انسانیت

بدھ 7 اپریل 2021

Zarfishan Mariam

زرفشاں مریم

انسانیت ایک سمندر ہے ۔اگر کچھ نظریے گندے ہوں توسارا سمندر نہیں ہوجاتا (مہاتما گاندھی)
آج دنیا میں بے شمار مذاہب ہیں ۔ مگر ان سب کی تعلیم ہم آہنگ ہے۔ وہ چیز انسانیت ہے۔ ہر مذہب اور ہر تہذیب نے ہمیشہ انسانیت کا درس دیا ہے۔اگر انسانیت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
مگر آج کے دور میں انسانیت بہت کم نظر آتی ہے انسان ترقی کی دوڑ میں اتنا مصروف اور کھوہ گیا ہے کہ اس میں انسانیت کر رنگ ماند پڑ چکے ہیں۔

دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں جو انسان کو گرا سکے مگر آج انسان نے ہی انسانیت کو گرا دیا ہے۔
آج کے دور میں انسانوں کی منفی سوچ اور عمل دیکھ کر یوں لگتا ہے کے انسانوں میں سے انسانیت ختم ہو گئی ہے۔انسانوں کے انہی رویوں کے پیش نظر آج ہر طرف بھوک اور افلاس کا راج ہے۔

(جاری ہے)

غنڈہ گردی ،ناانصافی ، بچوں کے ساتھ زیادتی اور ملاوٹ کا ہر طرف بول بالا ہے۔


آج کے دور میں ایسے واقعات سُننے اور دیکھنے میں آ رہے ہیں جو انسانیت کا سرا سر قتل ہے۔ مگر افسوس کسی انسان کو کوئی فکر نہیں پڑتا ۔ افسوس ہمارے رہنما اور لیڈر بھی انسانیت پر زور دینے کی بجائے اپنی طاقت اور ترقی کے پیچھے پڑے ہیں۔کرپشن باعث شرم سے باعث فخر بن چکی ہے۔آج صرف لیڈر یا رہنما ہی نہیں بلکہ ہر دوسرا آدمی کرپٹ ہے۔
انسان اگر انسان نا رہے تو حیوان سے کم نہیں ہوتا ۔

ایک انسانیت ہی وہ چیز ہے جو انسان کو باقی تمام مخلوقات سے اونچا کرتی ہے ۔مگر آج انسان ہی انسانیت کا دُشمن بن چکا ہے۔انسانیت کا احترام دلوں سے اُٹھ چکا ہے۔اور اس کی جگہ بغض و حسد،دُشمنی اور انتقام لینے جیسے جذبوں نے لے لی ہے۔آج انسانیت مجموعی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔کسی کو ناحق قتل کر دینا نا صرف روز مرہ کا معمول ہے بلکہ کچھ لو گوں کے نزدیک تویہ ایک مشغلہ بن گیا ہے۔

بچوں پر ظلم اور زیادتی کرنا ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔انسانوں کو اپنا غلام سمجھنا پیدائشی حق سمجھا جاتا ہے۔انسان اس قدر بے حس ہو گیا ہے کہ عورتوں اور بچوں پر بھی ظلم کرنے سے نہیں گبھراتا۔ایسے بیمار ذہنیت والے لوگ ہی معاشرے کو داغدار کرتے ہیں۔
آج کے دور میں انسانیت دم توڑ چکی ہے۔تب ہی بے حسوں کے اس بازار میں روز انسانیت پامال ہوتی ہے۔

اور ایک بے جان کھلونے کی قیمت ایک جیتے جاگتے انسان سے زیادہ ہے۔
انسان ہونا ہمارا انتخاب نہیں بلکہ قُدرت کی عطا ہے۔ لیکن اپنے اندر انسانیت بنائے رکھنا ہماراانتخاب ہے۔ انسانیت کا اصول رحم دلی ،محبت اور ایثار ہے۔ایسا ہر گز نہیں ہے کہ تمام انسان بُرے ہیں۔بُرے اور اچھے لوگ ہمیشہ ہر جگہ ہوتے ہیں۔اور ہمیں اپنی انسانیت سے تمام بُرائی پر قابض ہونا ہے۔


انسانیت بہت گہری ہیاور اس کی جڑیں بہت مضبوط ہیں ۔ کسی بھی بُرائی کے طوفان سے اس کی جڑیں ختم نہیں ہو سکتی۔ہمیں بس اپنی انسانیت کو اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہم اپنے انسانیت کے کاموں سے اُن تمام لوگوں کو بدل سکتے ہیں جو اپنی انسانیت بھول چُکے ہیں۔اگر ہم اپنا پہلا قدم اُٹھائیں گے تو ہمارے ساتھ بہت سے قدم چلیں گے ۔آج بھی دُنیا بہت سے اچھے لوگوں سے بھری پڑی ہے۔بس وقت اب اکٹھے چلنے کا ہے۔اگر اچھائی آگے بڑھے گی تو بُرائی کو اپنے گُھٹنے ٹیکنے ہی پڑیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :