پاک بھارت کشیدگی میں کمی کے لیے چینی تعاون کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہیں

چینی حکومت کی کوششوں سے جنوبی ایشیا میں استحکام،عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے میں مدد ملے گی سینئر نائب صدر سارک چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری افتخار علی ملک

اتوار 24 جون 2018 12:50

لاہور ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 جون2018ء) سارک چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر افتخار علی ملک نے چین کی طرف سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرانے میں تعاون کے لیے سہ فریقی مذاکرات کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں امن و استحکام کے لیے چینی حکومت کی کوششوں سے جنوبی ایشیا میں استحکام اور عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

یہ بات انھوں نے گذشتہ روز اپنے ایک بیان میں کہی۔انہوں نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان مذاکرات کے لیے ذرائع کو مضبوط بنانا، مسائل کا حل، دوطرفہ تعلقات میں بہتری اور خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس ضمن میں چین کی جانب سے کردار ادا کرنے کی پیشکش خوش آئند ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کو داخلی طور پر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم منطقی طور پر بھارت کا مقابلہ کرسکیں۔

انہوں نے کہا کی بھارت پاکستان کو دنیا میں تنہا نہیں کرسکتا تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ چین دونوں ممالک کو مذاکرات کی میز پر لانے کا خواہشمند ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین نے 2006 ء میں سارک میں مبصر کا درجہ ملنے کے بعد رکن ممالک میں تجارت، سرمایہ کاری اور زراعت میں تعاون کو فروغ دیا ہے اور جنوبی ایشیا میں چین کی سرمایہ کاری 30 بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہے اور اس کی جانب سے جنوبی ایشیائی ممالک کو رعایتی شرح پر قرضہ 25 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے اس کے علاوہ وہ خطے کے 10 ہزار طلبہ کو وظائف اور ہزاروں افراد کو فنی تربیت بھی فراہم کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور بھارت جنوبی ایشیا کے اہم ممالک ہیں لیکن کشمیر کی صورتحال نے بین الاقوامی برادری کی توجہ کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے،آزادی کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں جن میں سے دو جنگیں کشمیر پر ہوئیں۔ان کا کہنا تھا کہ کشمیری عوام اپنے حق خود ارادیت کے لیے بر سر پیکار ہیں جبکہ بھارت نے ریاست میں پانچ لاکھ سے زائد فوجیوں کو تعینات کر رکھا ہے، 1989ء سے اب تک بھارتی افواج 70 ہزار سے زائد لوگوں کو شہید کرچکی ہیں اس کے باوجود وہ کشمیریوں کی آواز کو دبانے میں ناکام ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر امریکا اور شمالی کوریا ایٹمی فلیش پوائنٹ سے واپس آسکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کیوں حل نہیں ہو سکتے۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کیونکہ اس سے خطے میں خوشحالی کا دوردورہ ہو گا اور عوام بے روزگاری اور غربت سے نجات پائیں گے اس لیے بھارتی حکومت کشمیر میں ریفرنڈم کے انعقاد کا وعدہ پورا کرے۔

افتخار علی ملک نے کہا کہ پاک بھارت کشیدگی کے خاتمے کے لیے مؤثر اور مضبوط علاقائی و کاروباری رابطے انتہائی ضروری ہیں۔ انہوں نے جنوبی ایشیا میں ٹریڈ لبرائزیشن کے عمل کو تیز کرنے کے لیے سارک حکومتوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ رکن ممالک میں تعاون اور تجارت کو فروغ دینے سے ہمارے لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ افتخار علی ملک نے کہا کہ اگرچہ یہ مشکل عمل ہے لیکن ناممکن نہیں ، ہمیں ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے آپس میں تعاون کو فروغ دینا چاہیے خاص طور پر تجارت میں آسانی اور ویزا پابندیوں میں نرمی پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ہمیں عوامی رابطوں کی حوصلہ افزائی اور زندگی کے تمام شعبوں میں تعاون اور روابط کے اس راستے کو تلاش کرنا ہے جو ہمارے درمیان اچھے تعلقات کو فروغ دینے میں معاون ہو۔