نوجوان نسل کی بقا سے سماجی تعمیر ممکن

منگل 2 جون 2015

Zabeeh Ullah Balghan

ذبیح اللہ بلگن

سماج کی تعمیر کیا ہوتی ہے ؟۔ممکن ہے اس سوال کے کئی جوابات ہوں ۔ دراصل ہر کسی کے نزدیک سماجی تعمیر کے معنی الگ الگ ہیں تاہم بین الاقوامی سطح پر اہل دانش کے ہاں سماج کی تعمیر کامطلب مثبت اقدار ، قومی ثقافت اوراہل وطن کی مجموعی اخلاقیات ہیں ۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سماجی تعمیر کا عمل مفقود ہو چکا ہے ۔ دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود ریاست کا جائزہ لینے سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ معاشرے کی تعمیر اور اقدار کی ترویج کیلئے نوجوان نسل کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے ۔

یہ تھرڈ ورلڈ کنٹریز کا مسئلہ ہے کہ ان ممالک میں موجودہ مسائل کے حل اور مستقبل کے تحفظ کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی مرتب نہیں کی جاتی۔ اسی طرح ان ممالک میں نوجوان نسل کی صلاحیتوں کے اجاگر کرنے کیلئے حکومتی سطح پر خاطر خواہ انتظام بھی نہیں کیا جاتا ۔

(جاری ہے)

ہماری نوجوان نسل کا حال یہ ہے کہ انٹر نیٹ نے اس نسل کو سست اور کاہل بنا دیا ہے ۔ اہل مغرب اسی انٹر نیٹ کو استعمال کر کے افق کی بلندیوں تک جا پہنچے ہیں جبکہ ہماری نوجوان نسل نے اس انٹر نیٹ کو محض فیس بک اور یوٹیوب تک محدود کر دیا ہے ۔

یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ انفار میشن ٹیکنالوجی کی وفاقی وزارت کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ ہماری نوجوان نسل اس انٹر نیٹ کے ذریعے گمراہی کی کن اتھا گہرائیوں میں گرتی جارہی ہے ۔اگرچہ اس جدید ایجاد سے متعدد مثبت فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں اور کئے بھی جا رہے ہیں ۔ تاہم منفی اثرات مثبت پر غالب آگئے ہیں اور اب یہ سہولت کمپیوٹروں سے نکل کر موبائل فونز میں آن بسی ہے ۔

جی تھری اورفور تھری پیکج نے نوجوانوں کو کمپیوٹر سے بے نیاز کر دیا ہے ۔ اب وہ بستر میں گھس کر اورسر پر کمبل اوڑھ کر وہ سب کچھ کرتے ہیں جو گھر والوں کے سامنے کمپیوٹر پر نہیں کیا جاسکتا تھا ۔جہاں تک ہمارے تعلیم اداروں کی صورتحال ہے اس حوالے سے بھی افسوس کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے ۔ملک بھر میں غیر سرکاری اور سرکاری سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیز کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے جبکہ اس نیٹ ورک پر حکومت کی کوئی گرفت نہیں ہے ۔

ان تعلیمی اداروں میں غیر نصابی پروگراموں کے نام پر نوجوان نسل کو جو کچھ سکھایا جا رہا ہے اس سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ ان اداروں سے مستقبل کے دانشور اور ادیب پیدا ہوں گے بلکہ اخلاقیات سے عاری ان پروگراموں کے نتیجے میں رومانوی داستانوں کے ہیروز پیدا ہو رہے ہیں۔تعلیمی ادارے واحد موثر ذریعہ ہیں جن سے نوجوان نسل کی مثبت تعمیر ممکن ہے تاہم ہمارے تعلیمی ادارے یہ سب کرنے میں یکسر ناکام ثابت ہوئے ہیں ۔

بلکہ یہ تعلیمی ادارے کلچرل پروگراموں کے نام پر بے حیائی پھیلانے میں سرگرم عمل ہیں ۔ اسی طرح دنیا بھر میں ٹیلی ویژن کے ذریعے قوم اور نوجوان نسل کواقدار ،قومی ثقافت اور اخلاقیات سے روشناس کروایا جاتا ہے اس کے برعکس ہمارے ہاں پرائیوٹ ٹی وی چینلز کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے کہ وہ جو چاہیں نشر کریں ۔ الیکٹرانک میڈیا کیلئے ضابطہ اخلاق مرتب کرنے والا قومی ادارہ پیمرا جس کا کام پرائیوٹ ٹی وی چینلز کیلئے حدود و قیود کا تعین کرنا ہوتا ہے ،تب تک حرکت میں نہیں آتا جب تک وزارت اطلاعات و نشریات، عدلیہ یا عسکری اداروں کی جانب سے اس کی سرزنش نہ کی جائے ۔

