پاکستان، چین، روس اور ایران کے حساس اداروں کے سربراہوں کا مشترکہ اجلاس

چاروں ممالک کا خطے سے دہشت گردی اور داعش کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششیں کرنے پر اتفاق داعش پاکستان میں بھی خود کش حملوں کی منصوبہ بندی کرتی ہے ،چاروں ممالک نے طالبان کو تشدد کی کاروائیاں ختم کرنے کیلئے راغب کرنے کی کوشش کی،داعش افغانستان کے 9صوبوں میں فعال ہے،ذرائع امریکہ افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کی حمایت کر رہا ہے،روسی خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ افسر سرگئی ایوانوف

جمعرات 12 جولائی 2018 21:41

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 12 جولائی2018ء) تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستان، چین، روس اور ایران کے حساس اداروں کے سربراہوں کا مشترکہ اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں چاروں ممالک نے خطے سے دہشت گردی اور افغانستان سے داعش کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششیں کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ جمعرات کو سرکاری ذرائع نے بتایا کہ پاکستان نے دیگر تین ممالک کے حساس اداروں کے سربراہوں کی میزبانی کی ہے، جس میں خطے سے دہشت گردی کے خاتمے ، انسداد دہشت گردی کیلئے تعاون کے فروغ اور افغانستان سے داعش کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششیں کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

اجلاس میں مزید اتفاق کیا گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ سے جنم لینے والے گروپ ’’داعش‘‘ کو چاروں ممالک کی سرحدوں سے دور رکھنے کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

اجلاس میں شرکت کرنے والے چاروں ممالک براہ راست داعش کی دہشت گردی کی کاروائیوں سے متاثر ہیں تاہم یہ اجلاس کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف منعقد نہیں کیا گیا۔ روس کے حساس ادارے کے ترجمان نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے باعث اسلام آباد میں چاروں ممالک کے حساس اداروں کے نمائندوں کو ملاقات کرنا پڑی۔

اجلاس میں شام ،عراق سے داعش کے دہشت گردوں کی افغانستان آمد روکنے کیلئے تجاویز پر غورکیا گیا۔اجلاس میں روس کی خفیہ ایجنسی کی نمائندگی سرگئی نارشکن نے کی ، روس کی خفیہ ایجنسی کے ڈائریکٹر سرگئی ایوانوف نے روسی میڈیا کے ادارے ’’تاس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں تمام شرکا نے مل کر داعش کے خلاف اقدامات کرنے کیلئے تعاون پر اتفاق کیا ہے۔

اجلاس کے دوران روس کی جانب سے لگائے جانے والے ان الزامات کا بھی جائزہ لیا گیا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ امریکہ افغانستان میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کی حمایت کر رہا ہے، واشنگٹن میں ان الزامات کو افواہ قرار دے کر مسترد کر دیا گیا تھا اور داعش کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو طالبان کی کاروائیوں کے ساتھ منسلک کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ میں روس کے نمائندے وزیلی نابینزیانے کہا کہ داعش افغانستان میں اپنے تربیتی مراکز قائم کر رہا ہے اور اس میں ایسے دہشت گردوں کو شامل کیا جا رہا ہے جن کا تعلق مشرق وسطیٰ کی ریاستوں سے ہے، داعش میں اس وقت دس ہزار سے زائد عسکریت پسند موجود ہیں اور یہ افغانستان کے 34صوبوں میں سے 9صوبوں میں فعال ہیں، ایران بھی خطے میں داعش کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی وجہ سے ہونے والی کاروائیوں پر تحفظات کا اظہار کر چکا ہے، داعش افغانستان میں کام کرنے والے اپنے عسکریت پسندوں کو صوبہ خراسان کا نام دیتی ہے، داعش کی جانب سے افغانستان اور پاکستان میں متعدد کئے جا چکے ہیں۔

پاکستانی سرکاری ذرائع کاکہنا ہے کہ داعش نے افغانستان کے ایسے خطرناک علاقوں میں اپنے تربیتی مراکز قائم کئے ہیں جن پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے اور یہ سرحد پار سے پاکستان میں حملے کرتے ہیں۔پاکستان، چین، روس اور ایران نے طالبان کے ساتھ رابطے قائم کئے ہیں تا کہ انہیں عسکریت پسندی کی کاروائیاں ختم کرنے پر آمادہ کیا جا سکے اور مذاکرات کی طرف راغب کیا جا سکے تاہم ان رابطوں نے افغانستان اور امریکہ کو پریشان کر دیا ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ ایسے رابطے طالبان کی دہشت گرد کاروائیوں کو قانونی قرار دینے کے مترادف ہیں۔