خون دینے سے ہارٹ اٹیک کاخطرہ 33فیصد کم ہو جاتاہے،محسن عباس

جمعرات 12 جولائی 2018 16:19

ملتان۔12 جولائی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 جولائی2018ء) باربار لیکن کم ازکم 90دن کے بعد خون دے کر ہارٹ اٹیک کاخطرہ 33فیصد کم کیا جاسکتا ہے،حکومت پنجاب کے پروجیکٹ خادم پنجاب ریجنل بلڈ سنٹر ملتان کے منیجر مارکیٹنگ محسن عباس نے اے پی پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ صحت مند انسان کی طرف سے خون دینا نہ صرف صدقہ جاریہ ہے بلکہ یہ اس کی اپنی صحت کے لیے بھی بہت مفید ہے،انہوں نے کہاکہ یورپی ممالک اور امریکہ میں ہسپتال میں داخل ہونے والے مریض کے لواحقین کوخون کابندوبست نہیں کرناپڑتا بلکہ یہ ہسپتال کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ خون مہیا کرے اورایسا ہی ہمارے پڑوسی ملک ایران اورسری لنکا میں بھی ہے جبکہ پاکستان میں مریض کے لواحقین خون کے لیے مارے مارے پھرتے رہتے ہیں،محسن عباس نے کہاکہ انسانی ہمدردی اور رضاکارانہ بنیادوں پر خون دینے کی وجہ سے ہم ایمرجنسی کیسز کے علاوہ حاملہ خواتین اور تھیلیسمیا کے مریضوں کوریگولر بنیادوں پرخون مہیا کررہے ہیں ،صرف ملتان میں تھیلیسمیا کے مریضوں کیلئے تقریباً 1200بلڈ بینک ماہانہ فری دیئے جارہے ہیں اور یہ انسانیت کادرد رکھنے والے افراد کی طرف سے مہیا کردہ ٹیسٹ کیا ہوا خون ہوتا ہے،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ نشترہسپتال کو کم ازکم250بلڈ بیگ روزانہ کی ضرورت ہے اورہمارا مشن ہے کہ خون کی ضرورت اورہسپتالوں میں مریضوں کی ضرورت کو صحت مند خون مہیا کریں،انہوں نے کہا کہ ہمارے ذریعے خون دینے والے ’’ڈونر‘‘کے آٹھ ٹیسٹ جس میں ملیریا ،ایڈز،ہیپاٹائٹس وغیرہ شامل ہیں،فری کیے جاتے ہیں اوراگر اسے کوئی بیماری ہوتو ہمارا ڈاکٹر اس کی کونسلنگ بھی کرتا ہے، اس کے علاوہ ڈونر کے ’’بلڈریلیشن‘‘ کے مریضوں کو اگر خون کی ضرورت ہو تو وہ بھی مفت مہیا کیاجاتا ہے،منیجر مارکیٹنگ بلڈ بینک نے بتایا کہ ریگولر بنیادوں پر خون دینے والوں کوہارٹ اٹیک کے علاوہ پھیپھڑوں ،جگر،معدہ اور گلے کے کینسر کے خطرات بھی بہت کم ہوجاتے ہیں ،تاہم خون ہمیشہ ٹیسٹ کروا کر ہی لگانا چاہیے کیونکہ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ کے مطابق مختلف اقسام کی 40فیصد بیماریاں مریضوں کو ڈونر سے ڈائریکٹ خون لے کر لگوانے سے ہوتی ہیں۔