سپریم کورٹ میں وزارت دفاع نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کر دی

سپریم کورٹ کے فیصلے سے افواجِ پاکستان کے حوصلے پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔افواجِ پاکستان اور آئی ایس آئی پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں، موقف عدالتی فیصلے میں افواجِ پاکستان کے کسی فرد کے ملوث ہونے کی نشان دہی یا شواہد نہیں دیے گئے،افواجِ پاکستان اور آئی ایس آئی کے خلاف دی گئی عدالتی آبزرویشن کو حزف کیا جائے، استدعا

بدھ 17 اپریل 2019 00:20

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اپریل2019ء) سپریم کورٹ میں وزارت دفاع نے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل دائر کر دی۔ منگل کو دائر درخواست میں موقف اختیار کیاگیاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے منفی اثرات مرتب ہوئے،عدالتی فیصلے میں کہا گیا وردی میں ملبوس شخص نے دھرنے کے شرکاء کے درمیان پیسے بانٹے۔انہوںنے کہاکہ عدالتی فیصلے میں عام انتخابات کے شفاف ہونے سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کا حوالہ دیا گیا۔

درخواست میں کہاگیاکہ عدالتی فیصلے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ افواجِ پاکستان اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔ موقف اختیار کیاگیاکہ عدالتی فیصلے میں یہ بات بغیر کسی ٹھوس شواہد کے کہی گئی۔ موقف اختیار کیا گیاکہ افواجِ پاکستان کے سربراہان نے عدالتی فیصلے کی روشنی میں ملوث نامعلوم افراد کیخلاف محکمانہ کارروائی کی ہدایت کی۔

(جاری ہے)

موقف اختیار کیاگیاکہ آئی بی، آئی ایس آئی، پولیس اور وزارت دفاع نے فیض آباد دھرنا سے متعلق متعدد جوابات جمع کروائے۔

درخواست میں کہاگیاکہ جمع کروائے گئے جوابات میں فیض آباد دھرنے کے بارے میں فوج کے بلواسطہ یا بلا واسطہ ملوث ہونے کا ذکر نہیں کیا گیا۔درخواست میں کہاگیاکہ آئی بی کی رپورٹ میں بھی افواجِ پاکستان کے خلاف بات نہیں کی گئی۔ موقف اختیار کیاگیاکہ عدالتی فیصلے میں افواجِ پاکستان اور آئی ایس آئی پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔عدالتی فیصلے میں افواجِ پاکستان کے سربراہان کو دی گئی ہدایات غیر واضح اور مبہم ہیں، عدالتی فیصلے میں افواجِ پاکستان کے کسی فرد کے ملوث ہونے کی نشان دہی یا شواہد نہیں دیے گئے۔

موقف اختیار کیاگیاکہ افواجِ پاکستان اور آئی ایس آئی کے خلاف دی گئی عدالتی آبزرویشن کو حزف کیا جائے۔موقف اختیار کیا گیاکہ عدالتی فیصلے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ آئی ایس آئی اور فوج فیض آباد دھرنے میں ملوث تھی۔موقف اختیار کیاگیاکہ عدالتی فیصلے سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ افواجِ پاکستان اور آئی ایس آئی اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن لگانے، عام انتخابات 2018 میں ملوث رہیں، عدالتی فیصلے میں آئی ایس آئی اور فوج سے متعلق مذکورہ آبزرویشن کی بنیاد اخباری خبریں اور مفروضے ہیں۔

