سپریم کورٹ نے سانحہ آرمی پبلک سکول سے متعلق ازخود نوٹس کیس نمٹا دیا

ہم نے کمیشن بنایا تھا، کیا اس نے رپورٹ جمع کروادی ہی چیف جسٹس کا استفسار 7 گواہان کے بیانات قلمبند ہوچکے ہیں جبکہ 109 کے بیانات قلمبند ہونا ابھی باقی ہیں، جب تک یہ بیانات مکمل قلمبند نہیں ہوتے رپورٹ جمع نہیں کرواسکتے، ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے معاملے کو نمٹا دیتے ہیں، جب رپورٹ مکمل ہوجائے تو اسے سپریم کورٹ میں جمع کروایا جائے، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ریمارکس

پیر 14 جنوری 2019 20:05

سپریم کورٹ نے سانحہ آرمی پبلک سکول سے متعلق ازخود نوٹس کیس نمٹا دیا
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 جنوری2019ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے سانحہ آرمی پبلک اسکول سے متعلق لیا گیا ازخود نوٹس نمٹا دیا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے سانحہ آرمی پبلک اسکول ازخود نوٹس کی سماعت کی، اس دوران ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہم نے کمیشن بنایا تھا، کیا اس نے رپورٹ جمع کروادی ہی اس پر ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے بتایا کہ 147 گواہان کے بیانات قلمبند ہوچکے ہیں جبکہ 109 کے بیانات قلمبند ہونا ابھی باقی ہیں، جب تک یہ بیانات مکمل قلمبند نہیں ہوتے رپورٹ جمع نہیں کرواسکتے۔

جس پر عدالت نے حکم دیا کہ ہم اس معاملے کو نمٹا دیتے ہیں، جب رپورٹ مکمل ہوجائے تو اسے سپریم کورٹ میں جمع کروایا جائے۔

(جاری ہے)

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کی جانب سے تشکیل دیے گئے کمیشن نے سابق کور کمانڈر پشاور جنرل ریٹائرڈ ہدایت الرحمن، سابق آئی جی خیبر پختونخوا ناصر خان درانی سمیت اہم عسکری اور پولیس افسران کو طلب کیا تھا۔یاد رہے کہ سانحہ اے پی ایس میں شہید طلبا کے والدین کی درخواست اور شکایت کنندگان کے ازالے کے لیے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

بعد ازاں 5 اکتوبر 2018 کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔جس کے بعد 14 اکتوبر 2018 کو پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے عدالت عظمی کی ہدایات پر جسٹس محمد ابراہیم کی سربراہی میں سانحہ اے پی ایس کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دے دیا تھا۔

یاد رہے کہ 4 سال قبل 16 دسمبر 2014 کی صبح دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں بزدلانہ کارروائی کرتے ہوئے 132 طالبِ علموں سمیت 141 افراد کو شہید کردیا تھا جبکہ اس کارروائی میں اسپیشل سروسز گروپ کے 6 اہلکار اور 2 افسر بھی زخمی ہوئے تھے۔اس مذموم کارروائی کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی تھی۔واقعے کے بعد حکومت کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں متفقہ طور پر نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا گیا تھا جس کے تحت پورے ملک میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز کا آغاز ہوا تھا۔