
صحافی۔ہوشیار باش
جمعہ 25 اپریل 2014

زاہد رضا چوہدری
(جاری ہے)
انکی حالت اگر چہ مکمل ٹھیک نہیں ہے تاہم ڈاکٹروں کے مطابق وہ بہت جلد مکمل صحت یاب ہو کر ہمارے درمیان ہونگے۔
حامد میر پر قاتلانہ حملہ در اصل ایک بہت بڑی سازش دکھائی دیتی ہے۔ ۔یہ اندھوناک حادثہ تو تھا ہی، مگر حادثے کے کچھ ہی دیر بعد حامد میر کے بھائی اور نامور صحافی عامر میر کا قومی سلامتی کے ادارے سے متعلق بیان نے ایک نئی تشویش میں مبتلا کر دیا۔
حامد میر پر قاتلانہ حملہ پورے پاکستان اور بالخصوص صحافی برداری کے لئے ایک المئے سے کسی طور کم نہیں۔ یہ حملہ ان تک محدود رہتا تو ہزم ہوجاتا کیوں کہ صحافی پوری دنیا میں عدم تحفظ کا شکار ہے جبکہ پاکستان اسوقت صحافیوں کئلئے خطرناک ترین ملک سمجھا جاتا ہے۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق پاکستان میں اب تک54 صحافی قتل کئے جا چکے ہیں ۔ نجی چینل کے غیر ذمہ دارانہ رویئے سے فی الوقت معاملہ اس قدر گھمبیر ہو چکا ہے کہ مستقبل قریب میں تو ٹھندا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ اسکے کیا نتائج نکلتے ہیں اور یہ معاملہ کہاں جا کر رُکتا ہے ، اس پر کچھ کہنا یا رائے قائم کرنا ابھی قبل از وقت ہے
اس سارے معاملات و محرکات کا بغور جائزہ لینے کے بعد ایک یہ بھی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ صحافی بیچارہ ہمیشہ سے میڈیا مالکان کے ہاتھوں قربانی کا بکرہ بنتا ہے۔ ملکی اور بین الاقوامی اہم امور پر پالیسی میڈیا مالکان کی خودساختہ اور مفاد پر مبنی پالیسی کا پرچار اور نفاذ صحافیوں سے کروایا جاتا ہے اور صحافی اندازہ ہی نہیں کر پاتا کہ اُس کے ساتھ کس کس طرح سے ہاتھ ہوتا ہے۔اسکی قابلیت اور صحافتی مہارت کو جذبات پر مبنی رپورٹنگ یا زرد صحافت کی نظر کرنے کی کوشش کر کے اُسے صحافتتی مقصدیت اور مشن سے دور کیا جاتا ہے۔میڈیا مالکان، حکومت اور ادارے سب اپنی اپنی آپس کی جنگ اور طاقت آزمائی میں آج کے اہم اورvibrant ستون میڈیا کو استعمال کرتے ہیں۔کیونکہmeritاور صحافتی تقاضوں کے عین مطابق کی جانے والی رپورٹنگ سے ایسے تمام مفاد پرستوں اور منحرف طبقے کا معاشرے میں survival مشکل ہوجاتا ہے اسی لئے یہ تمام طاقتیں صحافتی حلقے کو ایکdriving force کی طرح استعمال کرتے ہیں۔بالکل اسی طرح جیسے کسی شخص کو نشے کی عادت ڈال کر اسکا ذہن ماوٴف کر دیا جائے پھر اس سے عقلی کام کی بجائے جسمانی کام لیا جائے ۔حامد میر کے کیس کے تانے بانے بھی اسی طرف جاتے دکھائی دیتے ہیں۔آئی ایس آئی سے لاکھ تحفظات کے باوجود حامد میر نے کبھی ملکی مفاد کے خلاف بات نہیں کی اور عامر میر کا بیان بھی اگر چہ غیر ذمہ داررانہ تھا مگر بھائی کی critical حالت کے سبب قابل معافی تھا۔جبکہ انکے بیان کے فوری بعد قومی سلامتی کے ادارے کے خلاف ہرزہ سرائی نے دنیا بھر میں پاکستان اور آئی ایس آئی کے دشمنوں کو کُھلا موقع فراہم کر دیا ہے۔یہ ملک ایک گھر کی طرح ہے اورایک گھر میں بسنے والوں کو ایک دوسرے سے ہر قسم کی شکائت ایک فطری عمل ہے، مگر اسکے تدارک کے لئے دشمن کو موقع فراہم کرنا اورغیر ذمہ دارانہ رو یئے سے انکی راہ ہموار کرنا ہرگز دانشمندی نہیں ہوسکتی۔
