Live Updates

وفاقی کابینہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں نے کئی سوالات کھڑے کر دئے

ملک بھر میں سیاسی ہیجان پیدا ہونے کا خدشہ ، اپوزیشن نے بھی معاملہ کیش کروانے کا فیصلہ کر لیا

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعہ 19 اپریل 2019 10:57

وفاقی کابینہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں نے کئی سوالات کھڑے کر دئے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 19 اپریل 2019ء) : پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے سے قبل عوام سے کئی وعدے کیے جن میں سب سے بڑا اور اہم وعدہ ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے کا تھا جس کے لیے عمران خان نے اپنے کھلاڑی اسد عمر کو میدان میں اُتارا، لیکن گذشتہ روز اسد عمر کی اچانک تبدیلی اور وفاقی کابینہ میں بڑے پیمانے پر قلمدان تبدیل ہونے نے کئی سوالات کو جنم دے دیا ہے جن کے جوابات کے لیے عوام کی نظریں موجودہ حکومتی جماعت پر ٹکی ہوئی ہیں۔

اسد عمر کی اچانک تبدیلی سے سیاسی حلقوں میں بھی ہلچل پیدا ہوئی ہے اور اس حوالے سے کئی چہ مگوئیاں بھی کی جا رہی ہیں۔ اسد عمر جنہیں وزیراعظم عمران خان نے اپنی کابینہ کا اوپننگ بیٹسمین کہا تھا ان کے استعفیٰ دینے اور کسی دوسری وزارت کا قلمدان لینے سے انکار نے کئی کان کھڑے کر دئے ہیں۔

(جاری ہے)

وفاقی کابینہ میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کے اندر ہونے والے اختلافات اور آپسی چپقلش پر بھی کئی سوالات اُٹھ رہے ہیں۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وفاقی کابینہ میں کی جانے والی یہ اکھاڑ پچھاڑ کہیں پارٹی کے اندر جاری کھینچا تانی کا نتیجہ تو نہیں۔ کیونکہ بظاہر ایس الگتا ہے کہ یہ فیصلہ صرف اور صرف کارکردگی کی بنیاد پر نہیں کیا گیا۔ پاکستان تحریک انصاف جس نے ملک کے معاشی حالات ٹھیک کرنے کی ٹھانی تھی ، اتنے کم عرصہ میں اسد عمر کو تبدیل کیے جانے کا یہ فیصلہ اگر ان حالات میں معاشی محاذ پر حکومتی پسپائی اور اپنی ناکامی کا اعتراف نہیں ہے تو پھر اسے کیا کہا جائے؟ کیا وزیراعظم وزرا کی کارکردگی سے غیر مطمئن رہے؟ کیونکہ پاکستان تحریک انصاف نے غالباً کارکردگی کی بنیاد پر ہی تو وزار کو قلمدان سونپے تھے ایسے میں کارکردگی نہ ہونے کو بنیاد بنا کر استعفے لیا جانا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

اسد عمر کی تبدیلی سے متعلق تو خبریں کئی روز سے گردش کر رہی تھیں ، جس پر تین روز قبل وزیر توانائی عمر ایوب، اسد عمر کی تبدیلی سے متعلق تردید کرتے نظر آئے۔ سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی تبدیلیوں کی تردید کرتے ہوئے میڈیا کو ذمہ دارانہ رپورٹنگ کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن ٹھیک تین روز کے بعد ہی ان خبروں کا سچ ثابت ہو جانا کیا اس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ حکومت اپنے وزرا کو آپس میں باندھ کر رکھنے اور انہیں کارکردگی دکھانے کی ترغیب دینے میں ناکام ہو گئی ہے؟ وزیراعظم عمران خان تو خود اسد عمر کی تعریف کرتے تھے لیکن اچانک انہیں سے استعفیٰ لے کر ڈاکٹر حفیظ شیخ کو بطور مشیر خزانہ ان کرنا حیران کُن تھا۔

فواد چودھری سے بھی وزارت اطلاعات کا قلمدان لے کر انہیں وزارت کو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا قلمدان دے دیا گیا۔ اعجاز احمد شاہ کابینہ میں بطور وزیر داخلہ ٹیم میں شامل ہوگئے۔ شہریار آفریدی کی وزیر مملکت برائے داخلہ کے عہدے سے چھُٹی ہو گئی لیکن انہیں وزیر مملکت سیفران بنا دیا گیا۔چودھری نثار جیسے منجھے ہوئے سیاستدان کو شکست دینے والے غلام سرور خان سے وزارت پٹرولیم کا قلمدان لے کر انہیں ہوا بازی کا وزیر مقرر کر دیا۔

محمد میاں سومرو کے پاس وزیر نجکاری کا عہدہ ہو گا۔ حکومت کی جانب سے اچانک کیے جانے والے ان فیصلوں نے ملک میں سیاسی ہیجان پیدا ہونے کا خدشہ بڑھا دیا ہے جبکہ دوسری جانب حکومت کے ان فیصلوں پر عوام کا اعتماد حاصل کرنے اور اسے اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتیں بھی متحرک ہو گئی ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت میں کی گئی ان تبدیلیوں کو بنیاد بنا کر عوام کے حکومت پر عدم اعتماد کو مزید فروغ دیا جائے اور کسی طرح حکومت کا اعتماد حاصل کر لیا جائے۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات