متوقع وزیراعظم15اگست کوحلف اٹھا سکتے ہیں،علی ظفر

11اگست کواسپیکراورڈپٹی اسپیکراور13اگست کو نئے وزیراعظم کیلئے کاغذات نامزدگی جمع ہوں گے، پاکستان کوپانی کی شدید قلت کا سامنا ہے، ڈیمز کا نہ بننا آئندہ حکومت کیلئے بڑاچیلنج ہے۔نگراں وفاقی وزیراطلاعات ونشریات کی پریس کانفرنس

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ پیر 6 اگست 2018 16:54

متوقع وزیراعظم15اگست کوحلف اٹھا سکتے ہیں،علی ظفر
اسلام آباد(اُردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔06 اگست 2018ء) : نگراں وفاقی وزیراطلاعات ونشریات سید علی ظفر نے کہا ہے کہ متوقع وزیراعظم 15اگست کو عہدے کا حلف اٹھا سکتے ہیں،11 اگست کو اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر، اور13اگست کو نئے وزیراعظم کے لیے کاغذات نامزدگی جمع ہوں گے،پاکستان کوپانی کی شدید قلت کا سامنا ہے،ڈیمز کا نہ بننا آئندہ حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہے۔

انہوں نے آج یہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ 7 اگست کوالیکشن کمیشن تمام ارکان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کرے گا۔9 اگست تک ارکان کواپنی پارٹی پوزیشن واضح کرنا ہوگی۔10اگست کوخواتین اور اقلیتی نشستوں پرکامیابی کانوٹیفکیشن جاری ہوگا۔11اگست کو اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکرکے عہدے کیلئے کاغذات جمع ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ 13 اگست کو نئے وزیراعظم کے لیے کاغذات نامزدگی جمع ہوں گے۔

(جاری ہے)

جبکہ 15اگست کو ارکان نئے قائد ایوان کا انتخاب کریں گے۔15اگست کو متوقع وزیراعظم حلف اٹھا سکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ پوری قوم کو پانی کی کمی کے مسائل کا ادراک ہے۔پاکستان کوپانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔پانی کی قلت کودور کرنے کیلئے 10 تجاویز پیش کی ہیں۔انہوں نے کہا کہ پانی بحران کو حل کرنے کیلئے پانی کے بجٹ کو20 فیصد بڑھانا ہوگا۔ دیامیر اور بھاشا ڈیم کیلئے فنڈز جمع کرنا ہوں گے۔

نگراں وزیراطلاعات نے کہا کہ 1960 میں بھارت کے ساتھ انڈس واٹرمعاہدہ ہوا۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت سندھ ، چناب اور جہلم پاکستان کے حصے میں آئے ہیں۔ جبکہ تین مشرقی دریا بھارت کے حصے میں آئے ہیں۔ بھارت نے اپنے دریاؤں پر ڈیم بنا لیے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہم نے معاہدے کے بعد صرف 2 ڈیم بنائے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان نے کالاباغ ڈیم سمیت 6 سے 7 ڈیم بنانے تھے۔

کالا باغ ڈیم بننا چاہیے تھا لیکن اس میں اتفاق رائے نہ ہوسکا۔ کالاباغ ڈیم کو متنازع بنانے میں غیرملکی ہاتھ ملوث ہے۔ ہوسکتا ہے کالاباغ ڈیم کے معاملے پرمس انڈراسٹینڈنگ یا انڈرسٹینڈنگ میں غیر ملکی ہاتھ ہو۔ کالاباغ ڈیم کے علاوہ باقی ڈیم بھی نہیں بن سکے۔یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ باقی ڈیم کیوں نہیں بنے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کے بحران اور پانی ذخیرہ کرنے کیلئے تربیلا اور منگلا کی گنجائش بہت کم ہوچکی ہے۔ ڈیمز کا نہ بننا آئندہ حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہے۔