حالانکہ ان پرائیوٹ ٹی وی چینلز کیلئے ضابطہ اخلاق بنانا چاہئے تھا جس کے تحت ان ٹی وی چینلز کو پابند کیا جاتا کہ وہ خواتین ،بچوں اور نوجوان نسل کے معاملے میں ایک خاص حد سے تجاوز نہیں کریں گے ۔ٹی وی کے بعد یہی حال ہماری فلم انڈسٹری کا بھی ہے اگرچہ فلموں پر نگاہ رکھنے کیلئے سنسر بورڈقائم ہے تاہم فلم انڈسٹری کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے گمان گزرتا ہے کہ فلم انڈسٹری شتر بے مہارکی عملی تصویر بنی ہوئی ہے ۔

پاکستان میں بے مقصد فلمیں بنا کر نوجوان نسل کو بدمعاشی اور غنڈہ گردی کی تعلیم دی جا رہی ہے۔پاکستانی فلم انڈسٹری کو تو ایک طرف رکھئے اب تو پاکستانی سینما گھروں میں بھارتی فلموں کی نمائش جاری ہے جو ہماری نوجوان نسل کو بھارتی تہذیب کا دلدادا بنا رہی ہے ۔
مندرجہ بالا گفتگو کا مقصد حکومت پاکستان کی توجہ اس جانب مبذول کروانا ہے کہ اگر ہم نے آج اپنی نوجوان نسل کو تعمیر کا ذمہ نہ اٹھایا تو پھر اخلاقیات سے مزین سماج کی تعمیر بھی ممکن نہیں ہوگی۔

معاشروں کی تعمیر وترقی شاہراؤں اور عمارتوں کی جدت سے نہیں ہوا کرتی بلکہ اس کیلئے موجودہ نسل کے مزاج کو اصولوں اور اخلاقیات کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے ۔ سڑکیں اور عمارتیں تو بن جائیں گی مگر ایسی سڑکوں کو بد خوبصورتی سے کون محفوظ رکھے گا جس پر سفر کرنے والے اس پر ہر قسم کی گندگی پھیلاتے رہیں .ان سڑکوں پر ٹریفک کے اصولوں کے منافی ڈرائیونگ کریں اور ٹریفک احکامات کو درخور اعتنا نہ جانیں۔

جگہ جگہ سے شاہراؤں کو کاٹ کر یوٹرن بنا لیے جائیں ، چوک وچوراہے مچھلی منڈی کا منظر پیش کریں تو کیا سڑک کی تعمیر سے خوبصورت معاشرہ وجود میں آسکتا ہے ؟۔اسی طرح آپ فلک بوس عمارتیں بنا ڈالیں مگر ان عمارتوں میں رشوت ، دھاندلی اور بدعنوانی کا بازار گرم ہو تو کیا ایسی عمارتیں کسی مہذب معاشرے کا عکس ثابت ہو سکتی ہیں؟۔ معاشرے کی خوبصورتی اخلاقیات سے مزین افراد سے تشکیل پاتی ہے ۔

اور انسانوں کی خوبصورت ان کی عادت و اطور ہوتی ہیں ۔ یہاں قابل زکر بات یہ ہے کہ انسان کی عادت واطوار ایک دم سے وجود میں نہیں آجاتیں بلکہ اس کیلئے اس نسل کی تعمیر کرنا پڑتی ہے جو ابھی سکول کے پرائمری لیول پر ہو ۔ ہم اپنی نوجوان نسل کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں ۔ اس کا حال ا وپر بیان کیا جا چکاہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنے وسائل کا خاطر خواہ حصہ نئی نسل کیلئے مختص کرے اور ان میں مثبت اقدار پیدا کرنے کیلئے منصوبہ بندی کی جائے ۔

یقین جانئے اگر ہم نے آج اپنی نوجوان نسل کو بچا لیا اور انہیں اچھا پاکستانی اور اچھا مسلمان بنا لیا تو مستقبل میں رشوت خوری، بدعنوانی، قتل وغارت گری ، دہشت گردی،کام چوری ،جعلسازی ، ذخیرہ اندوزی اور بدعنوانی جیسے مسائل بالکل ختم نہیں تو نصف ضرور ہو جائیں گے ۔ جو وسائل ہم قومی ادارہ احتساب اور اینٹی کرپشن جیسے محکموں پر خرچ کر رہے ہیں اگر یہ وسائل بچوں کو اچھا پاکستانی اور مسلمان بنانے کیلئے بروئے کار لائے جائیں تو ممکن ہے آنے والی نسل قومی خزانے کا دفاع کرنے والی سپاہ بن جائے بجائے اس کے کہ وہ اس خزانے کو شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کرنے لگیں ۔

محترم قارئین !یہ وہ مجموعی صورتحال ہے جس کا پاکستانی نوجوان نسل کو سامنا ہے ۔ حکومت پاکستان کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم نوجوان نسل کو کس بے دردی سے ضائع کر رہے ہیں اگر نوجوان نسل کی تعمیر کے معاملے میں یہ غفلت جاری رہی تو پھر مجھے کہہ لینے دیجئے پاکستانی معاشرہ تہذیب اور اخلاقیات سے محروم رہے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :