسی حقیقت ہے جو زندگی کا احساس دلاتی ہے۔ ہم جن رشتوں سے جڑے ہوتے ہیں ،انکے درمیان رہتے ہیں،ان سے بات کرتے ہیں،انکو دیکھتے ہیں، ان سے لڑتے ہیں،جھگڑتے ہیں اور اس طرح سے زندگی کو محسوس کرتے ہوئے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔موت ہم سے یہ سارا طبعی تعلق چھین کر لے جاتی ہے۔مرجانے والے کا گھر تو ہوتا ہے،وہ خود نہیں ہوتا۔اس کی گاڑی،بنگلہ،بینک بیلنس اور جائداد تو ہوتی ہے،وہ نہیں ہوتا۔
ان ساری باتوں میں جو سب سے بڑی دکھ کی بات ہے جس پر ہم توجہ نہیں دیتے، وہ یہ ہے کہ اب ازل سے لے کر ابد تک اس انسان نے آپ کے پاس نہیں آنا، آپ سے نہیں ملنا،آپ سے بات نہیں کرنی، آپ کی بات نہیں سننی، آپ سے ناراض نہیں ہونا اور آپ کو کبھی نہیں منانا۔ اگر سوچا جائے تو یہ اتنے دکھ کی بات ہے جس کے تصور سے ہی انسان کانپ جائے۔ ذرا غور کریں کہ جس کے ساتھ آپ نے زندگی کے بہتریں دن گزارے ہیں، جس نے آپکو اپنی زندگی کا حسین تریں وقت دیا ہے۔جس نے آپ کے دکھ درد،اور مصیبتوں مین آپ کا ساتھ دیا ہے۔ وہ مر گیا ہے ،وہ دنیا سے چلا گیا ہے، جب اس کو دفن کر دیا جائے گا،تو وہ دنیا سے اس طرح اوجھل ہو جائے گا ازل سے لے کر ابد تک دوبارہ دکھائی نہیں دے گا۔
آپ پکارو گے تو پکارتے رہ جاو گے،۔
جانے والا نہیں آے گا۔
کبھی نہیں آئے گا، کبھی بھی نہیں آئے گا۔
ساری زندگی نہیں آے گا۔
محسوس کرنے لگو گے تو محسوس بھی نہیں ہو گا۔
وہ سارے جذبے،وہ سارے تعلق، وہ سارے گلے شکوے جو اسکے وجود کے ہونے سے ہوتے تھے وہ سب بھی ختم۔اور سب سے بڑھ کر اس کے وجود کا احساس،بصری احساس،سمعی احساس اور عظیم لمسی احساس بھی ختم۔
قاریئن کرام جب انسان وجود میں آتا ہے تو دنیا مین آنے کے بعد زندگی کا سب سے پہلا اورپیارا لمس ماں کے وجود کا لمس ہے۔اس لمس کی خوشبو ساری زندگی نہیں جاتی۔اسی طرح باقی تمام رشتوں کی بھی اپنی اپنی خوشبو ہے جو ہمیں تمام عمر معطر کیے رکھتی ہے۔جب تک یہ وجود زندہ رہتے ہیں ،ساتھ رہتے ہیں یا ملتے رہتے ہیں،یہ خوشبو دوچند رہتی ہے۔بلکہ یہ وجودی خوشبو ان کے ہونے کے احساس کو تازہ دم کرتی رہتی ہے۔لیکن موت۔۔۔۔۔موت اس احساس کو چھین کر لے جاتی ہے۔اب یہ وجودی خوشبو یاداشت میں تو پڑی رہے گی۔لیکن المیہ یہ ہو گا کہ یاد کرنی پڑا کرے گی یا یاد میں آیا کرے گی۔ ان کے وجود کی موجودگی کو تازہ دم نہیں کر سکے گی،کبھی بھی نہیں کر سکے گی۔
صاحبان وقت، یاد رکھیں کہ یاد کبھی بھی احساس کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔لمس کو یاد تو کیا جا سکتا ہے، محسوس نہیں کیا جا سکتا۔
احساس یا محسوسات زندگی کا اور یاد دوری یا موت کھیل ہے۔
احساس وصال ہے اور یاد فراق ہے
موت ایک اٹل حقیقت ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔یہ انسان کی دسترس میں نہیں۔البتہ دو چیزیں انسان کی دسترس میں ہیں، احساس اور یاد۔۔۔۔۔۔۔۔آج آپ سوچ لیں کہ دونوں چیزوں کا بروقت استعمال کریں گے۔زندگی دوبارہ کبھی نہیں ملے گی، جانے والے نے کبھی واپس نہیں آنا۔جتنی آپکی اور آپکے رشتوں کی زندگی ہے۔اس میں احساس کو شامل کر لیں۔ کوشش کر کے ہر اس احساس کو شامل کر لیں جس نے کل کو یاد بننا ہے۔
موجودہ وقت کی بے احساسی آنے والے کل میں پچھتاوں کو یاد بنادے گی،جبکہ آج کی احساس داری آنے والے کل میں خوشگوار یاد کو جنم دے گی۔
یاد رکھیں کہ یاد موت اور احساس زندگی ہے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ABOUT US
Our Network
Who We Are
Site Links: Ramadan 2025 - Education - Urdu News - Breaking News - English News - PSL 2024 - Live Tv Channels - Urdu Horoscope - Horoscope in Urdu - Muslim Names in Urdu - Urdu Poetry - Love Poetry - Sad Poetry - Prize Bond - Mobile Prices in Pakistan - Train Timings - English to Urdu - Big Ticket - Translate English to Urdu - Ramadan Calendar - Prayer Times - DDF Raffle - SMS messages - Islamic Calendar - Events - Today Islamic Date - Travel - UAE Raffles - Flight Timings - Travel Guide - Prize Bond Schedule - Arabic News - Urdu Cooking Recipes - Directory - Pakistan Results - Past Papers - BISE - Schools in Pakistan - Academies & Tuition Centers - Car Prices - Bikes Prices
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.