پاکستان کیلئے موسمیاتی تبدیلی کے خطرات اور غذائی تحفظ کے حوالہ سے جائزہ رپورٹ جاری

جمعرات 31 مئی 2018 17:46

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 31 مئی2018ء) ورلڈ فوڈ پروگرام او ایس ڈی پی آئی نے پاکستان کیلئے موسمیاتی تبدیلی کے خطرات اور غذائی تحفظ کے حوالہ سے جائزہ رپورٹ جمعرات کو وزارت موسمیاتی تبدیلی میں جاری کر دی۔ اس موقع پر وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی مشاہد الله خان، سیکرٹری وزارت موسمیاتی تبدیلی خضر حیات خان، پارلیمانی سیکریٹری روبینہ خورشید عالم اور وزارت موسمیاتی تبدیلی کے حکام سمیت ایس ڈی پی آئی اور ورلڈ فوڈ پروگرام کے نمائندے بھی موجود تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی دنیا کی ترقی کیلئے ایک اہم چیلنج کے طور پر سامنے آئی ہے جس کی وجہ سے انسانی زندگی، ماحولیاتی نظام، مقامی و قومی اور عالمی معیشت متاثر ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے حوالہ سے سب سے زیادہ خطرناک ملکوں میں شامل ہے اور یہ خطرات خوراک اور غذائیت کے عدم تحفظ کی وجہ سے اور بڑھ گئے ہیں۔

پاکستان میں تحفظ خوراک حکومت کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکی ہے جس کا ذکر وژن 2025ء کے علاوہ اور بہت سی پالیسی دستاویزات میں نمایاں کیا گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا اثر تحفظ خوراک کے تمام پہلوئوں جس میں اس کی دستیابی، رسائی، استعمال اور استحکام شامل ہیں، پر پڑے گا۔ موسمیاتی تبدیلی کی وزارت اور ورلڈ فوڈ پروگرام نے مشترکہ طور پر یہ رپورٹ تیار کی ہے جس کا مقصد ماحولیاتی تبدیلی کا تحفظ خوراک پر اثرات کا مشاہدہ کرنا ہے۔

اس رپورٹ کا مقصد پریکٹس اور پالیسی سازوں کیلئے زرعی ماحولیاتی علاقوں سے منسلک خطرات کی نشاندہی کرنا اور ان کے سدباب کیلئے سفارشات مرتب کرنا بھی ہے۔ اس رپورٹ کے تین اہم مقاصد ہیں۔ تحفظ خوراک اور موسمیاتی تبدیلی کے درمیان تعلق کو اجاگر کرنا، خاص طور پر جب یہ پاکستان میں درجہ حرارت کی تبدیلی اور موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ہو، پاکستان میں نامزد زرعی ماحولیاتی زونز پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو سمجھنا، سب سے زیادہ کمزور سماجی طبقہ کیلئے موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے خوراک کے عدم تحفظ سے متعلق صلاحیت پیدا کرنا اور اس کے اثرات سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی کی نشاندہی کرنا، تحفظ خوراک سے متعلق اہم جگہوں کی نشاندہی کرنے کیلئے اس رپورٹ میں دیرپا موسمیاتی تغیرات کے ساتھ ساتھ تحفظ خوراک کے عالمی اور قومی ڈیٹا کو استعمال کیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کا تحفظ خوراک پر اثر پاکستان میں موجود زرعی پیداوار سے متعلق مواد کے ذریعے جانچا گیا ہے، ہم نے پیداواری فنکشن پر لاگو ہونے والے مواد، دوسرے نمونوں اور رجعت کی تکنیکوں پر توجہ مرکوز کی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سٹڈی تمام سٹیک ہولڈرز کی آراء پر مبنی زرعی ماحولیاتی زونز کی خطرے کی سطح کے حوالہ سے نقشہ بندی مہیا کرتی ہے۔

آئی پی سی کی پانچویں تشخیصی رپورٹ 2013ء کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کا جنوبی ایشیاء پر درجہ حرارت میں اضافہ، غیر متوازن بارشوں اور مون سون کے موسم میں تبدیلی کی صورت میں بڑا گہرا اثر ہو گا۔ اس کے نتیجہ میں انتہائی موسمیاتی واقعات رونما ہوں گے جیسا کہ سیلاب اور خشک سالی، جس سے ملکی خوراک کی سلامتی متاثر ہو گی۔ مثال کے طور پر 2010ء کے سیلاب سے ملک کے 20 ملین افراد متاثر ہوئے جس کا ان کے روزگار پر تباہ کن اثر ہوا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زرعی ماحولیاتی زونز اور معیشت کے تعلق کا تجزیہ، ماحولیاتی خطرات کو جانچنے کیلئے منطقی طریقہ پایا گیا ہے۔ زرعی ماحولیاتی زونز کے پیٹرن میں تبدیلی کا لوگوں کے روزگار کے ساتھ تعلق بھی نوٹ کیا گیا ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ زرعی ماحولیاتی زونز پر سب سے تازہ ترین ڈیٹا کی روشنی میں نظرثانی کی جائے اور اسے مزید بہتر بنایا جائے۔

