غذا اور غذائیت سے متعلق اموات ،اس حوالے سے طبی پیچیدگیاں باعث تشویش ہیں ،سینیٹر عثمان خان کاکڑ

منگل 12 جون 2018 18:44

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 12 جون2018ء) سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا ہے کہ غذا اور غذائیت سے متعلق اموات اور اس حوالے سے طبی پیچیدگیاں زیادہ ہونا باعث تشویش ہے اور معاشرے کیلئے انتہائی مہلک ہے ،وہ سینٹ کے فلور پر اس سنگین مسئلہ کے حل کے لئے اظہار خیال کریں گے ، صوبہ میں جس طرح ڈونر ایجنسیز جن میں عالمی بینک, یونیسف ,آسٹریلین ایڈ نے اس سنگین مسئلے کا اداک کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری کا احساس کیا ہے وہ قابل تحسین ہے،مگر غذائیت کے سنگین مسئلہ سے متعلق صوبوں اور مرکز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگاجبکہ اس حوالے سے محکمہ صحت حکومت بلوچستان کا بلوچستان نیوٹریشن پروگرام براے ماں و بچے انتہائی اہم نوعیت کا منصوبہ ہی؛ لیکن بدقسمتی سے اس اہم پروگرام کو صوبے کے صرف سات اضلاع میں شروع کیا گیا ہے جبکہ غذائی قلت سے منسلک اموات اور پیچیدگیاں یکساں طور پر صوبے کے دوردراز علاقوں میں یکساں طور پر ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پروگرام کے عملی اقدامات کو دیگر اضلاع میں بھی بڑھایا جائے،اٹھارویں ترمیم کے بعد صحت کا شعبہ صوبوں کو تفویض کردیا گیا ہے مگر ابھی بھی بہت سارے ادارے مرکزی سطح پر ہیں،ضرورت اس امر کی ہے تمام اداروں کے اختیار و پالیسی سازی میں اختیار صوبوں کو دیا جائے تاکہ وہ بہتر انداز میں پالیسی سازی کے عمل میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز بلوچستان نیوٹریشن پروگرام برائے ماں و بچے کے زیر اہتمام پارلیمانی پارٹیوں کے سیاسی نمائندگان کے ایک روزہ سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیمینار میں چیف آف سیکشن نیوٹریشن وصحت زامران مری، پشتونخواملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)،جمعیت علماء اسلام ، بلوچستان عوامی پارٹی،نیشنل پارٹی،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ نواز،مسلم لیگ ق کے رہنماؤں نے شرکت کی، جبکہ عالمی ادارہ خوراک ,یونیسف, عالمی ادارہ صحت, و عالمی ادارہ خوراک و زراعت کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سیکرٹری صحت صالح محمد ناصر نے نیوٹریشن پروگرام برائے ماں و بچے کے سربراہ ڈاکٹر علی ناصر بگٹی اوران کی ٹیم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ صحت حکومت بلوچستان کا اس اہم پروگرام کو شروع کرنے کا مقصد غذائیت کے سنگین مسئلے کا ادراک کرتے ہوئے اس کے منفی اثرات پر قابو پانا اور اس کے اثر سے زیادہ متاثر ہونے والی حاملہ خواتین، دودھ پلانے والی ماؤں اور بچوں کو طبی پیچیدگیوں سے نکالنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانا تھاتاکہ وہ بہتر غذا کا استعمال صحیح انداز میں کرسکیں اور مستقبل کی طبی پیچیدگیوں سے بچ سکیں۔

اس موقع پر بلوچستان نیوٹریشن پروگرام برائے ماں و بچے کے صوبائی سربراہ ڈاکٹر علی ناصر بگٹی, نیوڑیشن ایکسپرٹ ڈاکٹر لطیف ترین نے کہاکہ غذائیت کی کمی بچوں پر براہ راست یا بالواسطہ اثر انداز ہوتی ہے جس کے اثرات سے زیادہ تربچے موت کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ شرح اموات پاکستان میں نہایت زیادہ ہے۔ 2011 ء میں کیے گئے قومی غذائیت کے سروے کے مطابق بلوچستان میں 52 فیصد بچے جن کی عمر پانچ سال سے کم ہے وہ اپنی عمر کے حساب سے پست قد ، 16 فیصدبچے مناسب غذاء نہ ملنے سے لاغر پن کا شکار اور 25 فیصدبچوں کا وزن پیدائش کے وقت بہت کم ہوتا ہے۔

گھر یلو سطح پر آیوڈین ملے نمک کے استعمال کی شرح 45 فیصد ہے، جبکہ بلوچستان کی 48.9 فیصدماوں میں خون کی کمی پائی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ انسان کو دن بھر کی خوراک میں غذائیت کے اعتبار سے جتنے وٹامنز ، معدنی اجزاء ، چکنائی ، آئرن ، کیلشیئم اور دیگر اجزاء کی ضرورت ہے وہ پوری ہونی چاہیئے۔ یہ خواتین اور بچوں اور خصوصاً نومولود یا دوسال کی عمر کے بچوں سے لیکر پانچ سال تک کی عمر کے بچوں ، حاملہ خواتین اور بچے کی پیدائش کے بعد بچے کو دودھ پلانے والی خواتین کیلئے ضروری ہوتا ہے۔

خو راک میں غذائیت کا تواز ن برقرار رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ خوراک میں دودھ ، انڈے ، دہی ، تازہ پھل ، مچھلی ، گوشت ، شہد ، مکھن ، پنیر اور دیگر اشیاء شامل ہیں۔ لیکن اگر مہنگائی کے زمانے میں غریب خاندانوں میں غذائیت قلت ہے تو پھر اس کو غذائیت قلت کے اجزاء کا معلوم کر کے غذا میں غذائیت کے یہ اجزاء دیئے جائیں۔ ایسی اشیاء کھانے پینے کی چیزیں تجویز کی جاتی ہیں جن سے خواتین اور بچوں میں غذائی قلت دور ہوسکے۔

انھوں نے کہا کہ موسمی تغیراتی عمل اور گلوبل وارمنگ آبادی کا بڑھنا غربت اور افلاس ،صاف پانی کی عدم دستیابی معلومات تک عدم رسائی وہ عوامل ہیں جن سے غذائیت سے متعلق لوگوں میں شعور آگاہی نہیں پائی جاتی۔ تقریب کے اختتام پر زی کے فلمز کی جانب سے پروگرام کے حوالے سے بنائے گئی ڈاکومنٹری بھی پیش کی گئی۔