ملک کے سارے ادارے تو اپنی تباہی کی آخری نہج پر ہیں ہی، اب پاک فوج اور آئی ایس آئی جیسے منظم ادارے کو بھی بھی داوٴ پر لگانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ یہی ایک واحد ادارہ بچا ہے جو اپنے انگنت دشمنوں اور دنیا کے پریشر کے باوجود پاکستان کی بقا کی ضمانت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسکے دشمن اسے دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔پرابلم یہ ہے کہ اس ادارے کی اپنی کوئی زبان نہیں۔یہ تو اشارے اور حکم پر کام کرتا ہے اور ملک کے لئے کام کرتا ہے، اسکی زبان اور اسکا spokesperson سول حکومت یا وزارت دفاع ہے جو اس ادارے پر آنے والی ہر تنقید اور آنچ کو روکتا ہے اور اسکا بھر پور جواب دیتا ہے مگر بدقسمتی سے کبھی اسے کیری لوگر کے نام پر ، کبھی میمو گیٹ کے نام پر اور کبھی ناپختہ سول اداروں کے زیر اثر کر کے اس organisedادارے کی ساکھ خراب کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ جسکی بنا پر ادارہ اپنی لائین و لینگتھ کھو بیٹھتا ہے ۔
اب سول اور سکیوریٹی اسٹیبلشمنٹ کے مابین مکمل ہم آہنگی اور ملک کے اندرونی حالات اور سفارت کاری کے معاملات میں ایک پیج پر کھڑے ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت بن گئی ہے ۔کیونکہ ان دونوں قوتوں کے مابین خوشگوار تعلقات ہی ملک کی مفاد میں ہیں۔یہی ایک حل پہلے بھی تھا اور اب بھی صرف یہی ایک حل ہے جس سے حالات کو معمول پر لایا جاسکتا ہے۔دوسری طرف اب حالات اس بات کے بھی متقاضی ہیں کہ صحافی برادری اپنے درمیان unity قائم کریں اور خبر کے معیار، زرد صحافت کا تدارک اور meritپر مبنی صحافت کے لئے صحافتی شعبے ، اسکی ضروریات و ذمہ داریوں کو از سر نوreviewکرے۔اور یہ بات جاننے اور سمجھنے کی بھی کوشش کرے کہ ایک چینل پرکام کرنے والاصحافی دوسرے چینل یا اخبار کے لئے نا معلوم کیوں ہوتا ہے۔ایک چینل کا مالک دوسرے چینل سے صرف بزنس ریٹنگ کے لئے مقابلے پر ہوتا ہے اورمیڈیامالکان کی گورمنٹ سے ٹسل ہو یا کسی ملکی ادارے سے یہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے صحافیوں کو بطور ملازم استعمال کرتے ہیں۔اس طرح صحافی انکی بزنس پالیسی کی ترویج اور اشاعت کی بھینٹ چڑھتا ہے اوراُسی تنخواہ پر کام کرتا جو اسکی مختص ہوتی ہے۔ پھر صحافی کیوں ان میڈیا مالکان کی من پسند پالیسیوں کا حصہ بن کر اپنے صحافتی تقاضوں پر compromise کرے۔صحافت کو انتہائی اہم اور ذمہ دار شعبہ سمجھتے ہوئے ہر صحافی کو اس بات کی بھی احتیاط کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں انکا ادارہ صحافی کی بجائے ان سے ایک ملازم کا کام تو نہیں لے رہا۔ کیونکہ صحافتی تقاضوں سے روشناس صحافی کبھی ڈکٹیشن نہیں لیتا جبکہ ملازم ہمیشہ ڈکٹیشن پر چلتا ہے۔۔حامد میر ہمارا بھائی ہے، دوست ہے اور ہماری صحافی برداری ایک اہم ستون ہے۔اُس پر کئے جانے والے قاتلانہ حملے کا دُکھ ہمیں بھی اُتنا ہی شدیدہے جتنا کہ ایک بھائی یا ایک دوست کو ہو سکتا ہے۔مگر اپنے بھائی اوردوست پر حملے کی آڑ میں ملک اور ملک کے اہم ترین قومی سلامتی کے ادارے کے خلاف کسی بھی قسم کی شرانگیزی نا قابل معافی جُرم تصور کیا جائے گا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
زاہد رضا چوہدری کے کالمز
-
باہمی دلچسپی کے اُمور
بدھ 19 اکتوبر 2016
-
حیا کے سفیر
اتوار 14 فروری 2016
-
آزادی کے بعد
جمعرات 20 اگست 2015
-
شرمناک غفلت۔
جمعہ 24 جولائی 2015
-
مولوی اورسیاست دان
اتوار 31 مئی 2015
-
تربیت کا فقدان۔۔
جمعہ 22 مئی 2015
-
درمیانی راستہ،امن کا راستہ
منگل 6 جنوری 2015
-
حادثات کا تسلسل اور ہماری حکمت عملی
اتوار 15 جون 2014
زاہد رضا چوہدری کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.