
2025ء کا پاکستان
جمعرات 7 مئی 2015

ذبیح اللہ بلگن
(جاری ہے)
سب سے پہلے انڈونیشیا کی با ت کرتے ہیں انڈو نیشیا نے 1945میں ہالینڈ سے آزادی حاصل کی تھی۔ انڈونیشیا کی آبادی چھبیس لاکھ سے متجاوز ہے اس آبادی میں 89فیصد مسلمان جبکہ محض 11فیصد دیگر مذاہب شامل ہیں۔ اس ملک میں مسجد کی دائیں جانب شراب کی دوکانیں، بائیں جانب جسم فروش خواتین کا اڈا اوربلمقابل چرچ کا ہونا واجبی سے بات ہے ۔انڈونیشیاکے سب بڑے شہر جکارتہ میں تعمیر شدہ سب سے قدیم اور وسیع مسجد ،مسجد استقلال ہے ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ انڈونیشین حکمرانوں نے انڈونیشیا کا سافٹ امیج ظاہر کرنے کیلئے اس مسجد کے عین سامنے مسجد ہی کے برابر وسیع چرچ تعمیر کیا ۔ مارچ 2015 ء سے قبل شراب گلی محلوں کی دوکانوں سے بآسانی دستیاب تھی ۔ تقریباََ تمام پوش علاقوں میں نائٹ کلب موجود ہیں جہاں شراب نوشی اور ڈسکو ڈانس روزانہ کامعمول ہے ۔ انڈونیشیا میں مسجد کے خطیب کیلئے باریش ہونا لازمی نہیں ہے ۔خواتین حجاب ضرور اوڑھتی ہیں تاہم یہ مذہب سے زیادہ ثقافتی مسئلہ ہے ۔ انڈونیشیا میں جہاد اور قتال سے متعلق لٹریچر پر سخت پابندی عائد ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ مذہب اسلام کو مکمل تحفظ بھی حاصل ہے یہاں مدارس کی بہتات ہے اور دینی تعلیم کے حصول کی مکمل آزادی ہے ۔انڈونیشیا کے حوالے سے یوں سمجھ لیجئے کہ یہاں جس کا دل چاہے اسلامی شعار کو اختیار کرے اور جو چاہے اسلامی شعار سے بے اعتنائی اختیار کرے دونوں طرح کے لوگوں کو مکمل آزادی ہے ۔ اندونیشیا سے متصل ملائیشیا کا حال انڈونیشیا سے بھی جدید ہے ۔ یہاں میں عرض کر دوں کہ ملائیشیا میں اسلام کو بہت زیادہ تحفظ اور آزادی حاصل ہے اس کے ساتھ ساتھ یہی آزادی ہندؤں اور چائنیز اور دیگر شہریوں کو بھی حاصل ہے ۔ ملائیشیا میں بیک وقت بادشاہت اور جمہوریت قائم ہے ۔اکثر مشاہدے میں آیا ہے کہ بادشاہ اسلام کی بقا اور ترویج کیلئے کوشاں ہوتا ہے جبکہ جمہوری حکومت جدت اختیار کرتے ہوئے اپنے معاشرے اور شہروں کو بین الاقوامی معیار پر لانا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کوالالمپور میں ڈسکو کلب اور قبحہ خانوں کو ہر قسم کی آزادی اور تحفظ حاصل ہے جبکہ بادشاہ کی قائم کردہ سیکیورٹی فورس کا کام ان شراب خانوں اور قبحہ خانوں سے مقامی مسلمانوں کو مستفید ہونے سے روکنا ہے ۔ ملائیشیا میں ایک ہی وقت پر اذان اور نماز ہوتی ہے ۔ کوالالمپور کے علاوہ بعض صوبوں میں اسلامی نظام نافذ ہے اوروہاں شراب پر پابندی عائد ہے ۔ ملائیشیا میں مذہبی تعلیم کیلئے مدارس کا جال بچھا ہوا ہے ۔ ملائیشیا کے بارے میں یہ سمجھ لیجئے کہ یہاں بھی ہر کسی کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے ۔ اگر ہم مڈل ایسٹ کے بعض اسلامی ممالک کو دیکھتے ہیں تو ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ بعض میں شراب فروشی پر پابندی جبکہ بعض کی معیشت شراب فروشی پر انحصار کئے ہوئے ہے ۔دوبئی میں ڈانس کلب اور شراب خانو ں کی بہتات ہے جبکہ ابو ظہبی میں شراب فروشی پر پابندی عائد ہے ۔ شارجہ میں شراب فروشی منع ہے جبکہ اجمان اور رائس الخیمہ میں جگہ جگہ شراب کی دوکانیں موجود ہیں ۔ مسقط میں بڑے بڑے ہوٹلوں میں شراب آسانی سے دستیاب ہوتی ہے تاہم ان ہوٹلوں کو یہ ہدایات دی گئی ہیں کہ شراب ہوٹل کی اندر پینے کیلئے دی جائے نہ کی ساتھ لیجانے کیلئے ۔ لبنان اور قطر کا بھی یہی حال ہے یہاں بھی شراب نوشی پر آزادی ہے اور مساجد اور مدارس پر مکمل حکومتی کنٹرول ہے ۔ مشرق وسطیٰ کے اسلامی ممالک میں بھی یہی صورتحال ہے ۔ یہاں بھی مذہب اورجدت ساتھ ساتھ چل رہے ہیں بلکہ بعض ممالک میں اسلام اور اسلام پسندوں کو دبا کر رکھا گیا ہے اور ماڈرن ازم کو ملکی تشخص قرار دیا گیا ہے ۔