موقف اختیار کیاگیاکہ تاریخ اور عدالتی نظام کا موازنہ دھرنا کیس فیصلے کو سپورٹ نہیں کرتا، موقف اختیار کیاگیاکہ کسی صحافی یا خبر کے مصنف کو بلا کر الزامات کا جائزہ نہیں لیا گیا،موقف اختیار کیاگیاکہ الیکشن کمیشن کے دس جولائی 2018 کے نوٹیفکیشن کا جائزہ لے کر ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کو حتمی طور پر سمجھا جا سکتا ہے، موقف اختیار کیاگیاکہ افواجِ پاکستان کو عام انتخابات، سکیورٹی انتظامات کے لیے بلایا گیا، فوج نے انتخابی عمل میں بے قاعدگی کی صورت میں پہلے پریزائیڈنگ افسر کو بتانا تھا،پریزائیڈنگ افسر کی طرف سے ایکشن نا لینے پر فوج کے مجاز افسر کے علم معاملہ لایا جانا تھا، فوج کے مجاز افسر کو فوری ایکشن کا اختیار حاصل تھا، ڈی جی آئی ایس پی آر نے بیان اس پس منظر میں دیا، افواجِ پاکستان نے محفوظ ماحول اور بے قاعدگیوں کی نگرانی کے لیے اپنی خدمات دیں، موقف اختیار کیاگیاکہ ملک دشمن بیرونی طاقتیں افواجِ پاکستان پر خطے میں انتہا پسندوں کی معاونت کا الزام عائد کر رہی ہیں، یہ تاثر جھوٹا ہے، عدالتی فیصلہ مجموعی طور پر انتہا پسند تنظیموں کی معاونت سے متعلق جھوٹے بیانیے کو تقویت دے رہا ہے، پاکستان خطے میں دہشتگردی کا شکار ہے۔

موقف اختیار کیاگیاکہ پاکستان نے بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھایا ہے، دہشتگردی پر قابو پانے کے لیے ہزاروں معصوم شہریوں اور فوجی جوانوں نے جان کے نذرانے پیش کیے، نظرثانی اپیل میں فوج کے دہشتگردی کے خلاف کاروائیوں اور فوج آپریشن کا بھی تذکرہ کیا گیا ۔موقف اختیار کیاگیاکہ پاکستان میں اس وقت سکیورٹی کی صورتحال میں بہتری آئی ہے، افواجِ پاکستان کے ساتھ ساتھ تمام سیاسی جماعتوں، پارلیمنٹ اور شہریوں کی معاونت سے اچھے نتائج برآمد ہوئے، عدالتی فیصلے پر نظر ثانی نا کی گئی تو بھارت سمیت ملک دشمن عناصر کو جھوٹا پروپیگینڈا کرنے کا موقع ملے گا، اصغر خان کیس اور فیض آباد دھرنا کیس میں بہت فرق ہے، فیض آباد دھرنا کیس میں فوج کے کسی فرد کے ملوث ہونے یا دیگر الزامات سے متعلق شواہد نہیں دیے گئے، فیصلہ جاری کرنے سے قبل الزامات سے متعلق وزارت دفاع یا فوج کے کسی اہکار کو نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔

موقف اختیار کیاگیاکہ دھرنا شرکاء اور حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا، جب دھرنا شرکاء کو واپس جانے کا کہا گیا تو کچھ لوگوں نے کہا ان کے پاس واپس جانے کا کرایہ نہیں۔ موقف اختیار کیاگیاکہ دھرنا شرکائ کو ہٹانے کے وزارت داخلہ کے حکم نامہ پر عملدرآمد کرنے کے لیے سفری خرچ مہیا کیا گیا، معاہدے کے مطابق دھرنا شرکاء کے خلاف ایکشن نہیں ہو سکتا تھا، سپریم کورٹ نے اس حوالے سے وضاحت نہیں مانگی، ڈی جی آئی ایس پی آر کا بیان میڈیا پر حقائق کے برعکس نشر کیا گیا، ٹی وی کی نشریات کو ڈی ایچ اے اور فوجی چھاؤنیوں میں بند کرنے سے متعلق ثبوت فراہم نہیں کیے گئے، ۔

حلف کی خلاف ورزی سنگین الزام ہے جسے بہت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے، ٹھوس شواہد کی عدم موجودگی میں نامعلوم افراد کیخلاف حلف کی خلاف ورزی کی کاروائی ممکن نہیں، آئی ایس آئی کی مداخلت سے متعلق عدالتی آبزرویشنز بے بنیاد ہیں، فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف عدالتی آبزرویشنز کالعدم قرار دی جائیں۔موقف اختیار کیاگیاکہ افواجِ پاکستان کو دی گئی ہدایات واپس لی جائیں۔