رپورٹ کے مطابق 1960ء سے اب تک پاکستان کا اوسط درجہ حرارت، تخمینہ اوسط شرح پر Decade 0-07c کے حساب سے 0-35 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھا ہے۔ اس پیریڈ کے دوران کہیں بارشیں زیادہ ہونا شروع ہو گئی ہیں جبکہ بعض علاقوں میں کم ہو گئی ہیں۔ پچھلے کچھ عشروں سے جغرافیائی طور پر بارشوں کا تغیر بڑھ گیا ہے۔ شمالی علاقہ جات میں طوفانی بارشوں کا پیٹرن جبکہ ساحلی علاقوں اور بنجر زمینوں پر بارش میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔

مزید برآں مون سون کی بارشوں میں زیادہ تبدیلی اور مون سون کے موسم میں نمایاں وقتی تبدیلی ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ شدید موسمیاتی واقعات بڑھ گئے ہیں جنہوں نے بار بار موسم کی وجہ سے ہونے والے خطرات کو جنم دیا ہے جن میں سے کچھ بہت شدت کے ہوتے ہیں جو کہ بڑے پیمانے پر لوگوں کی زندگیوں، روزگار اور خوراک کی سلامتی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بارشوں کے پیٹرن میں تبدیلی کا ایسی فصلوں کی پیداوار جو کہ بارش پر منحصر ہوتی ہیں، پر گہرا اثر پڑ سکتا ہے۔

مزید برآں درجہ حرارت میں اضافہ بھی خوراک کی پیداوار اس سے تعلق رکھنے والے متغیرات جیسا کہ مٹی کی نمی اور پانی کی دستیابی پر اثر ڈالتا ہے۔ مال مویشی بھی پانی کی دستیابی میں کمی کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں اور موسم کی وجہ سے لاحق خطرات منڈیوں تک ان کی رسائی میں رکاوٹ بنتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں اضافہ متوقع رہتا ہے۔ غریب گھرانے جن کے روزگار کا دار و مدار چھوٹے پیمانے پر بارش پر منحصر زراعت پر ہوتا ہے اور جن کا اس کے علاوہ اور کوئی روزگار بھی نہیں ہوتا، موسم کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے لوگ ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کے دیہی علاقوں میں روزگار کے رجحانات زیادہ تر مقامی عوامل جیسا کہ موسم، زمین کی آبپاشی اور منڈیوں تک رسائی سے تعلق رکھتے ہیں۔ قدرتی آفات پچھلے 50 سالوں میں زیادہ شدت اور تسلسل سے رونما ہوئے ہیں جن میں 2010ء کے سیلاب نے ملک کے وسیع رقبہ کو متاثر کیا اور تخمیناً 20 ملین لوگوں، اہم ڈھانچوں اور معیشت کو نقصان سہنا پڑا۔

دیہی روزگار خاص طور پر جو زراعت سے متعلقہ ہیں، موسمیاتی آفات سے سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔ زراعت پر منحصر گھرانے بھی سب سے زیادہ متاثر کنندہ ہیں خاص طور پر جو سندھ اور جنوبی پنجاب کے بنجر اور نیم بنجر علاقوں میں موجود ہیں ان کو خشک سالی اور شدید سیلاب دونوں کو خطرہ رہتا ہے۔ پہاڑی علاقوں کے لوگوں جن میں خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے لوگ شامل ہیں، کو بھی سیلاب کا خطرہ ہے جو کہ ان کے روزگار کو متاثر کر سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق آئی پی سی سی کے موسمیاتی خطرات کو جانچنے کیلئے تجویز کردہ مشاہدے اور صوبائی مشیران کے ماہرانہ تجزیہ کو مدنظر رکھتے ہوئے موسم سے مختلف درجوں پر لاحق خطرات کے حوالہ سے علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ موسمیاتی خطرات سے متاثر اہم مقامات میں سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے بنجر اور نیم بنجر علاقے، سیلاب کے خطرات سے لاحق سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے علاقے، خیبرپختونخوا، آزاد جموں و کشمیر کے پہاڑی علاقے اور فاٹا کے وہ علاقے جہاں معدوم روزگار کے ذرائع ہیں، شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بہت زیادہ امکانات ہیں کہ شدید موسمیاتی واقعات جن میں خشک سالی اور سیلاب شامل ہیں، بار بار رونما ہوں گے جن کا موسمی طور پر حساس ذرائع روزگار پر تباہ کن اثر پڑ سکتا ہے۔ موسمیاتی خطرات اور اس کے اثرات کو کم کرنے اور اس سے نمٹنے کیلئے انتظامی اقدامات میں موسمیاتی تبدیلی سے موافقت، موسمیاتی خطرات سے بچائو، تیاری اور اس کی تخفیف جیسے اقدامات شامل ہیں۔

ان اقدامات کی مثالوں میں موسمیاتی موافقت والی زراعت، روزگار کے ایک سے زیادہ ذرائع، قدرتی وسائل کے انتظام کا آغاز، موسم کو زیادہ برداشت کرنے والے اثاثے اور دوسرے خطرات کو کم کرنے اور ان کیلئے قوت مدافعت پیدا کرنے والی سرگرمیاں شامل ہیں۔ بیان کئے گئے اقدامات کے علاوہ اس سٹڈی کے ذریعے تشکیل دیا گیا، موسمیاتی خطراتی نقشہ، جغرافیائی طور پر موسمیاتی خطرات کے انتظام کیلئے مناسب اقدامات کا ایک فائدہ مند حوالہ مہیا کرتا ہے۔