اب واپس پاکستان کی طرف آتے ہیں ۔پاکستان میں کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے ۔ وزارت داخلہ کے اعداد وشمار کے مطابق سانحہ پشاور کے بعد اب تک 19000ایسے افراد کو حراست میں لیا گیا ہے جن کا تعلق کسی بھی مذہبی کالعدم تنظیم سے تھا ۔مساجد کے الاؤڈ سپیکروں کیلئے نئے ضابطے کا اعلان ہونے کے بعد اس پر عملدرآمد کو یقینی بنا لیا گیا ہے ۔ مذہبی نوعیت کی وال چاکنگ پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔ مذہبی انتہا پسندانہ لٹریچر کو مارکیٹ سے اٹھا لیا گیا ہے اور مزید کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔ پیر عبدلقادر جیلانی کی کتاب ”غنیة الطالبین“سمیت 120مذہبی کتابوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔تادم تحریر وفاقی محکمہ تعلیم کے تحت 18000 مدارس کی رجسٹریشن مکمل کر لی گئی ہے جبکہ باقی بچ جانے والے مدارس کی رجسٹریشن کا عمل جاری ہے ۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک خوش آئند تبدیلی رونما ہوئی ہے کہ اسلام آباد میں نظام صلاة کے تحت تمام مکاتب فکر کیلئے اذان اور نماز کا وقت یکساں کر دیا گیا ہے ۔ جہاد اور قتال کا عمل تو درکنار ان پر بات کرنے اور اظہار خیال کرنے پر بھی سخت قوانین وجود میں آچکے ہیں ۔ اب دوسری جانب دیکھئے وزارت داخلہ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کیلئے نوٹیفکیشن جاری کیا ہے کہ ہر شہری کو ایک بوتل شراب ساتھ لے کر چلنے کی اجازت ہے ۔اسی طرح صوبہ سندھ میں شراب نوشوں اور شراب فروشوں کو غیر علانیہ اجازت حاصل ہے ۔ کوئٹہ میں موجود انڈس بیوری کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم جتنی شراب تیار کرتے وہ تمام بلوچستان میں ہی فروخت ہوتی ہے ۔ صوبائی دارلحکومت لاہور میں مبینہ طور پر پولیس کو ہدایات دی گئی ہیں کہ پارکوں اور سیر گاہوں میں موج مستی کرنے والے مرد و خواتین کو ہراساں نہ کیا جائے ۔ یہی حال کراچی اور اسلام آباد کا ہے ۔ نجانے کیوں مجھے گمان گزرا ہے کہ 2020ء اور 2025کے درمیانی عرصہ میں پاکستان بھی انڈونیشیا،ملائیشیااور دیگر اسلامی ممالک کی طرح روشن خیال اور “اعتدال پسند“ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
ذبیح اللہ بلگن کے کالمز
-
پاک بھارت کشیدگی
بدھ 28 ستمبر 2016
-
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
اتوار 12 جون 2016
-
مطیع الرحمان نظامی،،سلام تم پر
جمعہ 13 مئی 2016
-
مودی کی “اچانک “پاکستان آمد
اتوار 27 دسمبر 2015
-
بھارت اور امریکہ نے مشرقی پاکستان میں کیا کھیل کھیلا ؟
ہفتہ 5 دسمبر 2015
-
نریندر مودی کا دورہ کشمیر
پیر 9 نومبر 2015
-
مظفر گڑھ کی سونیا اور لاہور کا عابد رشید
جمعہ 16 اکتوبر 2015
-
میں اور میرا بکرا
جمعرات 24 ستمبر 2015
ذبیح اللہ بلگن کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.