پاکستان 2100 آزاد کشمیر بھرمیں 130 لائبریریا ں قائم

آزاد کشمیر کے 1270 سکولز اور کالجز میں سے 123 کالجز میں لائبریریاں اور لائبریرین موجود ہیں،رپورٹ

منگل 21 اپریل 2015 19:01

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 21اپریل۔2015ء) 20 کروڑ کی آبادی کے لئے پاکستان بھر میں2100کے لگ بھگ کتب خانے اورآزاد کشمیر بھرمیں 130 لائبریریاں موجود،پاکستان کے نان رورل ایریاز کے 171000 سکولوں اور کالجز میں صرف 481 کالجز میں لائبریریاں اور لائبریرین موجود ہیں اور آزاد کشمیر کے 1270 سکولز اور کالجز میں سے 123 کالجز میں لائبریریاں اور لائبریرین موجود ہیں۔

آزادکشمیر اور پاکستان میں ہائیر سکینڈری سکول سے نچلے درجے کے کسی سرکاری سکول میں لائبریری موجود نہیں۔قومی تعلیمی پالیسی 2009 کے تحت کوئی ایسا سکول نہیں ہو گا جس میں لائبریری نہ ہو لیکن ایسا نہیں ہے ۔بلکہ ابھی تک پاکستان میں لائبریری ایکٹ بھی نہیں بن سکا جبکہ دنیا کہ پسماندہ ترین ممالک (نیپال، بھوٹان) میں بھی لائبریری ایکٹ موجود ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان میں لائبریروں اور کتاب بینی کی دلچسپی کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ پاکستان کے ترقی یافتہ شہر ،ماڈل سٹی اسلام آباد میں کل418 تعلیمی ادارے ہیں جن میں سے صرف 67 میں لائبریری موجود ہے۔جبکہ صرف 53 اداروں میں لائبریریاں موجود ہے۔ اسلام آباد میں ایف جی جونئیر ماڈل سکولز (جن کو بعد میں اسلام آباد ماڈل سکولز میں تبدیل کر دیا گیا تھا )کی کُل تعداد218 (دوسو آٹھارہ) ہے،اور ان218سکولز میں سے ایک میں بھی لائبریری نہیں ہے۔

ایف جی ماڈل اسکولز( ان کو بھی بعد میں اسلام آباد ماڈل اسکولز میں تبدیل کر دیا گیا تھا) کی کل تعداد 58(اٹھاون ) ہے۔اوران اٹھاون اداروں میں سے بھی ایک میں بھی لائبریری قائم نہیں گئی۔اسلام آباد میں ایف جی سیکنڈری اسکولز ( جن کو بھی بعد میں اسلام آباد ماڈل اسکولز میں تبدیل کر دیا گیا تھا) کی کُل تعداد 102ہے جن میں سے صرف 29 میں لائبریری ہے اور 73میں کوئی لائبریری نہیں ۔

فیڈرل بورڈ سے الحاق کے لئے لائبریری اور Qualified librarian (جس نے لائبریری سائنسز میں ڈگری حاصل کی ہو)کا ہونا ضروری ہے ۔لیکن ان 73اداروں میں کوئی لائبریری نہیں اور یہ فیڈرل بورڈ سے الحاق شدہ ہیں۔ایف جی ہائر سیکنڈری اسکولز ( جن کو بھی بعد میں اسلام آباد ماڈل اسکولز میں تبدیل کر دیا گیا تھا) کی کل تعداد 20ہے ان میں لائبریرینز کی 12سینکشن پوسٹیں موجود ہیں جن میں سے 6 ایسی ہیں جن پر Qualified librarianموجو د نہیں یعنی انہیں کوئی کلرک چلا رہا ہے۔

ایف جی کالجز (جن کو بعد میں اسلام آباد ماڈل کالجز میں تبدیل کردیا گیا تھا)کی کل تعداد 10ے ان میں لائبریرینز کی9 سینکشن پوسٹیں موجود ہیں جن میں سے 7 پر Qualified librarianموجو د ہیں جبکہ 2 خالی ہیں۔اسلام آباد ماڈل کالجز (جو شروع سے ہی ماڈل کالجز کے طور پر کام کررہے ہیں )کی کل تعداد 20ہے لائبریرینز کی7 1سینکشن پوسٹیں ہیں جن میں سے8 پر Qualified librarian کام کر رہے ہیں اور 9 خالی ہیں۔

تین ماڈل کالجر ایسے بھی ہیں جن میں سرے سے لائبریری موجود ہی نہیں ہے ، نہ لائبریری نہ لائبریرن پھر بھی فیڈرل بورڈ سے الحاق شُدہ ہیں۔ یوں اسلام آباد میں کل418 تعلیمی ادارے ہیں جن میں سے صرف 67 میں لائبریرین موجود ہے۔جبکہ صرف 53 اداروں میں لائبریریاں موجود ہے۔ منسٹری آف ایجوکیشن گورنمنٹ آف پاکستان نے منظور کیا ہے۔اس سکیم آف سٹڈیز کے تحت ہر سکول ،کالج کی ہر کلاس کے لئے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ ہر جماعت کے ہفتے کے دو پریڈ لائبریری کے ہونگے۔

اور اس پالیسی کے تحت ہر ادارے کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ہر جماعت کے ہفتے کے دو پریڈ لائبریری کے لگانے۔جس کے دوران ایک لائبریرین،ایک اسسٹنٹ لائبریرین اور ایک ایٹنڈڈ کی موجودگی میں طلباء و طالبات کو باقائدگی میں کتب بینی کے حوالے سے تربیت کی جائے ۔مطالعہ کتب کے حوالے سے ان کے مسائل کو پرکھا جائے۔لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ 88 فی صد اداروں کے پاس تو لائبریری ہی نہیں۔

وہ کیسے لائبریری پریڈ لگائیں گے؟اور جن گنے چنے اداروں میں لائبریری موجود ہے اُن میں بھی لائبریر ی پریڈ لگانے کی زحمت گوارہ نہیں کی جاتی ۔بلکہ پیشتر اداروں کے نوٹس بورڈ پر نصب ٹائم ٹیبل میں لائبریری پریڈ کا ذکر ہی نہیں۔طلباء و طالبات شیشے کے شیلف میں بند کتب کا دور سے نظارہ کرتے رہ جاتے ہیں۔آئی ایم سی بی ایف ایٹ فورمیں لائبریری کے باہر Digital library کا بورڈ نصبہے اوراند ر سب کام مینول ہورہا ہے ۔

پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ایف ایٹ فور کالج میں ایکس پرنسپل وحید الدین کے دور میں ڈارائیکٹر ماڈل کالجز مجاہد ضمیر اور ایکس ڈی جی و پرنسپل شائستہ پیرزادہ نے اس Digital library کا افتتاح کیا۔اور ان سربرہانِ ادارہ جات کے علم ِوسیع کے مطاتق لائبریری میں تین چار کمپیوٹر رکھ کر اُسے انٹر نیٹ سے Connectکرنے کو Digital library کہتے ہیں ۔سابق دور حکومت(پیپلز پارٹی) میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی نے حکومت سے سفارش کی تھی کہ اس پروفیشن سے وابسطہ لوگوں کے لئے بھی ترقی کی رائیں کھولی جائیں۔

لیکن وہ سفارش بھی کام نہ آسکی ۔بلآخر تنگ آہ کر اس پروفیشن سے وابسطہ لوگوں نے عدالت کا دورازہ کھٹکایا ہے۔جانے وہاں کی دستک بھی اُن کے کچھ کام آتی ہے کہ بیکار جاتی ہے۔پاکستان میں لائبریر یوں کی حالتِ زار بہتر بنانے کے حوالے سے باقائدہ قانون سازی کی واحد کوشش سابق دور حکومتمیں ہوئی ۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم نے سینٹرایس ایم ظفر کی زیرِنگرانی اس حوالے سے کافی مثبت سفارشات پر کام کیا ۔اس کمیٹی کے ممبران میں سلیم سیف اﷲ ،پروفیسر ابراہیم ،عبدالخالق،سعیدہ اقبال،ریحانہ بلوچ اور دیگر نے بہت کا م کیا اس سلسلے میں پہلی بار سفارشات کو حتمی شکل بھی دی۔لیکن پھر گورنمنٹ تبدیل ہوگی۔اور رات گئی بات گئی ۔

متعلقہ عنوان :